امریکن ڈیپ سٹیٹ

تحریر: شاہین اختر

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم اور ادراک ہے کہ امریکہ میں بظاہر جمہوری حکومت کو چلانے والے خفیہ ادارے ہوتے ہیں جن کے احکامات اور ڈکٹیشن کے آگے کوئی صدر یا کانگریس اراکین پَر نہیں مار سکتے۔ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے برعکس امریکہ کے اندرونی امور میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی کا خفیہ اثر و رسوخ ناقابل بیان حد تک موثر ہوتا ہے۔ امریکہ میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی(ڈی ایچ آئی) ریاست کے اندر ریاست یا شیڈو حکومت اور ڈیپ سٹیٹ پر کام کررہے ہیں۔ جن خفیہ منصوبوں پر یہ ادارے کام کررہے ہیں اس ضمن میں وہ منتخب سیاسی حکومت صدر امریکہ اور کانگریس کو بھی جواب دہ نہیں۔ حتیٰ کہ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ نے سی آئی اے پر اپنے ایجنڈے سمیت مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے افسران ’’بیمار لوگ‘‘ ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ میں ہر حکومت انٹیلی جنس اداروں کی تابع مہمل رہی ہے اور ان کا منتخب جمہوری حکومت پر مضبوط کنٹرول اور تسلط رہا ہے۔ کسی بھی دور میں کسی امریکی صدر نے اس کے خلاف کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکی سویلین حکومت جن ستونوں پر کھڑی ہے وہ یہی ادارے ہیں۔ ان کی مشاورت کے بغیر امریکی صدر کانگریس مین اور دیگر منتخب قیادت بھی کوئی بیان دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی پالیسی کے خدوخال وضع کرسکتے ہیں۔ امریکی اصل اسٹیبلشمنٹ اس کی مذکورہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ہی ہیں۔ یہی وہ طاقت ور ہاتھ ہیں جو وائٹ ہاؤس کے مکین سے لے کر کانگریس کے نمائندوں تک کو اپنی چشم ابرو کے اشاروں پر رقص کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ امریکی صدور اور ارکان پارلیمان انتہائی نیاز مندی اور سعادت مندی، ان کے ہر سفید اور سیاہ حکم کی تعمیل کرنا اپنا فرض منصبی جاتنے اور گردانتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف سنوڈن لیکس میں بھی کیا گیا تھا۔ یہ کھلا را ہے کہ امریکی ایجنسیوں سی آئی اے، ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ ہی اصل میں امریکی حکومت ہے۔ کانگریس مین اور امریکی صدر تو محض انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اس کی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلیاں ہیں لیکن وہ اپنے تیئں امریکہ کے وسیع اور بہتر مفاد میں ’’ریاست اندر ریاست‘‘ کی حیثیت رکھنے والے ان اداروں سے بھرپور معاونت کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی جرأت نہیں کہوہ ان کی ڈکٹیشن کے بغیر کوئی پالیسی بیان دے سکیں یا کسی منصوبے کی نقش گری کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں دو ریاستیں ہیں۔ ایک ریاست بالائی سطح پر ہے جو وائٹ ہاؤس، سینٹ اور کانگریس پر مشتمل ہے لیکن گہرائی میں اصل حکومت مذکورہ ایجنسیوں ہی کی ہے۔

امریکی حکمرانوں کی اس اسٹیبلشمنٹ اور ریاست اندر ریاست کی تابعداری اور فوویت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر یہ تاثر نہیں دیتے کہ انہوں نے داخلی یا خارجی سطح پر جو پالیسی وضع کی یا جس منصوبے کے خدوخال اجاگر کیے ہیں اس کے لئے انہیں ڈکٹیشن ، ہدایات اور فکری مواد انہیں اداروں نے مہیا کیا ہے۔ یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ امریکی میڈیا، امریکی تھنک ٹینکس بھی سی آئی اے، ایف بی آئی یا ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے مرغانِ دست آموز ہیں۔ خاص طور پر امریکی تھنک ٹینکس کے لئے بھاری بھر کم فنڈنگ بھی سی آئی اے فراہم کرتی ہے۔ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ منصوبے امریکی تھنک ٹینکس کے دانشوروں کی مشاورت سے تیار کیے گئے ہیں لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ امریکی سیاسی اور ڈھانچہ جاتی ستونوں کے مصالحہ اور مواد بھی یہی ایجنسیاں مہیا کرتی ہیں۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اتنی جابرانہ گرفت کے باوجود کبھی وائٹ ہاؤس، کانگریس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا فارن آفس نے باخبر ترین آزاد میڈیا کو بھی اس کی ہوا نہیں لگنے دی کہ امریکہ کی اصل حکمران اس کی اسٹیبلشمنٹ ہے اور وہاں کے منتخب، سیاسی نمائندے، سول بیورو کریسی، ملٹری بیورو کریسی، وائٹ ہاؤس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ حتیٰ کہ پینٹاگون کے ذمہ داران بھی سی آئی اے، ایف بی آئی اورہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے شو بوائز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر امریکی انتخابی سیاست میں وہی امیدوار تیزی سے کامیابی کے مراحل طے کرتا ہے جو اس ریاست کے اندر ریاست کا تابع مہمل ہوتا ہے۔ عالمی طاقت کی اصل حکمران ان ایجنسیوں کی کارفرمائی صرف ریاست ہائے متحدہ شمالی امریکہ تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ان کا دائرہ اثر و رسوخ دنیا کے اکثر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ جہاں وہ امریکہ کے انتہائی گہرے داخلی معاملات پر دقیع اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہاں وہ بیرونی دنیا کے مختلف ممالک کی سیاسی رولنگ ایلیٹ سے بھی گہرے رابطوں میں رہتے ہیں۔ وہ انہیں یقین دلاتے ہیں جب تک آپ ہمارے فرمانبردار رہیں گے آپ کی حکومت اور سیاست کو آپ کی ریاست کا کوئی ادارہ گزند نہیں پہنچا سکے گا۔ حتیٰ کہ اگر آپ کے ملک کی عدالت عظمیٰ بھی آپ کو کڑی سزا دیدے اور آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی پھینک دیا جائے تو چونکہ آپ اپنے ملک میں ہمارے مفادات کے نگہبان، پشتبان، پاسبان اور ترجمان رہے ہیں اس لئے ہم عالمی طاقت کے دنیا بھر میں علاقائی تھانیداروں کی مداخلت سے آپ کو قید خانے کی فولادی دیواروں کے پیچھے سے بھی نکال باہر کرنے کے لئے غیر مرئی اقدامات کرسکتے ہیں۔ ان خفیہ اداروں کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے امریکہ نے اپنے انٹیلی جنس بجٹ میں روس، چائنہ سے کئی گنا زیادہ اضافہ کیا ہے۔یہ بجٹ اور اس کا حجم انتہائی بھاری بھرکم ہے۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.