سوشل میڈیا وقت کی ضرورت: ہماری ویب رائٹرز کلب کی ورکشاپ

گزشتہ اتوار 31 دسمبر 2017 کو ہماری ویب رائٹرز کلب کے زیرِ اہتمام “ سوشل میڈیا وقت کی ضرورت“ کے عنوان سے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا- یہ معلوماتی ورکشاپ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع وی ٹرسٹ میں منعقد کی گئی- اس ورکشاپ میں ہماری ویب رائٹرز کلب اور کراچی کے معروف صحافیوں ، کالم نگاروں نے اپنے مقالات پیش کیے جبکہ اس ورکشاپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی- ورکشاپ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا اور اس کی میزبانی کے فرائض رائٹرز کلب کے سیکریٹری جنرل جانب عطا محمد تبسم صاحب نے انتہائی احسن طریقے سے انجام دیے۔
 

image


جناب عطا محمد تبسم صاحب نے ورکشاپ کے شرکاﺀ کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کلب کی سرگرمیوں پر اور ورکشاپ کے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ “آج ہماری ویب رائٹرز کلب کے زیرِ اہتمام ہونے والی ورکشاپ سال 2017 کا آخری پروگرام ہے“۔

ہماری ویب رائیٹرز کلب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی نے ورکشاپ میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا کہنا تھا کہ “ سوشل میڈیا گھر گھر میں موجود ہے اور ہر گھر میں سوشل میڈیا کی اچھائیوں اور اس کے منفی اثرات پر گفتگو ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس کی اس اہمیت نے ہماری ویب رائیٹرز کلب کو اپنے ورکشاپ کا موضوع بنانے کی ترغیب دی“۔
 

image


ورکشاپ کے موضوع پر اظہار خیال کرنے والے دیگر کالم نگاروں اور صحافی حضرات میں منیر بن بشیر، شیخ خالد زاہد، محمد ارشد قریشی، مسرت علی، عابد حسین، پروفیسر ڈاکٹر شبیر خورشید، اعظم عظیم اعظم، مزمل احمد فیروزی، انیس منصوری، منصوراحمد خان مانی، شاہانہ جاوید، سلیم فاروقی شامل تھے۔

ورکشاپ میں سلیم اللہ شیخ صاحب نے مؤثر تحریر۔۔مگر کیسے؟ کے عنوان سے ایک پریزینٹیشن بھی پیش کی- انہوں نے تحریر لکھنے کی ابتدائی نکات کی وضاحت بھی کی۔ سلیم اللہ شیخ کا کہنا تھا کہ “ اچھی تحریر مختصر اور جامعہ ہونی چاہیے ، مشکل الفاظ کے بجائے آسان الفاظ کا استعمال ہو، جس موضوع پر تحریر ہو اپنے موضوع کی وضاحت کرتی ہو۔ تحریر کو پیراگراف میں لکھا جائے تو زیادہ پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہے“۔
 

image


ورکشاپ میں منیر بن بشیر صاحب نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ “ میرا موضوع ہے “ شعوربیدار کرنے میں سوشل میڈیا کا کردار“ اگر اس بارے میں ویب سائٹ کھولیں تو سوشل میڈیا کے بڑے بڑے فائدے نظر آئیں گے- اس سے عام افراد کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے- معلومات کا ذخیرہ خود بخود آپ تک پہنچ جاتا ہے - اس سے فوری طور پر اطلاع ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے“۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ “میں نے دونوں قسم کے معاشروں کی سوشل میڈیا میں لکھا ہے- پاکستان میں کئی اقسام کی سوشل میڈیا ہیں مثلاً موبائی فون کے ایس ایم ایس٬ یو ٹیوب٬ فیس بک٬ ٹوئٹر وغیرہ- لیکن ان سب میں مقبول فیس بک ہے- میں فیس بک کی آمد سے قبل یورپ امریکہ وغیرہ کی ویب سائٹوں میں لکھتا تھا- جب فیس بک آیا تو کہا چلو اس میں بھی غوطہ مار کر دیکھ لیا جائے- میں نے ایک فرق پایا کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ میں پاکستان کی سوشل میڈیا پر آسانی سے نہیں کہہ سکتا - ایک خوف ہے کہ کوئی برا نہ مان جائے - دوسرا میں نے یہ پایا کہ پاکستانی معاشرے میں آپ اتنا جلد اثر نہیں کرتے جتنا ترقی یافتہ ممالک یورپ اور امریکہ کے معاشرے پر اثر کرتے ہیں“-

“ سوشل میڈیا اس وقت زیادہ متاثر کن یا ایفیکٹیو ہوگا جب معاشرہ بھی قبول کر نے کےجراثیم رکھتا ہو - -میں نے دیکھا کہ میں جو بات آگے پہنچانا جا رہا ہوں اسے یورپی قوم کے افراد نے جلدی کیچ کیا یا سمجھیں ان کے ذہن منجمد نہیں تھے-

روزنامہ دنیا نیوز اور جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد جناب عابد حسین نے سٹیزن میڈیا کے حوالے سے بات کی انہوں نے کہا کہ “میڈیا نے ایک جانب سہولتیں فراہم کیں تو دوسری جانب اس کے منفی اثرات بھی معاشرے کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں“۔
 

image


محمد ارشد قریشی نے سوشل میڈیا کے لکھاری زبان و بیان پر توجہ دیں کے موضوع پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ سوشل میڈیا اب وقت کی ضرور بن چکا ہے ۔ اس حوالے سے ہمارے نوجوان بہت خوش قسمت ہیں کہ دنیا کی جدید ٹیکنالوجی ان کی دسترس میں ہے ، جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ٹیکنالوجی میں جدت آتی جارہی ہے ۔ الحمداللہ مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ اب اس جدید دور میں ہم جیسے سرکاری اسکولوں میں پڑھے ہوئے لوگ اپنے بچوں سے موجودہ ٹیکنالوجی کے بارے میں سیکھ رہے ہیں ۔ جب کہ ہمارے والدین اور اساتذہ نے سب سے زیادہ زور خوشخطی سیکھنے پر دیا تھا اور ہم نے بھی کیا کیا جتن نہ کیے خوشخطی سیکھنے کے لیئے دوات بنائی، سرکنڈوں کی قلم اور تختی کی پتائی بڑا محنت طلب کام تھا سوچا تھا کہ اس محنت کا ثمر تمام عمر ہی ملے گا کیا خبر تھی کہ یہ کی بورڈ آکر ساری محنت پر پانی پھیر دے گا-بہرحال وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا تو پڑے گا ورنہ دنیا آگے نکل جائے گی اور ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ “ سوشل میڈیا لکھاری خود سے ہی ضابطہ اخلاق بنالیں تو یقیناً اس کے اچھے نتائج آئیں گے ۔ دنیا بھر میں بہت سی ویب سائیٹ ہیں جنہوں نے ضابطہ اخلاق نہ صرف بنائے ہوئے ہیں بلکہ ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں ، اس کے باوجود سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جنہوں نے خود اپنے بلاگ سائٹ یا ویڈیو بلاگ چینلز بنائے ہوئے ہیں جہاں ان کی تحریر کسی بھی ایڈیٹنگ یا سنسر کے مراحل سے نہیں گزرتی وہ براہِ راست شائع اور نشر کردئیے جاتے ہیں ۔ ایسے دوستوں کو بہت زیادہ اپنے کلام و بیان اور تحریر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، کوئی بھی ایسی تحریر یا ویڈیو بلاگ جس میں عمدہ لفظوں کا چناؤ کیا گیا ہوگا وہ نہایت پر اثر ہوگی ۔ جس طرح ہر انسان کا اس معاشرے میں ایک حصہ ہے اسی طرح سوشل میڈیا پر لکھنے والے اس معاشرے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اس لیئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کو مثبت کاموں کے لیے استمال کریں اور اس کے لیئے نہایت ضروری ہے کہ آپ کے بولنے اور لکھنے کا انداز خوبصورت اور با اخلاق ہو، اگر آپ اچھا لکھیں گے تو اس کا اثر براہِ راست معاشرے پر ہوگا معاشرہ اچھا ہوگا تو قوم اچھی بنے گی قوم اچھی ہوگی تو حکمران اچھے چنے جائیں گے حکمران اچھے ہونگے تو ملک ترقی کرے گا اور ملک ترقی کرے گا تو اس کا ثمر ہم سب کو خوشحالی کی صورت ملے گا“۔
 

image

“ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی حیات میں پل، سڑکیں یا ڈیم وغیرہ نہیں بنائے بلکہ اپنی طرزِ زندگی اپنی گفتگو اور اخلاق کے ذریعے اچھی قوم بنائی جب قومیں اچھی بن جاتی ہیں تو پھر تمام چیزیں وہ خود ہی بنالیتی ہیں ۔ تو آئیے آج رواں سال کے آخری دن ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے قلم اور کلام کے ذریعے اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے“۔

اس موقع پر جناب ارشد قریشی صاحب نے ہماری ویب رائٹرز کلب کے ایک اہم رکن جناب سید انور محمود صاحب کو خراج تحسین پیش کیا جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔

ہماری ویب رائٹرز کلب کے نائب صدر سید مسرت علی کا موضوع تھا “ بچوں کے بڑے ہونے میں میڈیا کا کردار۔ انہوں نے تفصیل سے میڈیا کے کردار پر بات کی ۔

سید مسرت علی صاحب کا کہنا تھا کہ “ بچوں کا سوشل میڈیا استعمال کرنا والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہی نہیں بلکہ ایک چیلنج بھی ہے ، والدین کو چاہیے کہ پہلے تو وہ خود اپنے بچوں کے لیے مثال قائم کریں کہ سوشل میڈیا کس طرح ذمہ داری کے ساتھ ایک پر وقار انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل ٹپس بہت ضروری ہیں“-
 

image

۱۔ والدین کو چاہیے کہ پہلے خود سوشل میڈیا کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کریں۔
۲۔ ۱۳سال سے کم عمر کے بچوں کو سوشل میڈی بالکل استعمال نہ کرنے دیں کیونکہ زیادہ تر نیٹ ورکس کے لیے مقرر کردہ عمر ۱۳ سال ہے۔
۳۔ سوشل میڈیا پر تصویریں، کمنٹس کے خطرات اور نتائج پر بچوں سے گفتگو کریں تاکہ ان کو جانکاری ہو کہ سوشل میڈیا پر تصویریں ، کمنٹس اور سوشل انٹر ایکشن ان کے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
۴۔ بچوں کے استعمال کا کمپیوٹر ایسی جگہ رکھیں جہاں سب کی نظر میں آسکے۔
۵۔ رُولز اور گائیڈ لائنز طے کریں جیسے استعمال کے اوقات ۔ زیادہ سختی سے اعتماد میں بگاڑ آسکتا ہے۔
۶۔ بچوں کی پرائیویسی میٹنگ پر کڑی نظر رکھیں۔

پروفیسر ڈاکٹر شبیر خورشید کے مقالے کا عنوان تھا “ سماجی ابلاغ عامہ کے اخلاقیات ، مذہب، سماج اور سیاست پر اثرات“۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے اخلاقیات سے تعلق پر تفصیلی بات کی، مذہب پر سوشل میڈیا کے جو اثرات ہورہے ہیں ان کا ذکر کیا اور سوشل میڈیا کے سیاست پر جو اثرات رونما ہورہے ہیں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

کالم نگار محمد اعظم عطیم اعظم کا کہنا تھا کہ “ سماج میڈیا کا محتاج نہیں یہ ہماری اپنی کمزوریاں اور خامیاں ہیں کہ ہم نے خود کو میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ، جب میڈیا نہیں تھا کیا اس وقت سماج میں ترقی نہیں ہورہی تھی، در اصل ہمیں اخلاقیات کے تقاضے اور ضابطے از خود مرتب کرنا ہوں گے۔ ورنہ جو کچھ 27نومبر کو ہوا کہ حکومت نے فیض آباد کے دھرنے کے ڈر سے پورا میڈیا کو ہی بند کرنا مناسب جانا، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں سقم موجود ہے اس کی اصلاح کرنا ہوگی، اور یہ اصلاح کوئی اور نہیں کرے گا یہ ہمیں خود کرنا ہوگی، جو بھی میڈیا استعمال کر رہا ہے وہ پاکستان کا سفیر ہے اگر اچھا کرے گا تو ملک کا وقار بلند ہوگا اگر اس نے غلط استعمال کیا تو خود بھی اور ملک پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ ہم جو سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں در حقیقت اپنے ملک کے سفیر ہیں“۔

شاہانہ جاوید صاحبہ نے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ جہاں سوشل میڈیا نے بہت سے فائدے ہمیں میسر ہیں وہیں بہت سے نقصانات کا بھی سامنا ہے ۔ بہت افسوس کے ساتھ کہ نوجوان آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی گفتگو کرتے ہیں جو اخلاق کے حدود سے تجاوز کرتی ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں“۔
 

image

مقالات کے دوران ہماری ویب رائٹرز کلب کے کوآرڈینیٹر جناب خواجہ مصدق رفیق کی جانب سے دو اہم موضوعات پر مبنی ایک پریزینٹیشن بھی پیش کی گئی- پریزینٹیشن میں ہماری ویب کے ہوم پیج سے لے کر آرٹیکل کو آن لائن ارسال کرنے تک کالم نگاروں کو مکمل رہنمائی فراہم کی گئی- اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ہماری ویب کے آرٹیکل ارسال کرنے کے آن لائن سسٹم کے ذریعے کئی ایسے فیچر کا استعمال کرسکتے ہیں جس سے ان کی تحریر مزید پرکشش ہوجائے گی- جیسے کہ آن لائن فارم میں موجود سسٹم کے ذریعے اپنی تحریر کا خلاصہ اور آرٹیکل سے متعلقہ تصویر بھی منسلک کر کے ہماری ویب کو ارسال کرسکتے ہیں جو کالم کے ساتھ ہی شائع ہوجائے گی-
 

image

پریزینٹیشن کے دوسرے حصے میں کالم نگاروں کو ان پیج ٹیکسٹ کو یونی کوڈ میں تبدیل کرنے کی تربیت دی گئی- اور ساتھ بتایا گیا کہ یونی کوڈ میں تبدیل کردہ ٹیکسٹ کو باآسانی ہماری ویب کے آرٹیکل کے آن لائن سسٹم کے ذریعے ہماری ویب کو ارسال کیا جاسکتا ہے جس سے تحریر جلد از جلد شائع کرنا ممکن ہوجاتا ہے-

ورکشاپ میں ایکسپریس نیوز کے جناب انیس منصوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کے حوالے سے اعداد و شمار بھی پیش کیے، ان کا کہنا تھا کہ “ سوشل میڈیا پر بننے والے ٹرینڈ پر اگر غور کیا جائے تو ایسی باتوں یا ایسی خبروں کے ٹرینڈ بنتے ہیں جن میں یا تو سنسنی ہو یا فحاشی کے عنصر شامل ہوں ۔ مثال کے طور پر پوشیدہ امراض کے علاج کے حوالے سے ، غیر ملکی اداکاراؤں کے حوالے سے خبریں ٹرینڈ بن جاتی ہے سوشل میڈیا پر اس طرح کی پھیلائی گئی خبروں کو ایک منٹ میں ہزاروں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے صفِ اول کے ٹی وی چینلز یا معاشرے کی کسی دوسری خبر کو سوشل میڈیا پر اتنی پذیرائی نہیں ملتی۔
 

image

جناب شیخ خالد زاہد نے اخلاقیات اور سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک نظم پیش کی اس کے چند اشعار :
پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں کی روائت چھوڑ دی ہے
بس یوں سمجھ لیجئے کہ محبت کرنا چھوڑ دی ہے

حاضری تو سارے خداؤں کے حضور ہوتی ہے
سجدے تو سب کرتے ہیں ۔ عبادت کرنا چھوڑ دی ہے

مونٹیسری ڈے کیئر سینٹر پرورش کے ذمہ دار ہیں
آپ جناب جیسے الفاظ اجنبی سے ہوگئے ہیں

ہر ایک دستیاب ہے اب سوشل میڈیا پر
لوگوں نے بالمشافہ ملاقات چھوڑ دی ہے

کسی بات سے دل آزاری نا ہوجائے خالد
ہم نے گفتگو طویل چھوڑ دی ہے
 

image

ڈان نیوز کے منصور احمد خان مانی نے سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق پر گفتگو کی۔ انہوں نے میڈیا کے مثبت اور منفی باتوں کو مثالوں سے واضح کیا۔ان کا کہنا تھا “ ہمارے ہاں بدقسمتی سے خبروں کو تڑکا لگا کر ریٹنگ حاصل کی جاتی ہے چاہے پرنٹ میڈیا ہو الیکٹرانک یا پھر سوشل میڈیا ہو ۔ خبر ایک ہی ہوتی ہے لیکن اسے سنسنی خیز بنانے کے لیئے مختلف زاویوں سے لکھا جاتا ہے مثال کے طور پر اگر ایک خبر یہ ہے کہ شہر کراچی میں ایک شخص کا قتل لیکن پھر دوسری خبر میں اس مقتول کا تعلق کسی مسلک کے ساتھ جوڑ کر اسے تڑکا لگایا جاتا ہے“-

آزاد ریاست سے تعلق رکھنے والے مزمل فیروزی نے کہا کہ “ بہت سے ایسی ویب سائیٹس ہیں جہاں آپ بلاگ لکھ کر پیسے کماسکتے ان میں زیادہ تر فوڈ کے حوالے سے ویب سائیٹس ہیں جو اپنے لیئے بلاگ لکھنے والے بلاگرز کو اچھا معاوضہ پیش کرتے ہیں“۔
 

image

ڈاکٹر وصی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے سوشل میڈیا کیی اہمیت کے حوالے سے مختصر خطاب کیا ۔ انہوں نے بچوں کے لیے پیش کیا جانے والا ٹی وی پروگرام جو فاروق قیصر پیش کیا کرتے تھے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی کئی مثالیں بھی پیش کیں۔

ہماری ویب رائٹرز کلب کی اس ورکشاپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں موجود میڈیا ، صحافت اور ادب سے تعلق رکھنے والوں نے ورکشاپ میں اپنی شمولیت اس طرح کی کہ انہوں نے اس موضوع پر مقالات تحریر کر کے بھیجے ان میں لندن سے ثمینہ رشید صاحبہ نے اپنا مقالہ بعنوان سوشل میڈیا لکھاریوں کے لیے ضابطہ اخلاق کی ضرورت و اہمیت تحریر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ “سوشل میڈیا سے مراد دراصل انفارمیشن بیسڈ ویب سائیٹ ، ویڈیوز ، بلاگز وغیرہ ہیں ۔ جن پر موجود انفارمیشن سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں جبکہ سوشل نیٹ ورکنگ کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو آپس میں کنیکٹ کرنا ہے تاکہ افراد کے درمیان کمیونیکیشن کو بہتر بنایا جاسکے۔ سوشل نیٹ ورک ایک فرد کے گرد گھومتا ہے جس کی حیثیت انفرادی ہے جیسا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ ۔ جہاں ہر شخص اپنی پروفائل بناتا ہے اور دوسرے لوگ اس پروفائل کے ذریعے اس کے بارے میں جانتے ہیں اور اسطرح انسان اپنے ہم مزاج لوگوں سے سوشل نیٹ ورکنگ کے زریعے کنکٹ ہوجاتا ہے۔ اور سوشل میڈیا کی معلومات اس نیٹ ورکنگ کے ذریعے دنیا بھر منٹوں میں پہنچ سکتیں ہیں اس فرق کے پیش نظر انفرادی حیثیت میں کسی ضابطہ اخلاق کا نفاذ کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ ہر شخص اپنی ذاتی حیثیت میں اپنی فیس بک وال پر لکھنے کے لئے آزاد ہے۔ البتہ اس پر فیس بک کمیونٹی کے لئے بنائے گئے اصول و ضوابط کا اطلاق لازم ہے۔ اور ان اصول وضوابط کا ہر فیس بک، ٹوئیٹر اور دوسرے سوشل نیٹ ورکنگ ٹول استعمال کرنے والا پابند ہے“۔

انہوں نے لکھا “سوشل میڈیا کی سب سے بڑی طاقت اور مثبت پہلو اس پر موجود کسی خبر ، تحریر یا ویڈیو کے بارے میں آنے والا عوامی رد عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی ویب سائیٹ نے معاشرے کے مروجہ اصولوں کو توڑنے کی طرف قدم بڑھایا اس پر آنے والے عوامی ردعمل کی وجہ سے ویب سائیٹس کو اپنی غلطی تسلیم کرنا پڑی اور یہ احتسابی عمل اخلاقی درستگی کا پیش خیمہ بننے لگا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس ضرورت کا احساس بڑھتا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کو مثبت طریقے سے معاشرے میں امن پسندی ، رواداری کے فروغ اور مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی کو کم کرنے کی غرض سے استعمال کرنے کے لئے ایک خود کار احتسابی نظام کے بجائے ایک باقاعدہ ضابطۂ اخلاق کا متعین ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بجائے کسی سرکاری ریگیولیٹری اتھارٹی کے بنائے گئے قوانین کے اطلاق کے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ویبسائیٹس چلانے کے زمہ داران آپس میں مل بیٹھ کر ایک ضابطۂ اخلاق مرتب کریں اور پھر اپنی ویب سائیٹس اور ان پر لکھنے والوں پر اسکا نفاذ عمل میں لائیں۔ اس طرح کے ضابطۂ اخلاق کے نفاز سے ویب ساہیٹ کی خودمختاری پر بھی آنچ نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کو کسی سرکاری اتھارٹی کے زیرِنگرانی یا جوابدہ ہونے کی ضرورت ہوگی “۔

جرمنی میں مقیم ڈاکٹر عشرت معین سیما ، سعودی عرب میں مقیم حبیبہ طلعت اور یونان کے شہر ایتھنز میں مقیم معروف ادیب ، شاعر، کالم نگار چودہری بشیر شاد صاحب نے بھی ورکشاپ کے لیے اپنی نیک خواہشات اور موضوع کو وقت کی ضرورت قراردیا۔
 

image

ہماری ویب رائٹرز کلب کی یہ ورکشاپ اس اعتبار سے منفرد تھی کہ اس میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا گہرائی میں جائزہ لیا گیا۔ تمام پہلوؤں پر کھل کر بات ہوئی۔ کل مقررین کی تعداد 16 تھی ، طویل نشست ہوئی 10 بچے سے شروع ہوکر دوپہر 2 بجے اختتام ہوا اس طویل نشست میں سامعین میں موضوع سے دلچسپی قائم رہی اور وہ انہماک اور دلچسپی سے مقررین کو سنتے رہے۔ اس دوران ہماری ویب رائٹرز کلب کی جانب سے شرکاﺀ کے لیے ریفرشمنٹ کا بھی انتظام کیا گیا- سال 2017 میں ہماری ویب رائیٹرز کلب کا یہ آخری پروگرام تھا ۔
YOU MAY ALSO LIKE:

HamariWeb Writer's club held a seminar titled "Social Media the Need of Time" on 31st December 2017 at V Trust, Gulshan e Iqbal. Dignitaries from all walks of life graced the occasion. The event highlighted the significance of social media and how it influences our daily lives.