جنازہ کے چالیس اہم مسائل( دوسری قسط )

(۲۱)جنازہ لیجا نے کے احکام:
جب کسی کی وفات ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرنا چاہئے۔ تجہیزوتکفین کی ادائیگی کے بعد مسلمان مرد جنازہ کو تابوت میں رکھ کر قبرستان لے جائے ۔ویسے مرد کو کفن میں لپیٹنے کے بعد تابوت پر رکھ کربغیر چادر سے ڈھکے بھی قبرستان لے جا سکتے ہیں اور چادر سے ڈھک کر لے جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے البتہ عورت کے حق میں بہتر ہے کہ تابوت پر پردہ ڈال کر لے جایا جائے کیونکہ وہ ستر کی چیز ہے ۔
جنازہ عورت کا ہو تو اسے اجنبی مرد بھی کندھا دے سکتا ہے البتہ عورت جنازہ کو کندھا نہیں دے گی اور نہ ہی جنازہ کے پیچھے چلے گی۔
عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ نُہِینَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا(صحیح البخاری: 1278)
ترجمہ: ام عطیہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں ( عورتوں کو ) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔
مرد حضرات خواہ پیدل ہوں یا سوار بہتر ہے کہ وہ جنازے کے پیچھے چلیں کیونکہ جنازہ کی اتباع یعنی پیچھے چلنے کا حکم ہے ، بخاری کے الفاظ ہیں ۔ إِذَا مَرِضَ فَعُدْہُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْہُ(صحیح البخاری: 5651)
ترجمہ: جب وہ بیمار ہو جا ئے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جا ئے تو اس کے پیچھے (جنازے میں) جاؤ۔
تاہم پیدل کے لئے جنازہ کے آگے چلنا بھی جائز ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : الرَّاکِبُ یسیرُ خلفَ الجَنازۃِ ، والماشی یَمشی خلفَہا ، وأمامَہا ، وعن یمینِہا ، وعن یسارِہا قریبًا مِنہا (صحیح أبی داود:3180)
ترجمہ: سوار آدمی جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل لوگ اس کے پیچھے ، آگے ، دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلیں۔
جنازہ کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے ، بعض لوگ کلمہ شہادت اور بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں جوکہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔ صحابہ کرام جنازہ کے پیچھے آواز بلند کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔
کان أصحابُ النَّبیِّ صلَّی اﷲُ علَیہِ وسلَّمَ یکرہونَ رفعَ الصَّوتِ عند الجنائزِ .(أحکام الجنائزللالبانی : 92)
ترجمہ: نبی ﷺ کے اصحاب جنازہ کے پیچھے آواز بلند کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔
٭ شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند کے رجال ثقہ ہیں ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا تُتبَعُ الجَنازۃُ بصَوتٍ ولا نارٍ(سنن أبی داود:3171)
ترجمہ: جنازے کے پیچھے آواز اور آگ کے ساتھ نہ آ۔
شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند میں غیر معروف ہے مگر مرفوع شواہد اور بعض موقوف آثارسے اسے تقویت ملتی ہے ۔ (احکام الجنائز:91)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنازہ کے پیچھے جس طرح آواز لگانا منع ہے اسی طرح آگ لے کر جانا منع ہے کیونکہ اس میں اہل کتاب کی مشابہت ہے ۔ گوکہ جنازہ کے پیچھے سگریٹ پینا اس قبیل سے نہیں ہے مگر نشہ آور چیزیں ہمیشہ منع ہیں ، جنازہ کے پیچھے سگریٹ پینا آخرت سے ہماری غفلت پہ غماز ہے جو ایک مسلمان کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔ جنازہ سے تو ہمیں فکر آخرت پیدا کرنا چاہئے ۔
اسی طرح جنازہ دیکھ کر کھڑا ہونا مستحب ہے اور جب جنازہ قبرستان میں رکھ دیا جائے تو بیٹھا جائے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا رأیتمُ الجنازۃَ فقوموا ، فمن تَبِعَہَا فلا یقعدْ حتی تُوضعَ .(صحیح البخاری:1310)
ترجمہ: جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔
اس حدیث میں جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا واجبی حکم ہے جبکہ دوسری حدیث میں کھڑے ہونے کی ممانعت بھی آئی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : اجلِسوا خالِفوہم(صحیح أبی داود:3176)
ترجمہ: جنازہ دیکھ کربیٹھے رہو اور یہود کی مخالفت کرو ۔
دونوں احادیث کو سامنے رکھنے سے استحباب کا حکم نکلتا ہے ۔
(۲۲)نماز جنازہ سے قبل نصیحت:
موت انسانوں کے لئے بہترین موعظت ہے بشرطیکہ ایمان والا ہواور قبروں کی زیارت کا تو رسول اﷲ ﷺ نے حکم فرمایا ہے تاکہ آخرت یاد آئے ۔ مومن بندے کی نصیحت کے لئے کسی کا جنازہ اٹھنا ہی کافی ہے اور قبرستان جانا آخرت یاد دلانے کے لئے کافی وافی ہے ، الگ سے موعظت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بسااوقات نمازجنازہ میں لوگوں کا انتظار ہوتا ہے اور پہلے سے موجود لوگ آنے والوں کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع سے امام صاحب لوگوں کو کچھ نصیحت کردے تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ نصیحت کا بہترین موقع بھی ہے ، یہاں اذہان وقلوب بھی نصیحت قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ نبی ﷺ سے نماز جنازہ سے قبل لوگوں کو وعظ کرنا ثابت نہیں ہے البتہ عمومی طور پرجنازہ کے وقت تذکیروبیان ملتا ہے جیساکہ انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :
مَرُّوا بجَنازۃٍ فأثنَوا علیہا خیرًا، فقال النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم : وَجَبَتْ . ثم مَرُّوا بأخرَی فأثنَوا علیہا شرًّا، فقال : وَجَبَتْ فقال عُمَرُ بنُ الخطابِ رضی اﷲ عنہ : ما وَجَبَتْ ؟ قال : ہذا أثنَیتُم علیہ خیرًا، فوَجَبَتْ لہ الجنۃُ، وہذا أثنَیتُم علیہ شرًّا، فوَجَبَتْ لہ النارُ، أنتم شُہَداء ُ اﷲِ فی الأرضِ .(صحیح البخاری:1367)
ترجمہ: صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم لوگ زمین میں اﷲ تعالیٰ کے گواہ ہو۔
اس لئے نمازجنازہ سے قبل خطبہ دینا یا وعظ ونصیحت کو لازم پکڑنا جائز نہیں ہے ۔ جنازہ کا تقاضہ ہے کہ بلاتاخیر نمازجنازہ پڑھ کر جلدسے جلد میت کو دفن کردیا جائے ۔ بسااوقات کچھ انتظار ہوتو بغیر خطبے کی شکل کے چند ناصحانہ کلمات کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔
سمعت جریر بن عبد اﷲ یقول یوم مات المغیرۃ بن شعبۃ ، قام فحمد اﷲ وأثنی علیہ ، وقال : علیکم بإتقاء اﷲ وحدہ لا شریک لہ ، والوقار ، والسکینۃ ، حتی یأتیکم أمیر ، فإنما یأتیکم الآن . ثم قال : استعفوا لأمیرکم ، فإنہ کان یحب العفو . ثم قال : أما بعد فإنی أتیت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قلت : أبایعک علی الإسلام ، فشرط علی : والنصح لکل مسلم . فبایعتہ علی ہذا ، ورب ہذا المسجد إنی لناصح لکم . ثم استغفر ونزل .(صحیح البخاری:58)
ترجمہ: زیاد بن علاقہ نے کہا میں نے جریر بن عبداﷲ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ ( حاکم کوفہ ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اﷲ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اﷲ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ ( مغیرہ ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی ( پس ) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔
بظاہر اس اثر میں خطبے کی شکل ہے مگر یہ ہمیشگی والا عمل نہیں جس سے دلیل پکڑتے ہوئے ہمیشہ ایسا کرنا چاہئے ، نہ بطور خاص نمازجنازہ کے وقت ہے اورنہ ہی اس طرح کا عمل نبی ﷺسے ثابت ہے ۔ نبی ? کی وفات پر حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ کا خطبہ دینا بھی ثابت ہے اس سے بھی عدم دوام پرہی دلیل لی جائے گی جس کا نمازجنازہ کے وقت ہمیشہ وعظ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ۔ نیز وہاں ایک خاص پس منظر تھا ،حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نبی ﷺکی وفات کا انکار کررہے تھے اس وجہ سے ابوبکررضی اﷲ عنہ کو یہ مسئلہ واضح کرنا پڑا ۔
آج کل بعض مقامات پر دفن کے بعدقبرستان میں خطیب کی طرح لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے اور اسے جنازے کا حصہ سمجھا جاتا ہے جوکہ واضح بدعت کی شکل ہے ، ایسا کرنا رسول اﷲ کی سنت سے ثابت نہیں ہے ۔ کبھی کبھار قبرکے پاس بیٹھے نبی ﷺ سے صحابہ کے ساتھ تذکیر کا ثبوت ملتا ہے ۔ چند حضرات قبرستان میں اتفاقیہ بیٹھے ہوں اور آپس میں تذکیر کرے تو کوئی حرج نہیں مگر لوگوں میں ایک واعظ ہو جو بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر سب کو وعظ کرے سنت کی مخالفت ہے ۔ دفن کے وقت جلدی سے تدفین کا کام مکمل کرنا چاہئے اور انفرادی طور پر میت کے لئے استغفار اور ثبات قدمی کی دعاکرنی چاہئے ۔
(۲۳)نماز جنازہ اور صف بندی کے احکام :
٭نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ، گاؤں کے چند لوگ جنازے میں شریک ہوگئے تو سبھی سے فریضہ ساقط ہوگیا اور اگر کوئی جنازہ نہ پڑھے تو پوری بستی والے گنہگار ہوں گے ۔
٭میت کے لئے تین صفیں بنانا مستحب ہے لیکن اسے ضروری خیال نہ کیا جائے کیونکہ اس سلسلے میں آثار ملتے ہیں مگر مرفوع روایات ضعیف ہیں ۔ کسی کے جنازہ میں سو آدمی شریک ہو اور وہ میت کے حق میں سفارش کریں تو قبول ہوتی ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : ما من میِّتٍ تُصلِّی علیہ أمَّۃٌ من المسلمین یبلغون مائۃً . کلُّہم یشفعون لہ . إلَّا شُفِّعوا فیہ(صحیح مسلم:947)
ترجمہ: کو ئی بھی (مسلمان ) مرنے والا جس کی نماز جناز ہ مسلمانو کی ایک جماعت جن کی تعداد سو تک پہنچی ہو ادا کرے وہ سب اس کی سفارش کریں تو اس کے بارے میں ان کی سفارش قبول کر لی جا تی ہے ۔
نبی ﷺ کا ایک دوسرا فرمان ہے : ما من رجلٍ مسلمٍ یموتُ فیقوم علی جنازتِہ أربعون رجلًا ، لا یشرکون باﷲ شیئًا إلا شفَّعہم اﷲُ فیہ(صحیح مسلم:948)
ترجمہ: جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں جنہوں نے اﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اﷲ تعالیٰ اس کے حق میں ضرور ان کی شفاعت قبول کرتا ہے۔
حتی کہ اگر کسی میت کی خیروبھلائی پر دو شخص بھی گواہی دے تو وہ اﷲ کی رحمت سے جنت کا مستحق ہوگا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أیُّما مسلمٍ، شَہِدَ لہ أربعۃٌ بخیرٍ، أدخَلہ اﷲُ الجنۃَ . فقُلْنا : وثلاثۃٌ، قال : وثلاثۃٌ . فقُلْنا : واثنانِ، قال : واثنانِ . ثم لم نسألْہ عن الواحدِ .(صحیح البخاری:1368)
ترجمہ: جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اﷲ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
٭صفوں کا طاق ہونا ضروری نہیں جفت بھی ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
٭ میت مرد ہو تو امام سر کے پاس اور عورت ہو تو درمیان میں کھڑا ہو۔
٭ اگر میت میں کئی مردوعورت اور بچے ہوں تو عورتوں کو قبلہ کی طرف پھر بچوں کو،اس کے بعد مردوں کو امام کی جانب رکھا جائے ۔
٭ اگر عورتیں نماز جنازہ میں شامل ہوں تو ان کی صف مردوں کے پیچھے ہوگی ۔
٭ باشعوربچے بڑوں کی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں جیساکہ ابن عباس رضی اﷲ عنہاجب بچے تھے تو نبی ﷺکے ساتھ بڑوں کی صف میں نماز جنازہ پڑھی اور بچے باشعور نہ ہوں تو انہیں پچھلی صفوں میں رکھا جائے ۔
٭ نماز جنازہ مسجد میں بھی ادا کرسکتے ہیں جیساکہ رسول اﷲ ? نے بیضا کے دو بیٹے سہل اور سہیل کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔ (مسلم :973)
٭ عموما شہروں میں قبرستان کی بونڈری سے باہر نماز جنازہ کیلئیایک مسجد بنی ہوتی ہے اس میں نماز جنازہ یا دیگر نماز اداکرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ قبرستان میں داخل نہیں ہے تاہم قبرستان کے اندر مسجد بنانا اور اس میں پنچ وقتہ نمازیں ادا کرنا جائز نہیں ہے ۔نبی ? کا فرمان ہے :
الأرضُ کلَّہا مسجدٌ إلَّا المقبرۃَ والحمَّامَ(صحیح الترمذی:317)
ترجمہ: پوری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اورطہارت وپاکیزہ گی کاذریعہ بنائی گئی ہے سوائے قبرستان اور حمام کے ۔
حتی کے نماز جنازہ بھی قبرستان میں اور قبروں کے درمیان ادا کرنا منع ہے اس کی وجہ شرک کاسد باب ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
نَہَی أنْ یُصَلَّی علی الجنائِزِ بینَ القبورِ( صحیح الجامع:6834)
ترجمہ : نبی نے منع کیا کہ جنازہ کی نماز قبروں کے درمیان پڑھی جائے ۔
ہاں تدفین کے بعدوہ شخص نماز جنازہ اس میت کی قبر پر ادا کرسکتا ہے جس میت کا جنازہ نہیں پڑھ سکا ۔
(۲۴)نماز جنازہ کا طریقہ :
نماز جنازہ کے لئے وضو ، استقبال قبلہ اور نیت شرائط میں سے ہے ۔ صفوں کی ترتیب کے بعد امام صاحب یا جنہیں نماز جنازہ کے لئے میت نے وصیت کی ہو وہ نماز پڑھائے ۔ نماز جنازہ میں نو تکبیرات تک کا ثبوت ملتا ہے مگر چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام کا اجماع ہے اس لئے جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی اس پہ مفصل بحث آگے آرہی ہے۔
پہلی تکبیر: اعوذ باﷲ ، بسم اﷲ اور سورہ فاتحہ پڑھیں ۔ سورہ فاتحہ سے قبل دعائے استفتاح اور اس کے بعد کوئی سورت پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہیتاہم سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے ۔
دوسری تکبیر: نماز میں پڑھا جانے والا درودابراہیمی پڑھیں ۔
تیسری تکبیر: جنازے کی دعا پڑھیں ۔
جنازہ کی کئی دعائیں ہیں ،ان میں سے کوئی پڑھ لینا کافی ہے ۔ ایک دعا یہ ہے : اللَّہمَّ اغْفِرْ لحیِّنا ومیِّتِنا وشاہدنا وغائِبنا وصَغیرنا وَکبیرنا وذَکرِنا وأُنثانا اللَّہمَّ مَنْ أحییتَہ مِنَّا فأحیِہ علَی الإسلامِ ومن تَوَفَّیتَہ مِنَّا فتَوفَّہُ علَی الإیمانِ اللَّہمَّ لا تحرمنا أجرَہ ولا تُضلَّنا بعدَہ(صحیح ابن ماجہ:1226)
چوتھی تکبیر: آخری تکبیر پر سلام پھیر دیں ،نماز جنازہ میں ایک سلام کا ذکر ملتا ہے اس وجہ سے اصل نماز جنازہ میں ایک سلام ہی ہے تاہم عام نمازوں میں دو سلام کی دلیل سے نماز جنازہ میں بھی دو سلام پھیرا جاسکتا ہے لہذا ایک سلام اور دو سلام دونوں عمل جائز ہیں۔
٭ ہر تکبیر پر رفع یدین کرنا چاہئے ۔
٭ نماز جنازہ سرا اور جہرا دونوں طرح ادا کرنا جائز ہے ۔
(۲۵)نماز جنازہ عورت بھی ادا کرسکتی ہے :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عورت نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتی اور اس خیال سے متعلق ثبوت کے طور پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے :لَیْسَ للنِّسَاء ِ فی الجنازَۃِ نصیبٌ(مجمع الزوائد:16/3)
ترجمہ: عورتوں کے لئے جنازہ میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔
اس سے استدلال نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ضعیف ہے ۔ شیخ البانی نے اسے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔(ضعیف الترغیب:2069)
حقیقت یہ ہے کہ عورتیں بھی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ حضرت ابوسلمی بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن وقاص رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: ادخُلوا بہ المسجدِ حتی أصلیَ علیہ(صحیح مسلم:973)
ترجمہ: سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ ادا کرسکوں ۔
عورتوں کی افضل نماز تو گھر میں ہی ہے ، اس لحاظ سے عورتیں میت کے غسل اور کفن کے بعد جمع ہوکر جماعت سے میت کی نماز جنازہ گھر ہی میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں اور وہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر والی حدیث عائشہ گزری جس سے مسجد میں عورت کا نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ سے سوال کیا گیا کہ کیا عورتوں کے لئے جائز ہے کہ گھر کی ساری عورتیں جمع ہوکر گھر ہی میں میت کی نماز جنازہ پڑھ لے؟
توشیخ رحمہ اﷲ نے جواب کہ کوئی حرج نہیں عورتیں نماز جنازہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرے یا جنازہ والے گھر میں ادا کرلے کیونکہ عورتوں کو نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن عثیمین:17/157)
(۲۶)تکبیرات جنازہ اور صحابہ کرام:
نماز جنازہ میں چار سے زائد تکبیرات کابھی ثبوت ملتا ہے ، تین تکبیر سے لیکر نو تکبیرات کا ذکر ہے تاہم صحیحین میں پانچ تک کا ذکر ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں:کان زیدٌ یُکبِّرُ علی جنائزِنا أربعًا . وإنہ کبَّر علی جنازۃٍ خمسًا . فسألتُہ فقال : کان رسولُ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّمَ یُکبِّرُہا .(صحیح مسلم:957)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ " آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔
یہ حدیث متعدد کتب احادیث میں مروی ہے مثلا ابوداؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، بیہقی ، مسند طیالسی اور مسند احمد وغیرہ ۔
امام نووی رحمہ اﷲ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے :
دل الإجماع علی نسخ ہذا الحدیث لأن ابن عبد البر وغیرہ نقلوا الإجماع علی أنہ لا یکبر الیوم إلا أربعا ، وہذا دلیل علی أنہم أجمعوا بعد زید بن أرقم ، والأصح أن الإجماع یصح من الخلاف (شرح مسلم)
ترجمہ: اجما ع اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔
گویا امام نووی رحمہ اﷲ کے نزدیک پانچ والی روایت منسوخ ہے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع ہے ۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ چار تکبیرات ہی مشروع ہیں ، ان کی چار وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اکثر صحابہ سے مروی ہے ، ان کی تعداد پانچ تکبیرات بیان کرنے والے صحابہ سے زیادہ ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صحیحین کی روایت ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ چار تکبیرات پہ اجماع واقع ہوا ہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا آخری عمل یہی ہے جیساکہ امام حاکم نے مستدرک میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ان لفظوں کے ساتھ روایت ذکر کیا ہے(آخر ما کبر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی الجنائز أربع ) کہ نبی ﷺ نے جنازہ پہ سب سے آخری مرتبہ چار تکبیرات کہیں۔ (نیل الاوطار ، باب عددتکبیر صلاۃ الجنائز)
صاحب عون المعبود کا رحجان چار تکبرات کی طرف لگتا ہے چنانچہ انہوں نے علی بن جعد کے حوالے سے صحابہ کے کچھ آثار پیش کئے جن سے چار تکبیرات پہ اجماع کا علم ہوتا ہے جیسے کہ بیہقی میں ہے کہ عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا صحابہ کبھی چار تو کبھی پانچ پر عمل کرتے تو ہم نے چار پہ جمع کردیا۔ بیہقی میں ابووائل رضی اﷲ عنہ سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ نبی ﷺ کے زمانہ میں چار، پانچ ، چھ اور سات تکبیرات کہا کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے سب کو جمع کرکے اس اختلاف کی خبر دی اور انہیں چار تکبیرات پہ جمع کردیا۔ابراہیم نخعی کے طریق سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ کرام ابومسعود رضی اﷲ عنہ کے گھر جمع ہوئے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع کرلیا۔ (عون المعبود ، باب التکبیر علی الجنازۃ)
امام ترمذی نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر نبی ﷺ کے اکثر اصحاب کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ)
شیخ ابن باز رحمۃ اﷲ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی میت فضل کے اعتبار سے بڑا ہو تو کیا ان کے جنازہ میں تکبیر ات زائد کہی جاسکتی ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ افضل یہی ہے کہ چار پہ اکتفا کرے جیساکہ اس وقت عمل کیا جاتا ہے اس لئے کہ یہ نبی ﷺ کا آخری عمل ہے ، نجاشی کی بڑی فضیلت ہے پھر بھی نبی ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ ہی اکتفا کیا ۔ (مجموع فتاوی و رسائل بن باز تیرہویں جلد)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام کا اجماع ہے اس لئے جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی ۔
(۲۷)کئی جنازے کی ایک ساتھ نماز :
ایک ساتھ متعدد جنازے کے سوال پر شیخ ابن باز رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ سب جنازے کو جمع کیا جائے اور ان پر ایک بار نماز ادا کی جائے کیونکہ نبی ﷺ نے جنازہ کے متعلق جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اﷲ احکام الجنائز میں کہتے ہیں کہ جب عورت ومرد کے کئی جنازے جمع ہوجائیں تو ان سب پر ایک مرتبہ نماز جنازہ پڑھی جائے ، دلیل میں ابن عمر کا اثر پیش کرتے ہیں جس میں ایک ساتھ نو میت کا جنازہ پڑھنے کا ذکرہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اکیلے اکیلے بھی جنازہ پڑھنا جائز ہے اور یہی اصل ہے ، نبی ﷺنے شہداء احد پر ایسا ہی کیا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ میت کے حق میں بہتر یہ ہے کہ ایک ساتھ سب کا جنازہ پڑھا دیا جائے لیکن اگر سب کا الگ الگ جنازہ پڑھا یا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
جب ایک مرتبہ میں ایک سے زائد میت کی نماز جنازہ ہوجاتی ہے تو مصلی کو جنازہ کے عدد کے حساب سے ثواب ملے گا یعنی ہرجنازہ کی نماز کے بدلے ایک قیراط ثواب ۔ اﷲ کا فضل زیادہ وسیع ہے۔
(۲۸)نماز جنازہ کی بعض تکبیر کی قضا کا طریقہ:
نماز جنازہ کی چاروں تکبیریں رکن اور بحیثیت رکعت کے ہیں ،ان کی ادائیگی کے بغیر نہ تو امام کی نماز درست ہے ، نہ ہی مقتدی کی ۔
اگر امام بھول کر تین تکبیر پہ سلام پھیردے تو یاد دلائی جائے تاکہ چوتھی کہے ۔ ورنہ نماز نہیں ہوگی ۔ اگر تین ہی سلام پھیردیا اور تنبیہ کرنے پر بھی چوتھی تکبیر نہیں کہی تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ خود سے چوتھی تکبیر کہہ کر اپنی نماز جنازہ مکمل کرے ۔
اگر مقتدی دو تکبیریں ختم ہونے کے بعد نماز جنازہ میں شامل ہوتو وہ اپنی پہلی تکبیر میں فاتحہ پڑھے ، دوسری تکبیر میں درود ۔اور جب امام سلام پھیردے تو وہ تیسری تکبیر خود سے کہے اس میں میت کی دعا پڑھے اور خود سے ہی چوتھی تکبیر کہہ کر سلام پھیردے ۔
شیخ ابن بازرحمہ اﷲ جس سے جنازہ کی بعض تکبیر چھوٹ گئی اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ جس سے جنازہ کی بعض تکبیر یں چھوٹ گئیں وہ ان کی قضا کرے نبی ﷺ کے قول کے عموم کی وجہ سے ۔
إذا أقیمت الصلاۃ فامشوا إلیہا وعلیکم السکینۃ والوقار ، فما أدرکتم فصلوا ، وما فاتکم فاقضوا(جب نماز کھڑی ہوجائے تو اس کی طرف چل پڑو اور سکینت ووقار لازم پکڑو، جو مل گئی اسے پڑھو اور جوچھوٹ گئی اس کی قضا کرو)
قضا کا طریقہ یہ ہے: جو مل گئی ہے اسے اول نماز سمجھے اور چھوٹ گئی ہے (جس کی قضا کرنی ہے)اسے آخر نماز سمجھے۔ نبی ? کے فرمان کی وجہ سے: فما أدرکتم فصلوا ، وما فاتکم فأتموا(جو مل گئی اسے پڑھو اور چھوٹ گئی اس کی قضا کرو)۔
اگر مقتدی امام کو تیسری تکبیر میں پائے تو وہ تکبیر کہہ کر فاتحہ پڑھے اور جب امام چوتھی تکبیر کہے تو وہ اس کے پیچھے تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود پڑھے۔ اور جب امام سلام پھیردے تو وہ (سلام نہ پھیرکر) خود سے تکبیر کہے تو اور میت کے لئے مختصر دعا کرے اور پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیردے ۔ (مجموع الفتاوی :13/149)
(۲۹)نماز جنازہ غائبانہ کا حکم :
جس طرح جنازہ سامنے رکھ کر اس کی نماز پڑھنا یا دفن کے بعد قبر پر اس کے لئے نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی ثابت ہے کہ جنازہ کسی شہر میں ہو اور اس کے متعارفین دوسرے شہر میں ہوں وہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کرسکتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
قد تُوُفِّیَ الیومَ رجلٌ صالحٌ من الحبَشِ، فَہَلُمَّ فَصَلُّوا علیہ . قال : فصَفَفْنا، فصلَّی النبی صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم علیہ ونحن صُفوفٌ(صحیح البخاری:1320)
ترجمہ: آج حبش کے ایک مرد صالح ( نجاشی حبش کے بادشاہ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کرلی اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔
اس روایت کوبعض علماء نے نجاشی کے ساتھ خاص مانا ہے جبکہ اسے خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نجاشی کی میت بطور معجزہ نبی کے سامنے کردی گئی تھی اس لئے وہ جنازہ غائبانہ نہیں تھا بلکہ حاضرانہ تھا۔ یہ قول مرجوح ہے اس کی طرف التفاف نہیں کیا جائے گا اور جنہوں نے نمازجنازہ غائبانہ کو بدعت یا ناجائز کہا وہ بھی خطا پر ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ مشروع و مطلق طور پر عام ہے کیونکہ نبی ﷺ نے خود غائبانہ نمازجنازہ پڑھی اورصحابہ کو پڑھنے کا حکم جوکہ آپ ? کے الفاظ " فصلوا علیہ" (تم سب ان کی نماز کی نماز جنازہ پڑھو) سے صراحت کے ساتھ بالجزم ظاہروباہر ہے۔ نیز کسی صحابی سے غائبانہ نماز جنازہ پر نکیر منقول نہیں ہے ۔
رئیس الاحرار مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اﷲ اپنی کتاب نماز جنازہ اور اس کے مسائل میں واقعہ نجاشی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
اس سے صاف طاہر ہے کہ مسلمان میت کی نماز جنازہ علی الاطلاق اور علی العموم مشروع ہے اس کی لاش کا نمازیوں کے سامنے موجود وحاضر ہوناضروری نہیں۔ نجاشی پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا حکم دیتے وقت رسول اﷲ ﷺ نے "صلواعلی اخیکم النجاشی" کے واضح الفاظ کے ذریعہ صراحت کردی تھی کہ جس نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم میں تمہیں دے رہاہوں وہ تمہارے یعنی مومنوں کے بھائی ہیں ۔ظاہر ہے کہ آپ نے یہ بات اسلام کے اس اصول کے تحت فرمائی تھی کہ انماالمومنون اخوۃ(الحجرات:1) سارے کے سارے اہل ایمان باہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ نماز جنازہ پڑھنے کے لئے میت کا مومن ہونا تو شرط ہے اس کی لاش کا نمازیوں کے سامنے حاضروموجود ہونا شرط نہیں ۔ انتہی
(۳۰)جنازہ کے مکروہ اوقات :
تین اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا منع ہے ۔ عقبہ بن عامر جہنی رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں:
ثلاثُ ساعاتٍ کان رسولُ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّمَ ینہانا أن نُصلِّیَ فیہنَّ . أو أن نَقبرَ فیہن موتانا : حین تطلعُ الشمسُ بازغۃً حتی ترتفعَ . وحین یقومُ قائمُ الظہیرۃِ حتی تمیلَ الشمسُ . وحین تَضیَّفُ الشمسُ للغروبِ حتی تغربَ .(صحیح مسلم:831)
ترجمہ: تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اﷲ ﷺہمیں نمازپڑھنے سے یا اپنے مردوں کودفنانے سے منع فرماتے تھے,جس وقت سورج نکل رہا ہویہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے،جس وقت ٹھیک دوپہرہورہی ہویہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اورجس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔
اس حدیث میں صلاۃ کا لفظ بھی وارد ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح میت کو ان تین وقتوں میں دفن کرنا منع ہے اسی طرح میت پر نماز جنازہ پڑھنا بھی منع ہے۔ اس طرح فجر کے بعد ، ظہر کے بعداورعصرکے بعد میت پر نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں اور دفن بھی کرسکتے ہیں ۔
ایک اشکال اور اس کا حل :
ایک حدیث میں ہے کہ جب جنازہ آجائے تو تاخیر نہ کی جائے ،اس سے بعض علماء نے یہ دلیل پکڑی ہے کہ ہم میت کو کبھی بھی دفن کرسکتے ہیں یہاں تک کہ مکروہ اوقات میں بھی ۔ پہلے وہ حدیث دیکھیں :
علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ النبیَّ - صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّم - قال لہ : یا عَلِیُّ ! ثلاثٌ لا تؤخِّرْہا : الصلاۃُ إذا أَتَتْ ، والجَنازۃُ إذا حَضَرَتْ ، والأَیِّمُ إذا وَجَدْتَ لہا کُفْؤًا (مشکوۃ , ترمذی، بیہقی)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:' علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نمازکو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے۔
اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے مگر اس کا معنی صحیح ہے ۔ (تخریج مشکوۃ المصابیح : 577)
اس حدیث کی روشنی میں چند باتیں ملحوظ رہے۔
اولا : تین اوقات میں دفن کی ممانعت واجبی نہیں ہے بلکہ کراہت کے درجے میں ہے کیونکہ وجوب کا قرینہ نہیں پایا جاتا۔
ثانیا: اگر وقت تنگ ہو اور میت کو دفن کرنیکی ضرورت ہو تومکروہ اوقات میں دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ثالثا: جان بوجھ کر مکروہ اوقات میں دفن کرنا منع ہے ہاں تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوگئی اور اب مزید تاخیر صحیح نہیں تو پھر ممنوع وقت میں دفن کرسکتے ہیں ۔
رابعا: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ میت ہونے کے بعد اس کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ جلدی سے دفن کردینا چاہئے ۔ دوسری حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَسْرِعُواْ بالجنازۃِ ، فإن تَکُ صالحۃً فخیرٌ تُقَدِّمُونَہَا ، وإن یَکُ سِوَی ذلکَ ، فشَرٌّ تضعونَہُ عن رقابکم .(صحیح البخاری:1315)
ترجمہ: جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
رات میں دفن کرنے کا حکم :
ایک حدیث میں رات میں دفن کرنے کی ممانعت وارد ہے ۔ وہ روایت مندرجہ ذیل ہے ۔
مسلم شریف میں ہے :
فزجر النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ أن یُقبرَ الرجلُ باللیلِ حتی یصلی علیہِ . إلا أن یضطرَ إنسانٌ إلی ذلک . وقال النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ " إذا کفَّنَ أحدکم أخاہُ فلیُحْسِنْ کفنَہ " .(صحیح مسلم:943)
ترجمہ: پس نبی ﷺ نے ڈانٹا کہ آدمی کو رات میں دفن کیا جائیالا یہ کہ انسان اس کے لئے مجبور ہوجائے ہاں اگر نماز جنازہ پڑھ لی گئی ہو تو چنداں حرج نہیں ہے۔ نیز نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بھائی کو کفن دو تو اچھے طریقے سے کفناؤ۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر رات میں نماز جنازہ یا کفن و دفن میں دقت ہو یعنی صحیح سے میت کی تجہیزوتدفین نہ ہونے کا خطرہ ہو تو رات میں دفن نہ کیا جائے لیکن اگر رات میں دفنانے کی سہولت ہو تو رات میں بھی دفن کرسکتے ہیں ۔ اس کی دلیل ملتی ہے۔
ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
مات إنسانٌ ، کان رسولُ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ یعودُہُ ، فمات باللیلِ ، فدفنوہُ لیلًا ، فلمَّا أصبحَ أخبروہُ ، فقال : ما منعکم أن تُعَلِّمُونی . قالوا : کان اللیلُ فکرہنا ، وکانت ظلمۃٌ ، أن نَشُقَّ علیک ، فأتی قبرَہُ فصلَّی علیہِ .(صحیح البخاری:1247)
ترجمہ: ایک شخص کی وفات ہوگئی, رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے, چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ جنازہ تیار ہوتے وقت ) مجھے بتانے میں ( کیا ) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔
اور بہت سے صحابہ وصحابیات کو رات رات میں دفن کیا گیا ہے ۔ ابوبکررضی اﷲ عنہ، عثمان رضی اﷲ عنہ، عائشہ رضی اﷲ عنہا، عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ اور فاطمہ رضی اﷲ عنہا رات میں ہی دفن کئے گئے ۔
جاری رہے گا۔۔۔۔ ان شاء اﷲ

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 311098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.