سکول

انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسکی تربیت ماں ہی کرتی ہے کھانا کھلانا ،صفای کا خیال رکھنا دنیا جھاں کے دکھ و درد سے بیخبر رکھنا یہ سب تو ثانوی چیزیں ہوا کرتی ہیں سب سے اہم بات تو ماں کی ممتا ،ماں کا پیار ،اور ماں کی نظر جو بچے کی ترقی اور بڑا ہو کر معزز اور کامیاب شہری بنانا ہوتا ہے۔زالان کی ماں بھی زالان کی تربیت گاوں کے دیگر ماووں سے الگ ڈھنگ سے کرنا چاھتی تھی وہ روز جب رات کے پچھلے پہر جاگتی تو نوافل ادا کرنے کے بعد خدا تعلی سے ایک ہی سوال کے لیے ڈھیروں آنسوں بہاتی کہ اے میرے مالک میرا ایک ہی بیٹا ہے میرے مالک تو بڑا رحیم و کریم ہے میرے بیٹے کو دنیاں ومافیہا کی ساری خوشیاں عطا فرما مرے مالک میری گود کو ہمیشہ کے لیے سلامت رکھنا صرف یہ نہیں بلکہ وہ تو دن رات اپنے زالان کی خوشی کے لیے سب کچھ کرتی ۔بعد از نماز فجر وہ دودھ دوھنے کے بعد گرم کرکے زالان کو نیند سے جگا کر پلادیتی اور پھر اسکے سکول کو بیجنے کی تیاریوں میں مگن رھتی۔زالان چوتھی جماعت کا طالبعلم تھااس ناپختگی کی عمر میں نہ تو کوی بچہ اپنا سامان خود حفاظت سے رکھتا ہے اور نہ ہی وہ خود کی حفاظت کرسکتاہے اور یہی حال زالان کا بھی تھامعمول کے مطابق آج بھی وہ ماں کو سکول کی ٹھای کے لیے پکار رہا تھا ۔مان میری ٹھای کہاں ہے اور مان نے معمول کے مطابق اسے ڈانٹا اور پھر اسکی سبز رنگ کی ٹھای ڈھونڈ کر اسکے گلے میں باندھ دی اور اپنے اکلوتے بیٹے کو گالوں پر سے چوم کر سکول کے لیے رخصت کیا اور وہ خود گھر کے کاموں میں مشغول ہوگی اس مشغولیت کے دوران وہ بار بار گھر کے دروازے کی طرف دیکھتی اورزالان کی راہ تکتی ۔دسمبر کا مہینہ تھا سردی زوروں پر تھی سکول میں بچوں کو کلاس روم سے باہر نکال کر دھوپ میں بیٹھا کر استاد پرھانے لگااج استاد بچوں کو مل جل کر رھنے پر بتارہے تھے وہ بچوں کو تلقین کررھے تھے کہ مل جل کر رہنے کو اﷲ پسند کرتا ھے اس دوران ایک بچے کی نظر ایک سفید کبوتر پر پڑی جو درخت کی شاخ پر بیٹھی تھی استاد کی نظر جب اس بچے پر پڑی تو استاد نے تمام طلبا کو مخاطب کرکے پوچھا کہ اپنا پسندیدہ رنگ بتاو زالان نے کہا کہ مجھے سفید رنگ پسند ھے استاد نے زالان کے پسند کو سراہا اور کہا کہ پیارے بچوں سفید رنگ امن کی علامت ہے انسان کو اﷲ تعلی نے دنیا مین جب بیجا تو فرشتوں نے رب سے کہا کہ اے مالک :انسان بھی جنات کی طرح دنیا میں خون کا بازار گرم کردینگے لیکن خداتعلی نے پھر بھی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کرت اس دنیا میں بیجا اور انسان کی سب سے بڑی زمہ داری یہی ہے کہ وہ دنیا میں انسانیت کا درس دیں ننھے زالان نے استاد سے سوال کیا کہ انسانیت کیا ہے ؟استاد نے اج بھی زالان کے سوال کو پسند کیا اور اسے سمجھانے لگا کہ انسان کوانسان کا احساس ہونا انسانیت ہے ۔اور استاد نے وقت ختم ہونے پر کلاس ختم کیا اور طلباہ کو بریک کے لیے جانے دیا زالان باہر جا کر دوستوں کے ساتھ کھیلنے لگا بریک کے ختم ہو جانے کے بعد تمام طلباہ کلاس روم اگیے اور پھر پڑھاے شروع ہوی اس دوران اچانک فایرنگ شروع ہوگی پہلے پہل تو ایک دو گولی چلنے کی اواز سنای دی مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اوازیں تیز طر ہوتی گی اور پھر پتا چلا کہ سکول پر حملہ کیا گیا ہے اور کلاس روم میں تمام طلباہ کو کرسیوں کے نیچے لیٹنے کا کہا گیا زالان بھی ٹیبل کے نیچے لیٹ گیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگا گولیاں چلنے کی اوازیں نزدیک ہو رہی تھی اور زمین پر تیز بھاگنے کی اواز بھی نا معلوم سمت سے کلاس روم کی طرف ارہی تھی اس دوران کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش سخص جس کے ہاتھ میں بندوق تھا کلاس روم میں داخل ہوا اور ایک نظر لیٹے بچوں پر ڈالی سب بچوں کی ڈر کی وجہ سے گھگی بند ھو گئی تھی اور کلاس میں خاموشی چھائی تھی خاموشی توڑنے کے لئیے آواز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اواز گولیوں کے چلنے کی اواز تھی جس نے ڈر اور خوف کی خاموشی کو ایسے توڑا جیساکہ شیشے کا گلاس زمین پر گر کر تہس نہس ہو جائے زالان نے آنکھیں بند کردی نہ جانے وہ کیا دیکھ رہاتھا بند آنکھوں سے کوئی خواب تھا یا کچھ اور ۔سکول پر حملے کی خبر زالان کے گھر بھی پہنچ گئی زالان کی والدہ یہ خبر سن کر خاموش ہوگئی کچھ دیر بعد گھر کا دروازا کھلا اور کچھ لوگوں نے چارپائی کو زالان کی ماں کے لیئے رکھ لیا اور رخصت ہوئیزالان کی ماں نہ تو رو رہی تھی اور نہ کچھ کہہ رھی بس خاموشی چھائی تھی کبھی زالان کے سفید شرٹ کو دیکھتی اور کبھی ہاتھ میں لئے زالان کی ٹھائی کو جو سرخ تھی
 

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 27218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.