مودی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم میں 100 فیصد اضافہ ہوا

پاکستان میں سیکولر طبقے کی جانب سے وقتا فوقتا اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ملک میں کبھی کبھار اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہوبھی جاتی ہے، مگر اس پر جس انداز میں شور مچایا جاتا ہے، وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں انتہا پسندی اور ظلم و تشدد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اگر کوئی ایک آدھ واقعے میں اقلیت برادری کے کسی فرد کے ساتھ ظلم ہوبھی جاتا ہے تو پوری دنیا میں بھونچال سا آجاتا ہے۔ میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً ہر حکومت اقلیتوں کے مسائل پر توجہ دیتی ہے اور انھیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بھی اس ملک کے برابرکے شہری ہیں۔ ملک کے منتخب نمائندے اور حکومتی شخصیات اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کے علاوہ ان کے دکھ درد اور خوشوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ہندو ہوں، عیسائی یا پھر سکھ سب کو یکساں نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی دیوالی،کرسمس اور دیگر تقریبات میں حکومتی ارکان باقاعدہ شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی حکومتی نمائندہ کسی اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدد میں ملوث ہو یا اقلیت کے افراد پر حملوں اور ان کے قتل میں ملوث ہو اور میڈیا اور عوام ایسے شخص کا جینا دوبھر نہ کریں، مگر پھر بھی انتہا پسندی کے حوالے سے تمام دنیا کی انگلیاں پاکستان کی طرف ہی اٹھتی ہیں، حالانکہ پاکستان کے پڑوس میں بھارت واقع ہے، جہاں حیرت انگیز طور پر اقلیتوں کے ساتھ انتہا پسندی پائی جاتی ہے، جہاں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں، جس کا اظہار نہ صرف بھارت کی اقلیتیں کرتی رہتی ہیں، بلکہ عالمی رپورٹس بھی یہ سب حقائق بیان کرچکی ہیں اور اس سے بھی بھیانک حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔

ویسے تو ہندوستان میں انتہا پسندی کوئی نئی بات نہیں ہے، بھارت میں انتہا پسندی کا آغاز 1925ء میں آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھے جانے کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا، جن میں وشوا ہندو پرشید، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر ہیں۔ 1984ء میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر کے سکھ رہنماؤں سمیت 3000سکھوں کو قتل کرنے اور 1992ء میں بابری مسجد کو مسمار کرنے اور اس دوران 1200مسلمانوں کو قتل کرنے میں یہی آر ایس ایس اور اس کی بچہ جماعتیں شامل تھیں اور 2002ء میں گجرات میں ایک ٹرین سازش میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا دو ہزار مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ اس وقت بھی گجرات کے وزیراعلی انتہا پسند نریندر مودی تھے، جن کو گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے۔نریندر مودی کی نظریاتی اور سیاسی پرورش آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے اور انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مودی نے جوانی میں ہی ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے ہندو پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے تھے، جبکہ بی جے پی کی سیاست کا روز اول ہی سے محورومرکز پاکستان دشمنی اور مسلم بیزاری رہا ہے۔ نریندر مودی شروع سے ہی ایک انتہا پسند شخص ہیں، جنہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف خوب دل کا زہر اگلا اور بھارت میں انتہا پسندی کو پروان چڑھایا۔ مودی کی الیکشن میں کامیابی میں مذہبی انتہا پسندی کا فیکٹر نمایاں تھا۔ نریندر مودی کی سیاسی پرورش ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے۔ انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے اور گجرات میں ان کے اقتدار کے ابتدائی دنوں کا ماضی کافی متنازع رہا ہے۔ گجرات میں 2002ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ جن میں مودی کے ملوث ہونے کی بنا پر 2005ء میں امریکا نے انہیں ویزہ دینے سے انکار کردیاتھا۔ مودی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سخت بیانات دینے میں کافی مشہور ہے۔ نریندر مودی کی جانب سے کبھی اقتدار میں آنے کے بعد تمام بنگلا دیشی مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کے اعلانات کیے جاتے رہے توکبھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی باتیں کی جاتی رہیں۔ بھارت کے سیکولر حلقے مودی کو انتہائی متعصب اور انتہاپسند تصور کرتے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں آگئے تو انتہا پسند ہندوؤں کو کھل کر مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ظلم و تشدد کرنے کی چھٹی دی۔ نریندر مودی کے برسرِاقتدارآتے ہی ایک طرف ہندو انتہا پسندوں کو کھلی آزادی مل گئی کہ وہ بلا روک ٹوک اپنے انتہا پسند اور متشدد ایجنڈے اور فلسفے کو طاقت کے زور پر عوام پر مسلط کریں، دوسری طرف ماضی کے تلخ تجربات کے پیشِ نظر مسلمانوں، مسیحیوں اور سکھوں پر مبنی بھارت کی مذہبی اقلیتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ آنے والے سالوں میں رونما ہونے والے واقعات نے ان خدشات کو بالکل درست ثابت کیا اور عدم برداشت اور عدم رواداری کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔گائے کے ذبیحہ اور گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کردی گئی اور محض شبہ میں کئی افراد کو قتل کردیا گیا۔ گائے کے پیشاب کو دوائیوں میں استعمال کیا گیا۔ بھارت میں تعلیمی نصاب کو بھی ہندوتوا فلاسفی کے مطابق ترتیب دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بھارت کی تاریخ کو بھی ہندوتوا فلاسفی کی روشنی میں از سرِ نو لکھنے کا منصوبہ جاری ہے جس میں بھارت کی اسلامی شناخت اور تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے۔ شدھی جیسی تحریکوں کے احیاء کے ذریعے غیر ہندو آبادی کو زبردستی ہندو بنانے کی کاوشیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک تو معمول کی بات ہے، مگر اس میں بھی بہت شدت آئی کہ بھارت کے سیکولر چہرے کی بدنمائی میں مزید اضافہ ہو ا اور وہاں کے لبرل اور سیکولر طبقے تشویش میں مبتلاء ہوگئے۔ کئی ممتاز دانشوروں اورلکھاریوں نے احتجاجاً قومی اعزازات اور میڈل حکومت کو واپس کیے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں مسلمانوں پر مظالم میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں سے بیشتر گائے کے نام پر دیکھنے میں آئے۔ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کی داستان کوئی نئی بات نہیں، کبھی مذہب کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی ذاتی انا کے مسائل میں تشدد پر قوم پرستی کے بھاشن کو دلیل کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنے ہی ملک میں رہنے کا حق نہیں۔ سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت میں مسلمان ظلم کی چکی میں پسنے لگے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے بھارت کا بھیانک چہرہ چھپانے کے لیے اکا دکا واقعات کی دبے الفاظ میں مذمت بھی کی، مگر انہیں روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا، افسوس ناک طور پر بھارتی قانون میں آج تک ایسے واقعات میں ملوث افراد کے لیے کسی سزا کا تعین نہیں کیا گیا۔ بھارتی تاریخ میں سال 2017 ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا، گائے کے نام پر تشدد کے دل دہلا دینے والے 52 فیصد واقعات محض افواہوں کی بنیاد پر ہوئے۔ بھارت میں گائے کے نام پر تشدد کے خلاف آوازاٹھانا بھی محال ہوچکا ہے۔ بالی وڈ اسٹار عامرخان نے اسی معاملے پر لب کشائی کی تو انہیں لینے کے دینے پڑ گئے اور انتہاپسند سڑکوں پر نکل آئے، تاہم عامرخان کو اپنے بیان کی وضاحت دینا پڑی۔ گائے کے نام پر سرعام تشدد اور قتل وغارت سے لگتا ہے کہ بلوائیوں کو مودی سرکار کی مکمل حمایت حاصل ہے، ایسے میں مسلمانوں کا بھارت میں جینا محال ہوتا جارہا ہے۔

حالات و واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مودی نہ تو شدت پسند عناصر کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے غیرجانب دار تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ ایسی صورت میں جب بھارت بین الاقوامی سطح پر اپنے کردار کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، ملک کے اندر سے شدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کی خبروں کا سامنے آنا اْس کے لیے اچھاشگون نہیں ہے۔ بھارت میں مودی کی حکومت بننے سے پہلے ہی وہاں کے روشن خیال دھڑوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہ نماؤں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر مودی برسراقتدار آئے تو سیکولر بھارت کی پہچان کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات سچ ثابت ہوئی اور آج مودی سرکار اپنے داخلی بحران سے آنکھ چرا کر بھارتی عوام کو جنگی جنون کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے۔ صرف یہی نہیں۔ خود کو سیکولر بھارت کا باسی کہنے والی اقلیتوں کا جینا بھی حرام ہوا اور ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی میں بھی اضافہ ہوا۔نریندر مودی کے جارحانہ رویے کے سبب بھارت میں انتہا پسند ہندو گروہوں نے قوت پکڑنا شروع کی جو مسلسل طاقتور ہو رہے ہیں اور ملک میں اقلیتوں کے لیے زبردست خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسی منفی اور انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے بھارت میں ہندوؤں کے مسلح گروہ قائم کیے جارہے ہیں جو کسی نہ کسی بہانے سے مذہبی اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔ ملک کے سیکولر عناصر اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورت حال پر بار بار متنبہ کیا، لیکن حکومت اور حکمران پارٹی کا طرز عمل تبدیل نہیں ہوا۔ اس حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے بھارت میں اب گائے کی حفاظت کے نام سے کئی گروہ بنائے گئے ہیں، جو یہ الزام لگاتے ہوئے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں کہ انہوں نے گائے کا گوشت کھایا ہے یا اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ اکثر اوقات یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوتے ہیں، لیکن نہ حکومت کی طرف سے اور نہ ہی ملک کی بااثر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس متعصبانہ اور غیر انسانی سلوک کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ حکومت مذہبی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ سامنے لانے اور اقلیتوں کا خوف اور احساس عدم تحفظ ختم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا ذاتی رویہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔
صرف یہی نہیں، بلکہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں، کیونکہ مودی ایک متعصب اور انتہا پسند شخص ہیں، جس پر صرف جنگی جنون سوار ہے اور ان کا مقصد جنگ کو ہوا دینا ہے، اسی مقصد کے لیے مودی سرکار کبھی تو پاک بھارت سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرکے شہریوں کو شہید کرتی ہے تو کبھی کلبھوشن جیسے را کے ایجنٹ کے ذریعے پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی کو پروان چڑھایا جاتا ہے، مگر پاکستان نے بدلے میں ہمیشہ رواداری کو فروغ دیا ہے۔ دہشتگرد کلبھوشن کو اس کی فیملی کے ساتھ ملاقات کروانا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس کے ساتھ پاکستان وقتاً فوقتاً بھارتی قیدیوں کو رہا کرتا رہتا ہے۔ پاکستان نے چند روز قبل اپنے ہاں قید 146 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستان سے رہائی پانے والے بھارتی ماہی گیروں کا یہ دوسرا بڑا گروپ تھا۔ پاکستان نے دسمبر 2017ء میں اپنے ہاں قید 291 بھارتی ماہی گیروں کو دو مراحل میں رہا کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں 28 دسمبر 2017ء کو 145 بھارتی ماہی گیر رہا کیے گئے تھے، جب کہ بقیہ 146 بھارتی ماہی گیر 8 جنوری کو رہا کیے گئے۔حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں ایک فیصد بھی مذہبی انتہا پسندی نہیں پائی جاتی، کیونکہ بھارت میں نتہا پسندی کو فروغ دینے میں حکومت اور خود وزیر اعظم ملوث ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.