حضور غوث پاک کا سوانحی خاکہ

حضور غوث پاک کے حالات زندگی

حضرت غوث اعظمؓکا سوانحی خاکہ
تحریر:حافظ عبدالستار چشتی
متعلم:دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف
بشاراتِ ولادت
آپ کی ولادت باسعادت کی بشارت بے شمار مشائخ وقت نے دی،جن میں حضرت شیخ خلیل بلخی ؒ ،حضرت شیخ منصور مطائحی ؒ ،حضرت ابو عبداللہ مسلمیؒ ،حضرت شیخ ابو بکر حرّار ؒ،حضرت شیخ ابو بکر بن ہوار بطائحیؒ ،
سیّد الطّائفہ حضرت جنید بغدادیؒ ،حضرت شیخ عقیل ؒ اور حضرت ابو احمد عبداللہ ؒ جیسے مشائخ کبار شامل ہیں۔طفولیت ہی میں آپ کی پیشانی سے آثار تقدس و بزرگی اور علاماتِ اتّقاءو پرہیز گاری نمایاں اور انوارِ معرفت و ولایت تاباںتھے ،جو اس امر کی بھر پورشہادت دے رہے تھے کہ یہ ہلال عنقریب اُفُقِ ولایت پر بدر منیر بن کر چمکے گا ۔بقول سعدی شیرزایؒ
بالائے سر ش ز ہو شمندی می تافت ستارئہ بلندی
ولادت با سعادت
حضرت غوثِ اعظم ،پیرانِ پیر،پیر دستگیر،محبوب سبحانی،شاہبازِ لامکانی،حضرت شیخ سید عبدا لقادر جیلانی الحسنی والحُسینی قدّس سرّ ہ یکم رمضان المبارک ۰۷۴ ھ بوقت شب جلوہ فرمائے عالم امکان ہوئے۔روایات میں ہے کہ اُس رات علاقئہ گیلان میں گیارہ سو (۰۰۱۱)بچے پیدا ہوئے،جو سب کے سب وقت کے کامل ولی بنے ۔یہ آپ کی ولادت باسعادت کے فیضان کا پہلا چھینٹا تھا ،پھر گیلان سے اٹھنے والی علم و معرفت کی اس گھٹا نے چار دانگِ عالم کو اس طرح سیراب کیا کہ تا قیامت اس کے گُل بداماں گلشن ،خزاں نا آشنا رہیں گے ۔دورانِ شیرخوارگی ماہِ رمضان میں دن کے وقت کھانا پینا ترک رکھنا بھی ایک مُسلمہ روایت ہے۔
خاندانی حالات
آپ کے نانا حضرت سید عبداللہ صومعیؒ،جیلان کے مشائخ کبار اور رﺅ سا ءمیں سے ہونے کے ساتھ مُستجابُ الدّعوات مشہور تھے ۔آپ کے والد گرامی کا اسم سید ابو صالح موسیٰ اور والدئہ ماجدہ کا نامِ نامی فاطمہ ،کنیت اُمُ الخیر اور لقب اَمَةُ الجبّار تھا ۔والد گرامی کی طرف سے آپ کا نسب حضرت امام حسن ؓ مجتبیٰ اور والدئہ محترمہ کی جانب سے حضرت امام حسین ؓ سے ملتا ہے اس طرح حضور ناصرف سیّد بلکہ نجیب الطرفین سید ٹھہرے ،چونکہ بچپن ہی میں آپ کے سر سے سا ی ¿ہ پدری اُٹھ گیا تھا ،اس لیے پہلے آپ اپنے گرامی قدر نانا کے زیر کفالت و تربیت رہے اور پھر اپنی والدئہ ماجدہ ؒ کے زیر سرپرستی پروان چڑھے ،دور طفولیت کی بہت سی کرامات اوراق تاریخ کی زینت ہیں۔
ورُ ود بغداد
آپ کی والدئہ ماجدہؒ نے آپ کو کم و بیش اٹّھارہ (۸۱)سال کی عمر میں حصول علم کی خاطربغداد بھیجا۔جو اس وقت مد ینةُ العُلوم ہونے کے ساتھ اُس دور کے مشائخ کبار اور عالم اسلام کے علمائے عظام کا مرکز تھا اور جہاں شب و روز تشنگانِ علم و معرفت کا ہجوم رہتا تھا ۔یہ زمانہ خلیفہ ابوالعباس مستظہر باللہ کا تھا۔چنانچہ اسی سفر میںآپ کی حق گوئی سے ورُود ِ بغداد کے سال ہی حجّة الاسلام حضرت امام غزالیؒ نے رختِ سفر باندھا تھا ۔بغداد کی خوش نصیبی کا کیا کہنا کہ جب ایک مفکر اسلام نے اسے خیر باد کہا تو دوسری نابغئہ روزگار شخصیت نے اسے اپنے ورُود ِ مسعُود سے مشرّف فرمایا۔بغداد پہنچ کر آپ نے اس عہد کے نامور اور اکابر
علماءو مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا آپ کے اساتذئہ کرام کے اسماءگرامی درج ذیل ہیں:
۱۔حضرت ابو الوفاعلی عقیل الحنبلی ؒ
۲۔حضرت ا بوالخطاب محفوظ الکلو ذانی الحنبلی ؒ
۳۔حضرت ابو الحسن محمد بن القاضی ابو یعلیٰ محمد بن الحسین بن محمد بن الفراءالحنبلیؒ
۴۔حضرت ابو سعید المبارک بن علی المخزومی الحنبلیؒ
(اُستاد ادب)
۵۔حضرت ابو زکریّا یحییٰ بن علی التبریزیؒ
(اساتذہ حدیث)
۶۔حضرت ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی ؒ
۷۔حضرت ابو سعید محمد بن الکریم بن خشیشاؒ
۸۔حضرت ابو الغنائم محمد بن محمد بن علی بن میمون الفرسیؒ
۹۔حضرت ابو بکر احمد بن المظفرؒ
۰۱۔حضرت ابو جعفر بن احمد بن الحسین القاری سراجؒ
۱۱۔حضرت ابو القاسم علی بن احمد بن بنان الکرخیؒ
۲۱۔حضرت ابو طالب عبد القادر بن محمد بن یوسفؒ
۳۱۔حضرت عبدالرحمن ابنِ احمدؒ
۴۱۔حضرت ابو نصر محمد
۵۱۔حضرت ابو البرکات ہبة اللہ بن المبارکؒ
۶۱۔حضرت عبدالعزّ محمد بن المختارؒ
۷۱۔حضر ت ابو غالب احمدؒ
۸۱۔حضرت ابو عبداللہ یحییٰ ؒ (جو علی البنا کی اولاد سے ہیں)
۹۱۔حضرت ابوالحسن بن المبارک بن الطیورؒ
۰۲۔حضرت ابو منصور عبدالر حمن القزارؒ
۱۲۔حضرت ابو البرکات طلحة العاقولیؒ وغیرہم
آپؓ نے نو (۹)سال تک علوم ظاہری و باطنی کی تحصیل و تکمیل میں سر توڑ محنت کی۔اس کے بعد منازل سلوک طے کرنے کے لیے بہ سلسلئہ ریاضیات کاملہ و مجاہدات شاقہ پچیس (۵۲)سال کا طویل عرصہ دشت پیمائی اور صحرا نور دی میں صرف کیا اور حیات طیبہ کے آخری چالیس سال خلقِ خدا کے رشد و ہدایت اور اصلاحِ احوال میں گزارے۔
تقرر بحیثیت شیخ الجامعہ اور سلسلئہ وعظ کا آغاز
تکمیل درسیات کے بعد آپ کو جامعہ مبارک المخرمی کا شیخ الجامعہ (پرنسپل)مقرر کیا گیا ،جہاں آپؓ نے درس و تدریس اور افتاءکے ساتھ سلسلئہ وعظ و تبلیغ شروع کیا ۔روایات کے مطابق آپ جمعہ کی صبح کو اپنے جامعہ میں وعظ فرماتے ،منگل کی شام خانقاہ میں اور اتوار کے دن علماءو فقہاءکے مجمع میں وعظ ہوتا ۔جب سامعین کی تعداد میں اضافہ شروع ہوا تو جامعہ سے ملحقہ عمارات و رباط کو مدرسہ میں شامل کر کے توسیع کی گئی ،لیکن انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر ان کوزوں میں کیسے بند ہو تا ،چنانچہ سامعین کی تعداد کے غیر معمولی اضافہ نے متبادل جگہ منتقل ہونا ضروری کر دیا ،بالآخر آپ کو شہر کی آبادی سے باہر نکلنا پڑا اور ایک
وسیع و عریض میدان اس اجتماع کے لیے منتخب کیا گیا ۔اکثر مﺅرخین نے سامعین کی تعداد ستّر ہزار(۰۰۰۰۷)سے متجاوز بتائی ہے جن میں اکابر مشائخ عراق ،علمائے کرام ،مفتیانِ عظام کے علاوہ ملائکہ ،جنّات اور رجال الغیب بکثرت موجود ہوتے تھے۔دور ودراز سے آنے والے ،سواریوں پر میدان کے اردگرد فصیل کی طرح دکھائی دیتے اور آپ کے مواعظِ حسنہ تحریر کرنے کے لیے چار سو (۰۰۴)کاتب بیک وقت مجلس میں موجود ہوتے حضرت کی مجلسِ وعظ کی خصوصیات میں سے ہے کہ آنجنابؓ کی آواز دور و نزدیک یکساں پہنچتی ،گرمی کے موسم میں بادل چھائے رہتے ،کبھی دوران وعظ آندھی یا بارش سے واسطہ نہ پڑتا ،پورے مجمع پر سکون و اطمینان کی کیفیت طاری رہتی ،آپ کے بعض خلفائے کرام دورو دراز علاقوں میں مجالس کی اہتمام کرتے اور کرامت کے طور پر وہاں بھی آپ کا وعظ سنائی دیتا ۔
تاثیرِ وعظ
تاثیر کلام کا یہ عالم تھا کہ کوئی مجلس وعظ ایسی نہ ہوتی جس میں ذوق و شوق ،تصرف و ہیبت اور عظمت وجلال کے باعث کئی جنازے نہ اٹھتے اور سامعین کی کثیر تعداد کئی کئی دن تک مدہوش نہ رہتی ۔دورانِ وعظ خشیت الٰہی سے گریہ زاری اور آہ و فغاں کا ایک محشر بپا رہتا ،ہزاروں گریباں چاک ہوتے اور سینکڑوں نیم بسمل مجلس سے تڑپتے اٹھائے جاتے۔
عہد غوثیت میں معاشرہ کی حالت
حضور جس زمانہ میں جلوہ فرمائے عالم امکان ہوئے ،وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی صبر و آزما دور تھا ۔بغداد میں خلافتِ عبّاسیہ پر اموی خلافت کا پورا پورا رنگ چڑھ گیا تھا اس لیے اس کی ساکھ ختم ہو چکی تھی ۔دنیا داری کی روح اپنی پوری کدورتوں سمیت انسانی زندگی میں سرایت کئے ہوئے تھی ،الحادور زندقہ کا شور تھا ۔بیت المال ،حکمرانوں کی عیش وسامانیوں پر بے دریغ لٹا یا جا رہا تھا عیش و عشرت کی گرم بازاریاں اور اس کی خرابیاں اپنے پورے مہلک اثرات کے ساتھ موجود تھیں ،معتزلہ اور مبتدعین کے فتنے عروج پر تھے ،آپ ابھی بچپن کی منزل سے بھی نہیں گزرے تھے کہ باطنیوں کے مشہور و معروف سردار اور اتحادِ اسلامی کے سب سے بڑے دشمن حسن بن صباح نے قلعہ حضر موت پر قبضہ کر لیا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب جاہل اور خود ساختہ صوفیاءشریعت و طریقت کو الگ کرنے میں منہمک تھے ،اسلام کے سادہ و بلند اخلاقی درس ،مذاہب باطلہ کے مسموم نظریات کے انبار تلے دب کر سسکیاں لے رہے تھے اور کوئی پرسانِ حال نہیں تھا ،آپؓ نے جب ہو ش سنبھالا تو عالم اسلام کو روبہ زوال پایا ۔اندلس میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی ۔طارق ابن زیاد کے مفتوحہ علاقے ،عیسائیوں کے قبضے میں جارہے تھے ۔آپ کے ورودِ بغداد کے کچھ ہی مدت بعد صلیبی جنگ شروع ہوگئی تھی ،جس میں انطاکیہ اور حمص پر فرنگیوں نے قبضہ کر کے مسلمان آبادی کو تہِ تیغ کر ڈالا اور القدس پر قبضے کے بعد مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی۔۷۹۴ھ میں انہوں نے عکّہ پر قبضہ کر لیا اور ۳۰۵ ھ میں طرابلس بھی عیسائیوں کے زیرنگیں آگیا تھا ۔مختصر یہ کہ پانچویں صدی کے اس عہد تل عالم اسلام پوری طرح سیاسی و فکری انتشار اور اعتقادی ضُعف واضمحلال کی زد میں آچکا تھا ۔ساری امت مسلمہ پر تشکیک والحاد اور بے راہ روی کے منحوس سائے منڈلا رہے تھے ۔ایسے میں جہاں امام غزالیؒ کے افکار سے تشکیک کے فتنے کا سدّ باب ہوا وہاں تعلیمات غوثیہ نے بے یقینی اور بے عملی کے مہلک امراض کا مداوا کیا ۔آپ ؓ نے توحید کو دلوں میں راسخ کیا اور فرمایا :”کہ شرک صرف بت پرستی کا نام نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی اور غیراللہ کی طلب سب شرک میںشامل ہیں“ ۔توحید و رسالت کو قول و فعل اور علم وعمل سے عام کر کے حضرت غوث اعظم ؓ نے تصوف کی تطہیر و تربیت پر توجہ فرمائی ۔آپ کی ولادت سے قبل عالم اسلام میں باطنی تحریک میں منصور حلاج کی صدائے انالحق سے تصوف ،شریعت ست جداگانہ اسرار و رموز کا ملغوبہ بن گیا تھا ،جس میں نوفلاطونی خیالات اور فلسفیانہ موشگافیوں نے جڑ پکڑ لی تھی ۔آپ ؓ نے تصوف کو شریعت کے تابع کیا اور اس کے آداب کو عام فہم زبان میں بیان کر کے اس کے دروازے عام آدمی پر کھول دیے ۔آپ اجتماع امت کے داعی تھے اور دین کی ترویج و توسیع اور فلاح واصلاح میں
بلا ا متیاز خاص و عام ہر مسلمان کی شرکت لازمی تصور کرتے تھے ۔اس طرح غوثِ پاک نے اصلاح و تجدید اور احیائے دین کا وہ عظیم اور لازوال کار نامہ سرانجام دیا کہ محی الدین کے زندئہ جاوید لقب سے سرفراز ہوئے۔حضور کے عہدِ سعید میں وہ وقت بھی آیا کہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کو بالادستی حاصل ہونا شروع ہوگئی اور نورُالدین زنگیؒ نے فرنگیوں کو شکستِ فاش دی ۔اہل ایمان کے حوصلے بڑھے اور القدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا ۔دینِ حق کا بول بالا اور چاروں طرف اجالا ہوا ۔
حکام وقت کے ساتھ سلوک
آپؓ نے اپنے مواعظ میں اس ساری صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا او رمعاشرہ کے ہر طبقہ میں موجود خرابیوں کی نشان دہی فرماتے ہوئے امت مسلمہ کے ناقئہ بے زمام کو پھر سوئے حرم لانا شروع کیا۔اعلائے کلمة الحق میں آپ کی ذات جلیلہ کی مصلحت کوشی کی روادار نہیں تھی ،اُمراءو حُکامِ وقت کے لیے امر بالمعروف کے سلسلے میں حضرت شیخ کے ہاں کسی رعایت کی گنجائش نہیں تھی ۔مشہور خلیفہ المقتفی
لا مراللہ نے ابوالوفایحییٰ بن سعید بن یحییٰ بن المظفر کو منصب قضا تفویض کیا ،حالانکہ یہ شخص ابن المزاحم ا لظالم کے لقب سے مشہور تھا اس موقع پر حضورؓ نے خلیفہ وقت کے اس تقرّر کی بر سرِ منبر مذّمت کی اور دورانِ وعظ اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔”تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حاکم بنا دیا ہے ،جو اظلم الظالمین ہے “۔کل قیامت کے دن اُس ربُ العالمین کو کیا جواب دو گے جو ارحم الراحمین ہے “۔خلیفہ تک یہ بات پہنچی تو کانپ اٹھا اور قاضئی مذکور کو فی الفور معزُول کر دیا ۔
خلیفہ وقت کے نام خط
حضور اگر خلیفہ وقت کو مکتوب ارسال فرماتے تو سیاق عبارت اس طرح ہوتا ،یہ مکتوب عبدالقادر کی جانب سے ہے ،جو تم کو فلاں فلاں باتوں کا حکم دیتا ہے ،اس کا حکم تم پر نافذ اور اس کی اطاعت تم پر لازم ہے اس لیے کہ وہ مقتداہے اور تم پر اس کی حجت قائم ہے۔جب یہ مکتوب خلیفہ کو پہنچتا تو وہ اس کو چومتا ،آنکھوں سے لگاتا اور کہتا کہ بے شک حضرت نے درست فرمایا ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ غلغلہ چالیس برس کی فضاﺅں میں جس عُلوِّ مرتبت ،تمکنت و وقار ،اعتماد وعزم اور زور و دبدبہ کے ساتھ گونجتا رہا ،اس کی مثال پوری تاریخ اسلامی میں موجود نہیں ۔آپ کے دستِ حق پر ہزاروں یہودو نصارٰی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ،جب کہ دریائے معصیت میں غرق لاکھوں مسلمان تائب ہو کر رحمتِ حق کے مستحق ٹھہرے ۔حضور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رب العزت سے اس بات کی ضمانت لے لی ہے کہ تا قیامت میرے سلسلہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بغیر توبہ کے نہیں مرے گا ۔آپ کا ارشاد ہے :یَدِی ± عَلٰی مُرِی ±دِی ± کالسَّمَائِ علَی ال ±اَر ±ضِ“۔یعنی میرا ہاتھ مریدوں پر اس طرح ہے جیسے آسمان زمین پر حاوی ہے ۔
حلیہ مبارک اور سیرتِ پاک
آپ نحیف البدن،میانہ قد ،کشادہ سینہ ،گنجان ریش،گندمی رنگ،پیوستہ ابرو ،بلند آواز،پاک سیرت،نورانی صورت کے مالک ہونے کے ساتھ عالی مرتبہ ،علم و عمل میں کامل ،صاحبِ عزت وشہرت اور خاموش طبع انسان تھے ۔دمِ گفتار آپ کے کلام کی تیزی بیان کی سحر انگیزی ،سیلِ خطابت کے بہاﺅ ،جچے تلے جملوں میں لفظ و معنیٰ کے رچاﺅ اور صوتی دبدبہ سے سامع کے دل پر آپ کے رعب و جلال کی دھاک بیٹھ جاتی تھی ۔بڑے سے بڑے سخت دل پر نگاہِ جمال پڑتی تو وہ خضوع و خشوع اور عاجزی و انکساری کا مرقع بن جاتا ،جامع مسجد میں تشریف لاتے تو تمام مخلوق ہاتھ اٹھا کر درگاہِ قاضی الحاجات میں دعا کرتی۔آپ کی ذات اقدس اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا مجموعہ تھی علوم و معارف کے اس بحرِ نا پید اکنار کی خاموشیوں پر کائنات مُہر بہ لب ہو جاتی اور اس کے تموج پر موجودات کا دل لرزاں ۔آپؓ حد درجہ رفیق القلب ،منکسرالمزاج ،کریم النفس اور فیاض تھے ۔غرباء،طلباءاور مساکین پر اس قدر شفقت فرماتے کہ ہر نیاز مند یہی سمجھتا کہ حضور اس سے زیادہ کسی اور پر مہربان نہیں ۔غرباءکے ساتھ انتہائی تواضع سے پیش آتے ،ان کی گزارشات سے پوری توجہ سے سماعت فرماتے اور دلجوئی کرتے ،مصائب و شدائد پر خوش دلی سے صابر رہنا آپ کا شیوہ تھا ۔عظمت و جلال کے اس کوہ گراں کو شرم و حیا پر معصومان جہاں کی حیا کیشیاں قربان ،ایک طرف تو عجز و انکسار کا یہ عالم کہ اپنے خانگی امور کی انجام خود فرماتے تھے اور دوسری طرف رعب و دبدبہ کی یہ شان کہ امراءو خلفاءلرزلرز جاتے۔
لباس مبارک
حضور کے لباس کے لیے دور و درازممالک سے نفیس کپڑا تیا ر ہو کر آتا ، جس سے آپ علماءکا لباس بنوا کر زیب تن فرماتے اور روزانہ بدلتے ،پہلا لباس فقراءو مساکین میں خیرات کر دیتے ،روزانہ لباس تبدیل فرمانے کی حکمت غرباءپروری تھی تبدیلی تو محض ایک بہانہ تھا! ،عفونت سے طبع پاکیزہ کو سخت نفرت تھی عبادت کے وقت خوشبو استعمال فرماتے۔
کرامات غوثیہ
حضرت غوث پاک کی کثرت کرامات پر تمام مﺅرخین کا اتفاق پے حتیٰ کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبدالسلام جیسے متشدد حضرات بھی اس حقیقت کے معترف ہیں کہ حضور کی کرامات حد تو اتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔مشہور تذکرہ نگار مفتی غلام سرور لاہوری نے اس روایت کو اس طرح بیان کیا ہے ۔”باید دانست کہ خوراقِ عادات و کرامات کہ ازآں سیدِ کائنات بہ وقوع آمدہ اند ،از ہیچ کدام ولی اللہ سر زدنہ گشتہ کہ در بہجة الاسرار و تحفئہ قادریہ ،انیس القادریہ و مناقبِ غوثیہ وغیرہ و مشرح مذکور اند“۔ترجمہ:جاننا چاہیے کہ ولی کائنات،حضور غوث پاک سے جس قدر کرامات ظاہر ہوئیں ،وہ کسی دوسرے ولی اللہ سے صادر نہیں ہوئیں ،چنانچہ ان کی تفصیل بہجة الاسرار ،تحفئہ قادریہ ،انیس القادریہ اور مناقبِ غوثیہ میں موجود ہیں۔یہ امر واقع ہے کہ حضرت غوث پاک کی کرامات کی تفصیلات سے تذکرے بھرے پڑے ہیں مگر بقول ،مولانا سید انو الحسن ندویؒ ان میں سب سے بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا ہوئی ،آپ کا وجود اسلام کے لیے ایک باد بہاری تھا ، جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی اورعالم اسلام میں ایمان و روحانیت کی ایک نئی لہر پید اکر دی ۔چنانچہ دفعِ امراض عامہ ،مفلوج ومجذوم، اور مادر زاد نابینا کی صحت ،کھجور کے خشک درختوں کا سر سبز و مثمر ہوجانا ،طغیانی اور بارش کا تھم جانا ،بے موسمی ثمرات کی موجودگی ،مغیبات پر اطلاع ،حالات مخفیہ کا اظہار ،سلبِ علم،زرِنقد کا خون ہو جانا ،طی الارض ،عذاب قبر سے نجات ،چور کا ولی ہو جانا ،خبرِ موت،دور دراز فاصلوں سے مدد کرنا ،مخلوق کے ظاہر و باطن میں تصرف،جنات پر حکمرانی ،عالم ملکوت کے بواطن کی خبر ،عالم جبروت کے حقائق کا کشف ،عالم لاہوت کے سر بستہ رازوں کا علم ، لوگوں کے نظریات کا بدلنا وغیرہ جیسی بے شمار اور مستند کرامات سے تذکرے بھرے پڑے ہیں ۔
اعلانِ قَدَمِی ± ھٰذہ عَلٰی رَقَبَةِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ
حضور غوث پاک کی کرامات جلیلہ کی فہرست میں یہ اعلان ایک عظیم الشان معرکہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔مستند روایا ت میں ہے کہ جس مجلس وعظ میں آپؓ نے یہ اعلان فرمایا ،اس میں عراق کے قریباً مقتدر مشائخ اور علماءموجود تھے ،جنہوں نے اس اعلان پر اپنی گردنیںخم کیں ،اور جب آواز اکناف عالم میں پھیل گئی تو کائنات میں موجود تمام اولیاءاللہ نے اپنی اپنی گردنیں جھکا دیں بعض تذکروں میں تو عرب و عجم کے ایسے مشائخ کی فہرست بھی موجود ہے ۔ایک روایت کے مطابق حرمین شریفین ،اعراق ،شام، یمن،حبشہ ،کوہِ قاف،اور دنیا کے دیگر مختلف مقامات پر حضور غوثیت مآب کے اس ارشاد گرامی پر ۳۱۳ عظیم المرتبہ اور
جلیل القدر مشائخ نے اپنی گردیں جھکائیں اور تما م اولیائے کرام ،ابدال اور رجال الغیب نے تہنیت پیش کی ۔اس لیے کہ آپ کایہ ارشاد بہ امر الٰہی تھا اور متعدد مشائخ کبار اس اعلان کی پیش گوئی فرما چکے تھے۔
تالیفات و تصنیفات
تعجب ہوتا ہے کہ درس و تدریس ،وعظ و تبلیغ ،افتاء،خانقاہی تربیت اور اصلاح و تجدید کی اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ حضرت تصنیف و تالیف کی صبر آزما مشقتوں سے بھی گزرے ،چنانچہ احیاءدین کی گراں قدر مساعی کت ضمن میں بیش قیمت اور وقیع تالیفات یادگار چھوڑیں ۔تذکروں میں مندرجہ ذیل تالیفات کے حوالے ملتے ہیں دائرئہ معارف نے ان کی تفصیل اس طرح دی ہے ۔
۱۔غنیةُ الطّا لبین
۲۔الفتح الرّبّانی والفیض الرّحمانی
۳۔الفیُوضاتُ الرّبّانیّہ فی الاورادِ القادریّہ
۴۔فتوحُ الغیب
۵۔بشائر الخیرات
۶۔تحفةُ المتّقین و سبیلُ العارفین
۷۔حزبُ الرّجا ءوالانتھائ
۸۔الرّسالة الغوثیہ
۹۔الکبریتُ الاحمر فی الصّلٰوة علی النّبی صلّی اللی علیہ وسلّم
۰۱۔مراتبُ الوجود
۱۱۔یواقیتُ الحِکم
۲۱۔معراجُ لطیف المعانی
۳۱۔جِلائُ الخاطر فی الباطن والظّاھر
۴۱۔سرُّ الاسرار و مظھر الانوار فیما یحتاج الیہ الابرار
۵۱۔آدابُ السّلوک و التّواصّل الیٰ منازل ملکِ الملوک
وصال پرملال
آسمان فقر و ولایت کا یہ مہرِ درخشاں اور علوم و معارف کا یہ نیّر تاباں ،اکانویں (۱۹)برس کی طویل مدت تک اپنی خیرہ کن ضیا پاشیوں ،بے حد و بے حساب فیض رسانیوں اور حیرت انگیز جلوہ سامونیوں کے بعد ربیع الثّانی ۱۶۵ھ شبِ شنبہ بعد ا ز نمازعشاءآب و گل کے صُوَری اُفق میں غروب ہو کر سابقہ تجلیانی شان اور تصرفانی آن کے ساتھ عالم ابد کے معنوی مطلع پر ضیا بار ہوا۔
زسازِ عافیت خاک می رسد آواز
کہ ساکنانِ ادب گاہِ نیستی ،ہستند

عبدالستار
About the Author: عبدالستار Read More Articles by عبدالستار: 2 Articles with 1881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.