قوم جو کر نا سکی اپنی خودی سے انصاف !!

مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہو گا جو سب سے زیادہ بد بخت ہو گا اور زندہ جسموں کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو فتنہ ارتداد کا شکار ہوں گے۔ان کا سرغنہ ایسا ہو گا جو ظاہر تو مسلمانوں کا ساتھ دے رہا ہوگا اور مغرب کے خلاف فاتحانہ کردار ادا کرنے کا ڈرامہ رچائے گا لیکن بعد میں اس کا دل بدل جائے گا ۔ اس کی سوچ و فکر کا خلاصہ فکری ارتداد ہو گا ۔فکری ارتداد یہ ہے کہ اسلام کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نا سمجھا جائے ، شرعی تعلیمات کو حرف آخر نا مانا جائے ، ان میں اتنے شکوک و شبہات اور وسوسے پید اکئے جائیں کہ شراب و زنا اور سود جیسی قطعی حرام چیزوں کو پراپیگنڈوں کے زور پر حلال قرار دلوایا جائے ۔اگر ہم اپنی حالیہ زندگی کا مبہم سا جائزہ لیں تو یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم واقعی فکری ارتداد کا شکار تو نہیں ہو چکے ؟ ہمارے درمیان بھی صیہونی اور لبرل غلاظت ذہنوں میں سرایت تو نہیں کر چکی ؟ آئے روز گناہوں میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ ہر بار ننھی کلی خباثت کے پاؤں تلے کیوں روندی جاتی ہے؟ شرعی قوانین کے نفاذ میں ہم اتنے بے بس کیوں نظر آتے ہیں ؟ حقوق اﷲ کو ہم نے اﷲ کی رحمت پر چھوڑ دیا اور اس پر تاویلیں کرتے نظر آتے ہیں ! حقوق العباد اب جانوروں کے حصے میں آتے ہیں !ہر جگہ مادیت کی ریس لگی ہے ، سبھی فرشتہ بننے کی ریس میں لگے ہیں کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ خدائے متعال نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اسی لئے ہم انسان بننے کی کوشش کریں ، ٹی وی چینلز کو اپنی ریٹنگ چاہئے چاہے اس کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے ، حال ہی میں قصور میں ہونے والا سانحہ مختلف ٹی وی چینلز پر بحث و تکرار کا محور رہا ہے اور اس میں تمام ٹی وی چینلز اور ان کے رپورٹرز ، اینکرز نے بڑھ چڑھ کر اعداد و شمار دئیے کہ ایک سال میں اتنے زیادہ زناہ بالجبر ہو گئے ، اتنی زیادہ زیادتیاں بچوں کے ساتھ کی گئیں ، کارو کاری کے الزام میں اتنی عورتوں کو مار دیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ میری نظر میں تو یہ ایک ہلاکت ہے ہم سب کیلئے کہ اگر ٹی وی چینلز والے اور سوشل میڈیا کے دانشور ذرا ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ بیٹی تیری میری نہیں ہوتی سب کی ہوتی ہے تو کیا کوئی اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئے ظلم کو اس طرح اچھالنا پسند کرے گا ؟ اور اس سے بھی بڑی ہلاکت یہ کہ ایک سانحہ ہو گیا ہے تو اس کے اوپر نااہل ترین لوگوں سے بحث و تکرار کیا جاتا ہے جن کی اپنی زندگی ہی اسی غلاظت میں لوٹ پوٹ ہو رہی ہوتی ہے ۔حالانکہ اس کیلئے چاہئے تو یہ کہ علما ء کرام سے رائے لی جاتی اور اس کی وجہ پوچھی جاتی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ معاشرے میں یہ بگاڑ کیسے آتی ہے ؟ اور اس کی روک تھا م کیسے ممکن ہے ؟ لیکن کیا ہے کہ بڑی ہلاکت ہے ہمارے لیئے !!! میں اس طرف آپ کی توجہ ضرور دلانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ مجھ پر قلم کا قرض ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں ان میں نیوز ٹی وی چینلز پر دیکھیں تو کہیں بھی آپ کو اسلامی تعلیمات نہیں ملیں گی بلکہ بے ہودگی اور لبرل ازم جیسی غلاظت میں لتھڑی ہوئی قوم دکھائی دے گی ،کھلے بال اور سر ننگے اور پھر نا محرم مردوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ جسے اخلاق کا نام دیا جاتا ہے محرم اور نا محرم کی ڈگری کو پامال کر دیا جاتا ہے جس کا حکم قرآن الحکیم میں ہے ، عورتوں کی یہ بن ٹھن مردوں کو لبھاتی ہے اور انہیں کو دیکھ کر عام گھروں میں بچیاں خود میں تبدیلی لاتی ہیں اور اس طرح بے حیائی کا یہ پیغام ٹی وی چینل سے نکل کر ہر کہیں پھیل جاتا ہے ، دوسرے نمبر پر ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریلز ہیں ، میں نے اس کو بہت سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن ہر بار دماغ میں اندھیرا ہی ہوا ہے کہیں روشنی نہیں ملی ۔ کوئی بھی فلم یا ڈرامہ سیریل ہو اس میں صر ف یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ فلاں لڑکی اور لڑکا آپس میں محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پانے کیلئے ان کے راستے میں کیا رکاوٹیں آتی ہیں اور وہ ان سے کس طرح لڑتے ہیں !کیا ڈرامہ لکھنے والوں اور فلمانے والوں کو بس ایسی ہی کہانیاں ملتی ہیں جن میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان محبت ہوجائے اور اس کیلئے تمام تر معاشرتی و اسلامی اقدار کو تار تار کر دیا جائے صرف اس ایک بے ہودہ نظریے کہ پیچھے کہ پیار اور جنگ میں سب جائز ہے ؟ ڈرامہ یا فلم لکھنے والا یا فلمانے والے سے میرا ایک سوال ہے کہ جس طرح وہ نا محرموں کو فلموں اور ڈراموں میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں کیا وہ اپنی بہن ،بیٹی یا بیوی کو اس طرح کسی کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں ؟ اسی طرح کی لاتعداد مثالیں ہمیں غور کرنے پر ملتی ہیں لیکن فکر و فقہا کا فقدان ہے ۔ یہاں سیدھے سادے نوجوانوں سے سوال کئے جاتے ہیں کہ خدا کا وجود ہے بھی یا نہیں ؟ حدود کی تعریف کیا ہے اور یہ کس نے دی ہے ؟ چہرے کے پردے کا تکلف کس نے جاری کیا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ نعوذ بااﷲ من ذالک۔۔۔۔۔ان لوگوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ ان کے پروگراموں کی فہرست دیکھ لیجئے ایک بھی تعمیری عنوان نہیں ملے گا ، اصلاحی موضوعات سے انہیں کوئی سروکار نہیں ، ان کا سارا زور تشکیک پھیلانے اور وسوسے پیدا کرنے پر ہے ۔ کوئی دنیا دار مسلمان دین کی طرف آ جائے تو ، اس کی ان کو کوئی فکر نہیں ۔سارا زور اس پرہے کہ جو بچے کھچے مسلمان دین پر عمل کر رہے ہیں وہ اس سے آزاد خیال ہو جائیں ؟ طہارت کے مسائل نا جاننے والوں کو علمی بحث میں الجھانے کا آخر اور کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟ جو لوگ فتنے کا شکار ہوچکے ہوں وہ ظالم کیلئے رحم دل اور مظلوم کیلئے سنگ دل ہوتے ہیں ۔یہ ہے وہ فکری ارتداد ، اﷲ کے احکام کی پامالی ، جو آج کے تھنک ٹینکس کا برپا کردہ عظیم ترین فتنہ ہے ۔ اس سے جو وسوسے جنم لیتے ہیں ان کی بنا پر آدمی صبح کو مسلمان تو شام کو کافر ہوتا ہے ۔علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا :
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نا سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166820 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More