این ٹی ایس اور قومی زبان اردو

آزاد کشمیر میں محکمہ تعلیم میں ملازمت کےلیے این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کا ایک دور مکمل ہوچکا ہے اور اطلاعات ہیں کہ اگلےمرحلےپر دیگر محکمہ جات میںملازمین کی بھرتی بھی این ٹی ایس کے ذریعے کی جائے گی۔ این ٹی ایس کے ذریعے سفارش کلچر کو حوصلہ شکنی تو ہوئی ہے لیکن اس سے جو دیگر مسائل جنم لےرہےہیں ان کاسدباب کیا ہوگا۔ سب سے پہلا اوراہم سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیرکا نصاب تعلیم مکمل طور پراردو میڈیم ہے جب کہ این ٹی ایس کا ٹیسٹ خالصتا انگریزی میں لیاجاتا ہے۔ اردو میڈیم میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات انگریزی ٹیسٹ میں کیسے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے ذہین طلبہ وطالبات کی صلاحیتوں کا قتل عام نہیں۔ دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ این ٹی ایس کومعیار قرار دے کر حکمران اپنے تعلیمی اداروں ، بورڈ آف ایجوکیشن اور پبلک سروس کمیشن پرکھلا عدم اعتماد کررہےہیں۔ اگر ان اداروں پر اعتماد نہیں تو انہیں قائم رکھنے اور ان پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے۔ کیا حکومت کایہ فرض نہیں کہ اپنے تعلیمی اداروں، تعلیمی بورڈوں اور پبلک سروس کمیشن کو معیارمطلوب پر لائے۔ اگر وہ اپنے نظام کو بہتر بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھرحکومت صرف گھاس کاٹنے کا کام کررہی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھرمیں قومی زبان اردو کو بطور سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان اختیار کرنے فیصلہ دے رکھا ہے، باالخصوص ملازمتوں کے امتحانات بشمول پبلک سروس کمیشن اور سی ایس ایس کے امتحانات اردو زبان میں لینے کا حکم دے رکھا ہے۔کیا این ٹی ایس کے ذریعے انگریزی میں ٹیسٹ لے کر حکومت صریحا توہین عدالت کی مرتکب نہیں ہورہی۔

این ٹی ایس کا اپنا وجود کئی سوالات کی زد میں ہے۔ اس طرز کے اداروں کا قانونی جواز کیا ہے اور انہیں کس سرکاری ادارے نے امتحانات لینے کا جواز دیا ہے۔ اس طرح این ٹی ایس اور اس طرح کے دیگر ادارے کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں ان کے خلاف کیسز زیر سماعت ہیں۔ یہ ٹیسٹنگ سروس ادارے سابق سول اور آرمی افیسران اور ان کی بیگمات نے قائم کررکھے ہیں جو اپنے اثرورسوخ کے ذریعے سرکاری اداروں سے بزنس حاصل کرتے ہیں۔

این ٹی ایس ٹیسٹنگ سروس سافٹ ویئر انگریزی زبان میں تیار کیا گیا ہے، حالانکہ یہی سافٹ ویئرباآسانی اردو میں بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے سفارش کلچر کو بہانہ بنا کر اپنی نسل کی تباہی کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اردو زبان میں گریجویشن کرنے والے کے پاس الہ دین کاکون سا چراغ ہے کہ وہ انگریزی میں امتحان پاس کرلے گا۔ اس طرح کے نظام سے سب سے زیادہ استحصال پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں انگریزی پڑھنے کی سہولیات میسرنہیں۔

این ٹی ایس کے امتحانی نظام کے تحت صرف معروضی (اوبجیکٹو) طرز کے سوالات ہاں اور نہ میںکیے جاتے ہیں۔ جن کی بناپر امیدوار کی علمی گہرائی اور ابلاغی صلاحیت کا اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ٹیسٹ کا نصاب سرکاری اداروں پیشہ ورانہ ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا۔ جس آسامی کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے کامیاب امیدواررٹا لگا کرامتحان تو پاس کرلیتاہے لیکن پیشہ ورانہ مہارت نہ ہونے کی وجہ سےوہ اپنے ادارےمیں ایک مفید ملازم قرار نہیں پاتا۔امیدوار کی علمی گہرائی اور ابلاغی صلاحیت کوجانچنے کے لیے اردو یاانگریزی میں مضمون نویسی کا تصور این ٹی ایس میں نہ ہونا اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں فوری علاج تو یہ ہے کہ این ٹی ایس کے ذریعے منعقد ہونے والے امتحانات انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں دینے کی اجازت دی جائے ورنہ کسی امیدوار کاعدالت سے رجوع سارے نظام کو جامد کردے گا کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدیسی زبان میںامتحان لینے کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رکھا ہے۔ یادرہے کہ بھارت میں اعلی ملازمتوں (آئی پی ایس) کے لیے پچیس سے زائد زبانوں میں امتحان دینے کی اجازت ہے۔ افغانستان جیسے مصیبت زدہ ملک میں بھی انگریزی، فارسی اور پشتو میں امتحان لیے جاتے ہیں۔ بس پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو ابھی تک انگریزی تسلط میں جکڑا ہوا ہے۔

اس کا مستقل حل یہ ہے کہ این ٹی ایس جیسے مال بناو اداروں کا سہارا لینے کے بجائے پبلک سروس کمیشن کو پیشہ وارانہ طور پر بہتر بنایا جائے اور اس کی تشکیل میں سیاسی مداخلت کوبند کرتے ہوئے خالصتا پیشہ وارانہ مہارتوں کے حامل ٹیکنوکریٹس کا تقررکیا جائے۔ ان اداروں کو کپیسٹی بلڈکرتے ہوئے ان پر اعتماد کیاجائے اور ہرطرح کی مداخلت سے پاک رکھا جائے تو وہ بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرسکیں گے۔

محض سفارش کلچر کی آڑ میں پڑھے لکھے اور باصلاحیت نوجوانوں کے مستقبل کا قتل عام کرنا میرٹ نہیں ہے۔ میرٹ قائم کرنے کے لیے بنیادی زمینی حقائق کوجانچنا اور بنیادی حقوق کی پاسداری کومدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم کی اپنے وزراء اور پارلیمانی پارٹی کے اراکین کی بلیک میلنگ سے بچنے کی کوشش تو قابل ستائش ہے لیکن جو طریقہ اختیار کیاگیا ہے اس میںانصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 104388 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More