معصوم کلیاں خطرے میں

معاشرہ انسان نے اپنی بقاء اور سلامتی کے لیے تشکیل دیا تھا ورنہ زندگی تو غاروں میں بھی سانس لے رہی تھی ، پھل پھول رہی تھی، مگر تحفظ کی خواہش اسے معاشرتی زندگی کی طرف لے گئی تاکہ وہ کچھ اصول و ضوابط کی پابندی کے ساتھ ایک منظم اور محفوظ زندگی گزار سکے ،یوں معاشرہ وجودمیں آیا۔آج سماجی زندگی جس مقام پر کھڑی ہے یہ انسان کی بہتر اور محفوظ زندگی کی خواہش کا ایسا پھل ہے جسے انسان کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مزید بہتر اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کی معاشرتی زندگی اپنے آغاز سے لاکھوں گنا بہتر ہے ،اس کے باوجود انسان غیر محفوظ ہے، خاص طور پر معصوم بچے، پاکستان سمیت دنیا بھر۔ کیا آج کاانسان اتنا درندہ ہو گیا ہے کہ وہ معصوم بچوں سے جنسی لذت کشید کرتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کا حصول اسے انسانیت کی تمام حدیں عبور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
پاکستان میں ایسے واقعات سالوں میں کوئی ایک آدھ بار سامنے آتے تھے مگر اب تو لگتا ہے انسانوں میں حیوانیت اپنی جڑیں اتنی گہری کر چکی ہے کہ وہ اس احساس سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے 'ساحل' نے جاری کیے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ کہتا ہے کہ گذشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹر ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے۔

’کروؤل نمبرز' یا 'ظالمانہ اعداد و شمار' کے عنوان سے شائع کی جانے والی اس رپورٹ کے لیے ادارے نے86 قومی، علاقائی اور مقامی اخبارات کی نگرانی کی۔

گزشتہ برس بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے اُن میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ان واقعات میں سنگین ترین جرم زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے کُل 100 واقعات سامنے آئے۔ادارے کی تحقیقات کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے مجرمان میں گھر کے اندر کے افراد، رشتہ دار اور واقفِ کار بھی ہو سکتے ہیں۔

اب پھرصوبہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک کمسن بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ بچی 5 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔یاد رہے کہ قصور میں ایک سال کے دوران 11 کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا، لیکن تاحال پولیس ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔واضح رہے کہ مقتول بچی کی لاش جس جگہ سے ملی، یہ وہی مقام ہے جہاں اس سے قبل بھی ریپ کا شکار ہونے والے بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔ایک ماہ قبل بھی ایک 5 سالہ بچی یہاں سے نیم مردہ حالت میں ملی تھی، جو اس وقت چلڈرن ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔پولیس کے مطابق مذکورہ بچی کو بھاری مقدار میں نشہ آور ادویات دی گئی تھیں۔دو سال پہلے بھی قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سامنے آئے تھے۔پاکستان میں ایسے واقعات کا بار بار رونما ہونا ملکی قوانین کے فعال نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ملزمان پر موثر گرفت نہ ہونا بھی ایسے جرائم کی شرح میں اضافہ کا باعث ہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ برازیل کے جیوجسٹو انسٹرکٹر ڈیرئیل کو 2016 میں ایک معصوم بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مراحل کے بعد اسے برازیل کی مرکزی جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں اسے بیس روز تک جج کے سامنے اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار کرنا تھا۔ جیل انتظامیہ کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ ایک معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والا شیطان بھی ان کی جیل میں موجود ہے، اگرچہ جیل میں دنیا کے سفاک ترین خونی اور ڈکیت بند تھے لیکن ڈیرئیل کا جرم ان سب سے زیادہ سنگین تھا۔ ایک روز جیل میں بند دیگر قیدیوں کو کسی طرح پتا چل گیا کہ ڈیرئیل کا جرم کیا تھا۔اس کے بعد بیس قیدیوں نے ایک ہی رات میں ڈیرئیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ایک بچے کے ساتھ کیا تھا ۔ جب جیل میں موجود قیدیوں سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو انھوں نے اس قدر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا کہ جیل انتظامیہ کو اپنے سوال پر ہی شرم محسوس ہوئی۔ قیدیوں نے جیل انتظامیہ سے کہا کہ اگر اس مردود کو دوبارہ یہاں رکھا گیا تو اس کے ساتھ اوربھی زیادہ بدتر سلوک کریں گے ۔ تاہم جیل انتظامیہ نے قانونی مجبوریوں کی بنا پر اگلے روز ڈیرئیل کو ایک بار پھر اسی جیل میں بند کر دیا، لیکن اب کی بار بھی اس کے ساتھ وہی واردات مزید شدت سے دہرائی گئی۔ایک ایسا معاشرہ جو جنسی لذت کی تسکین کے لیے مشہور ہو وہاں کے مجرم بھی بچوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک پر معافی دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

ایک طرف مغربی معاشرے میں سفاک ترین قیدیوں کا معیارِ انصاف یہ ہے کہ جب انھیں ایک قیدی کے اس سنگین جرم کی خبر ملی تو انھوں نے اگلے دن کا سورج طلوع ہونے کا انتظار کیا نہ جج کے ہتھوڑے کا۔اور ایک طرف ہم ہیں،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والے ، ہمارے حکمران اور ادارے ستو پی کر مد ہوش ہیں اورعوام چرس پی کر کر خوابِ خرگوش میں گم ہے اور اس دھرتی کی معصوم جانوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں تو آئے دن کسی معصوم کلی کو روندے جانے کی خبر بڑے اہتمام سے اخبارات اور سوشل میڈیا پر نشر ہوتی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے جو ہمارے ہی ٹیکس پر پلتے ہیں اور حفاظت مردار خور سیاستدانوں کی کرتے ہیں۔ زینب اور ان جیسے بچوں کے مجرم ہم سب ہیں۔ محمداقبال قریشی کا کہنا ہے کہ وہ کالم نگار جو قومی اخباروں میں سیاسی کالم تو خوب لکھتے ہیں لیکن زینب جیسی بچیوں کے حق میں آواز اٹھانا ان کے لیے مشکل ہے ۔ان قلم کاروں سے تو وہ قیدی اچھے ہیں جنھوں نے اپنے ساتھی کو راتوں رات گینگ ریپ کے لطف سے آشکارا کر دیا۔

بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔پیشہ ورانہ طریقے سے بچوں، اساتذہ، ڈاکٹروں، سکول کونسلروں اور پولیس میں شعور اجاگر کرنے اور تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے۔

Maleeha Hashmi
About the Author: Maleeha Hashmi Read More Articles by Maleeha Hashmi: 11 Articles with 11013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.