شیخ مجیب الرحمان غدارِ وطن تھا؟

 اُستادِ محترم جناب صفدر محمود کے جواب میں! محترم ڈاکٹر صفدر محمود کے لئے میرے دل میں بڑا احترام ہے۔میری ملاقات ان سے کبھی نہیں ہوئی۔ مگر میں انہیں اپنے اساتذہ کے درجے میں رکھتا ہوں۔میں نے اپنے تعلیمی کیریئر کے ابتدائی دورمیں ان کی کتاب پاکستان میں مسلم لیگ کا دورِ حکومت اور سیاست کے ذریعے سے مسلم لیگ کے بارے میں صحیح اور مکمل معلومات حاصل کی تھیں۔قائد اعظم کے بارے میں میرا تحقیقی مقالہ’’قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک مدبر سیاست دان‘‘ایک تحقیقی دستاویزکی شکل میں موجود ہے۔قائداعظم کے بارے میں، میں آپکے ویژن سے مکمل اتفاق کرتا ہوں ۔میں اس بات پر بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ آپ میرے قائد کے بارے میں ہر غلط بیانیئے کا مدلل جواب دے کر ایسی آوازوں کو ہمیشہ کے لئے بند کرا دیتے ہیں۔مگر استادِ محترم میں آپکی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کہ مجیب الرحمان 1948 سے ہی مشرقی پاکستا ن کو پاکستان سے الگ کر دینا چاہتا تھا۔ مجیب الرحمان ایک جذباتی بنگالی نوجوان ضرو رتھا۔ جو قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد تحریکِ پاکستان کا حصہ بنا۔جو1943تا 1947تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا رکن بھی رہا۔اس کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ یہ جذباتی نوجوان قائد اعظم سے ملاقات کی غرض سے سائکل پر سوار ہو کرڈھاکہ سے دہلی آیا اور اپنے قائدسے ملاقات کر کے واپس گیا۔مگر اس کے مغربی پاکستانی سیاست سے اختلافات کا آغاز اُس وقت سے ہوا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ یو نیورسٹی میں یہ اعلان کر دیا کہ ’’پاکستان کی قو می زبان صرف اردو‘ہو گی‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان کی سیاست کا سر گرمی سے حصہ رہا ،اور مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے حقوق کی مسلسل حمایت کرتا تھا ۔مگر اس وقت وہ پاکستان مخالف نہ تھا نہ ہی اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ پاکستان سے مشرقی حصے کوالگ کرنا چاتا تھا ۔

یہ بات حقیقت ہے کہ بعض مغربی پاکستان کے سیاست دان اور خاص طور پر فوجی جنرلزمجیب الرحمان سے خائف تھے۔کیونکہ 1952میں جب حسین شہید سہر ورددی نے عومی لیگ قائم کی تو 1953 میں مجیب الرحمان عومی لیگ میں شامل ہو نے کے بعد اس کا جنرل سیکریٹری بنا دیاگیا۔اس کی اور دیگر بنگالی قوم پرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں بنگالی زبان کو بھی مشرقی حصے میں پاکستان کی قو می زبان تسلیم کر لیا گیا۔1958کے مارشل لاء نے بنگالیوں کے احساسِ محرومی کو بے حد بڑھا دیا تھا۔توبنگالیوں میں غم و غصہ مغربی پاکستان کے خلاف اور بڑھنے لگا۔مگر اس کے باوجود مجیب الرحمان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ایوب خان کے خلاف انتخابات میں شانہ بشانہ کھڑا رہا ۔کیا غدارِ وطن بانی پاکستان کا ساتھ دے سکتا تھا؟یہ بات صفدر محمود بھی مان چکے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پاکستان کا مخالف چاہے دکھاوے کے لئے ہی صحیح کیا بانیِ پاکستا کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں اُن کے شانہ بشانہ چل سکتا تھا؟یہ بات آپکے علم میں بھی ہے کہ ہمارا فوجی ٹولہ بانیاںِ پاکستان سے خائف تھا ۔اُن کی یہ بھر پور کوشش تھی کہ بنگال کے لوگوں سے مغربیم پاکستان کو الگ کر دیا جائے۔حمود الرحمان کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں ایوب خان کے اس ارادے کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔اسی فوجی جنرل نے قائد اعظم کی بہن کو بھی غدار وطن کہا تھا اور اسی جنرل نے کراچی کے مہاجرینِ پاکستان کو کہا تھا کہ’’ ہندوستان سے تو تم لوگ یہاں آگئے ہو اس کے بعد تمہار لئے سمندر ہے‘‘اسی جنرل نے مجیب الرحمان کو غدرا قرار دے کر اگر تلہ سازش کیس کے بہانے پابندِ سلاسل کر دیا تھا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے جن لوگوں سے ہمارے اور اداروں کے مفادات ٹکراتے ہیں اُن کے لئے اس ملک میں غداری کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔

میں کبھی بھی مجیب کا حامی نہیں رہا ہوں۔ مگرسچائی لکھنا میری اخلاقی اور صحافتی ذمہ داری ہے۔ایک ایسے فرد کی کتاب کے حوالے سے جو پاکستان مخالف ایجنسی کا کارندہ ہے آپ کی جا نب سے، 18جنورری 1972کے ڈیوڈ فروسٹ کے لیئے گئے انٹر ویو کے حوالے سے کہا گیا کہ مجیب الرحمان 1948سے پاکستان توڑنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔جو بالکل غلط بات ہے۔اس انٹرویو میں سرے سے ایسی کسی بات کا ذکر ہی نہیں ہے۔ہاں البتہ مجیب الرحمان نے ڈیوڈ فروسٹ کو انٹرویو میں یہ ضرور کہا تھاکہ ’’اب بنگلہ دیش وجود میں آچکا ہے اب مسٹر بھٹو کو یہ شور نہ مچانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بنگلہ دیش ان کی سر زمین ہے۔․․․اگر وہ ایک پاکستان کا دعویٰ کرتے ہیں تواُنہیں پتہ ہونا چاہئے کہ اکژریت میرے ساتھ ہے۔میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں پاکستان کا صدر ہوں ۔اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ مغربی پاکستان کا علاقہ میری مملکت ہے۔میری جماعت اکثریت میں ہے۔میں(اسمبل کا) اجلاس طلب کرسکتاہوں․․․․․ان کو بتا دو کہ مغربی پاکستان بنگلہ دیش حکومت کا حصہ ہے‘‘

صفدر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ مجیبالرحمان 1948سے را کے رابطے میں تھااور بنگلہ دیش بنانے کی جدوجہد کر رہا تھا،حقائق سے نظرٰن چرانے کے مترادف ہے۔حالانکہ ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کا قیام 1968 میں عمل میں آیاتھا ۔تو کیسے مجیب 1948سے را کے رابطے میں تھا؟یہ بات ضرور ہے کہ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان اور پاکستان کی سیاست میں سر گرمی کے ساتھ حصہ لیتا تھا اور بنگالیوں کے حقوق کی بات کیا کرتاتھا۔1954میں وہ جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم سے مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا مشرقیپاکستان اسمبلیمیں اُس نے الگ مملکت کا مطابہنہیں کیا تھا۔وہ1956میں آئینِ پاکستان کی تیار میں بھی شامل رہا۔مگر اس آئین میں بھی وہ صوبائی خود مختاری کے اصول سے متفق نہ تھا۔وہ ہمیشہ بنگالیوں کے حقوق کی بات بلا کسی خوف کے کیاکرتاتھا۔

ہماری عسکری ذہنیت نے مجیب الرحما ن کی جمہوریت پسندی کوہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا۔،کیونکہ جمہوریت پسندی تو ان لوگوں سے ہمیشہ ہی کوسوں دور رہی ہے۔ 1971کاسانحہ ِمشرقی پاکستان ہمارے جنرلز کی ہٹ دھرمی اور جمہوریت کے نعرے لگانے والے اقلیتی رہنماؤں کی خود غرضی کے نتیجے میں ہی پیش آیا تھا۔ اگر ہم اس کے کرداروں کو کاؤنٹ کرنا چاہیں تو اس میں دو سُپر طاقتیں،روس و امریکہ اور پانچ ، علاقائی طاقتیں ،ہند و پاکستان کی سیاسی و عسکری قوتوں سمیت شامل تھیں ۔ان میں پہلا کردار مجیب الرحمادوسر اندرا گاندھی تیسرا ذوالفقار علی بھٹو ،چوتھا ہندوستانی فوج اور اسکی خفیہ ایجنسی،پانچواں کردار پاکستان کے عسکریت پسند جنرلز شامل تھے۔ اس لئے کیا ہم صرف مجیب الرحمان کو ہی غدارِ وطن سمجھیں؟

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 187596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.