زینب کی معصوم روح

قصورمیں ایک اوربے قصورکوناکردہ گناہوں کی سزادی گئی ایک اور معصوم پھول سی بچی کی معصومیت خباثت کے بوٹوں تلے روندھی گئی ابن آدم کے روپ میں اس خونخواربھیڑئے کوانسان کہنابھی انسانیت کی تذلیل ہے شیطنیت کے اس پیروکارکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انسان نمادرندوں کی خباثت سے اب بچے بھی محفوظ نہیں رہے بچے توصرف محبت کیلئے ہوتے ہیں بچوں کاکام توپیاربانٹنااوروصول کرناہوتاہے یہ نام نہادتہذیب یافتہ معاشرہ اخلاقی طورپر اس قدرگرچکاہے کہ یہاں بچوں کی معصومیت کوروندھنے اورمسلنے سے بھی دریغ نہیں کیاجاتا اس پھول سی بچی کاواحدقصوریہ تھاکہ وہ پاکستان میں پیداہوئی اورپاکستان میں پیداہونے والے کسی بھی انسان کے ساتھ اس سے بھی بھیانک سلوک روارکھاجاسکتاہے یہاں لوگوں کے سرکاٹ کراس سے فٹ بال کھیلاچکاہے ، یہاں بے بس خواتین کے سر سے چادراورتن سے کپڑے اتارکرانہیں بازاروں اوررگلیوں میں بے لباس گھمایاگیاہے یہاں معصوم اوربے گناہ شہریوں کوبم دھماکوں کے ذریعے ٹکڑوں میں بانٹاگیاہے بازاروں ،سکولوں اورمساجدکوبے گناہوں کے خون سے رنگین کیاجاچکاہے مگریہاں کبھی کسی بے گناہ مرنے والے کواس کاقصورنہیں بتایاگیاقصورشائدکمزوری،ضعیفی اور لاچارگی ہے’’ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات‘‘ یہاں کمزورکوہمیشہ دارپرچڑھایاگیاہے اسے اسکی ناکردہ گناہوں کی سزادی گئی ہے ہوس ،ظلم اور بربریت کاننگاناچ نچایاگیاہے وجہ اسکی ایک ہی ہے مجرم کوسزانہ ملنا،ظالم کواس کے بداعمال کاصلہ نہ ملنا،قاتل کاسرقلم نہ ہونااورزانی کاسنگسارنہ ہونا۔اگراس ملک میں سزاوجزاکاقابل عمل قانون موجودہوتااورمظلوم کوفوری انصاف ملتاتوکسی شقی لقلب کواس قسم کے سفاکانہ فعل کی جرات نہ ہوتی یہاں قاتل اول تومفروربن جاتاہے برسہابرس تک قانون کی نظروں سے اوجھل رہتاہے اگرقانون کی کمزورگرفت میں آتابھی ہے تواس کاپراسیس اس قدرلمباچھوڑاہے کہ اکثرمقتول کے لواحقین ہی انصاف کے حصول سے توبہ گاربن جاتے ہیں آبادی روزافزوں بڑھ رہی ہے پوراملک بے ترتیبی کامنظرپیش کررہاہے جس کاجدھرکومنہ اٹھتاہے ادھرچلاجاتاہے افراتفری کاعالم ہے ملک کاہرباشندہ ریاست کی نظروں میں نہیں دوسرے ممالک کے جرائم پیشہ اورسماج دشمن عناصر دندناتے پھررہے ہیں ریاستی کارندے جن کافرض عوام کی حفاظت ہے انہیں چند وی آئی پیزکی حفاظت پرمامورکردیاگیاہے بچی کے غائب ہونے پرچارچاردن تک پولیس رپورٹ درج نہیں کراتی جس ریاست کے شہری اپنے معصوم بچے کی رپورٹ تک درج کرانے سے قاصرہواس ریاست کوناتوریاست کہلانے کاکوئی حق ہے اورناہی اس ملک کواسلام کاقلعہ کہہ کرپکاراجاسکتاہے ایک معصوم بچی کے ساتھ ظلم روارکھاگیااگرچہ یہ کوئی پہلاسانحہ نہیں اس سے پہلے بھی اس ملک کے ان گنت باشندے اس قسم کی صورتحال کاشکاربن چکے ہیں بچوں کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ،انہیں قتل بھی کیاگیا،انکے ٹکڑے کرکے بوریوں میں بھی بندکردیاگیا،انکی لاشیں بھی ندی نالوں سے برآمدہوئیں،انہیں برہنہ کرکے گلی کوچوں اوربازاروں میں بھی گھمایاگیامگرآج تک یہ سننے میں نہیں آیاکہ کسی قبیح فعل کوسرانجام دینے والا عبرت کانشان بنایاگیاہواسے کڑی سزاکے عمل سے گزاراگیاہوزیادہ سے زیادہ دوچارسال قیدکی سزاسنائی جاتی ہے چنددنوں تک شوروغوغابرپارہتاہے سیاستدانوں ،حکمرانوں اوراعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے دھواں داربیانات سامنے آتے ہیں مظلوم خاندان کے ساتھ لفظی ہمدردی جتائی جاتی ہے اس اثناء میں کوئی دوسرااندوہناک واقعہ رونماہوتاہے اورلوگ گزشتہ واقعے کوبھول کرنئے واقعے میں الجھ جاتے ہیں یہ ناروا،ظالمانہ اورسفاکانہ روئیہ ہی ہے جس سے قانون کاخوف توکیاخوف خدابھی ختم ہوچکاہے کبھی یہاں سکولوں میں بچے ذبح کئے جاتے ہیں کبھی انہیں اغوابرائے تاوان کی غرض سے ظلم کی چکی میں پسناپڑتاہے ،کبھی انہیں عربوں کی اونٹ ریس کیلئے بطورچارہ استعمال کیاجاتاہے ،کبھی چائلڈ لیبرکے نام پربربریت کانشانہ بنایاجاتاہے ،اینٹوں کے بھٹوں میں ان سے ناجائز مشقت لی جاتی ہے ،ورکشاپوں میں ’’چھوٹا‘‘گاڑیوں کے نیچے گھسارہتاہے ہوٹلوں کے ان گنت’ ’ چھوٹے ‘‘سارادن گدھے کی طرح کام کرکے رات کوجنسی تشددبرداشت کرتے ہیں اورکبھی انہیں سکولوں اوردینی مدرسوں میں جنسی ہراساں کیاجاتاہے میں نے خودایسے نام نہاد’’قاری ‘‘ دیکھے ہیں جنہیں بچے کے ساتھ بدفعلی کاجرم ثابت ہونے پرصرف دوسال قیدکی سزاسنائی جاچکی ہے اس قدرمعمولی سزاتوکسی جیب کترے کوبھی راہِ راست پرلانے کیلئے کافی نہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ ریاستی قانون ساز ادارے ٹھوس اورمؤثر قانون سازی کریں بچوں کے خلاف جرائم کیلئے خصوصی عدالتوں کاقیام عمل میں لایاجائے یہ عدالتیں کسی بھی بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے کوفی الفورسزادیں سزابھی دوچارسال قیدنہیں اس سنگین جرم کیلئے سرعام فائرنگ سکواڈ کے سامنے سزائے موت تجویزکرنے کی اشدضرورت ہے مقدمے کادورانیہ ساٹھ دن سے زیادہ کسی صورت نہیں ہونا چاہئے معاشرہ اگرچہ بگاڑکاشکارہے مگراس بگاڑکوقانون کے مؤثرنفاذسے ہی درست خطوط پراستوارکیاجاسکتاہے قصورمیں زینب کے ساتھ ہونے والی بربریت کیلئے ہم سب برابرکے ذمے دارہیں مقام افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں سے غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں بچوں کی حفاظت کیلئے کوئی مرغی جس حساسیت کامظاہرہ کرتی ہے ہم اس سے بھی گئے گزرے بن چکے ہیں والدین کواپنے بچوں کاتحفظ یقینی بنانے پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے زندگی کے بکھیڑوں سے بچوں کیلئے وقت نکالناہوگاہم انہیں بھرپورتوجہ دینگے تب ہی بھیڑیوں سے محفوظ رکھ سکیں گے بچوں کوزیادہ سے زیادہ اپنی نظروں کے سامنے رکھناضروری ہے زینب جیسے اندوہناک سانحات روکنے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کواپنی ذمے داریاں نبھانی ہونگیں ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی اورعریانی کے سیلاب کے آگے بندباندھنے کی ضرورت ہے انٹرنیٹ کے جنسی ہیجان پیداکرنے والی تمام فحش سائیٹس پرپابندی لگائی جائے فحاشی اورعریانی پھیلانے والوں کے خلاف مؤثرقانون سازی ہونی چاہئے خواتین میں پردے کے رجحان کوفروغ دیناوقت کی ضرورت ہے اس سے معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہوجائیگازینب اور اس جیسے بے شمار بچوں بچیوں کاقرض اتارنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم انہیں یادرکھیں پوری قوم زینب کے والدین کے دکھ کواپنادکھ سمجھیں سیاستدانوں کواس معاملے پرسیاست چمکانے سے گریزکرناہوگانجی اورقومی املاک کونقصان پہنچانے سے مظلوم کوانصاف اورظالم کوسزانہیں ملے گی ایک سنگدل شخص نے جس شقی القلبی کامظاہرہ کیاہے اسے اس کی سزادلانے کاباعث بنیں مخلوق خداکیلئے آزارکاذریعہ بن کرزینب اوراسکے والدین کی کونسی خدمت ہورہی ہے زینب کی معصوم روح انصاف کی منتظرہے آگ وخون ،توڑپھوڑ،ماراماری اورجلاؤگھیراؤسے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں اس سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.