تربیت اولاد سے متعلق اہم نکات

از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی (بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)

ماں سے بچہ سیکھتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ بچہ سن کر عمل کرنے سے زیادہ دیکھ کر کے نقل کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ وہ ماں باپ کے کردار کو سیکھتا ہے۔ اس لیے ماں باپ کو اپنے کردار کو اتنا پاکیزہ رکھنا چاہیے کہ بچے اس پاکیزہ ماحول میں پرورش پائیں۔بہت سارے لوگ آکے ہمیں کہتے ہیں کہ جناب اس کے لیے دعا کیجیے کہ یہ نماز نہیں پڑھتا۔تو مَیں پوچھتا ہوں کہ جناب آپ نماز پڑھتے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ مَیں تو نہیں پڑھتا مگر یہ تو پڑھیں۔ تو مَیں کہتا ہوں کہ پھر یہ کیوں پڑھیں……!

اگرچہ یہ ہر شخص کی آرزو ہے کہ میری اولاد نیک ہو۔ ایک چور بھی یہ آرزو رکھتا ہے کہ میری اولاد اﷲ کی ولی بنے؛ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جو ضابطہ ہے عمومی طور پہ وہ یہی ہے کہ جس طرح کے ماں باپ ہوتے ہیں اس طرح کی اولاد ہوتی ہیں۔ الولد سر لابیہ! جو اولاد ہوتی ہے وہ والدین کا راز ہوتی ہے۔ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے کہ نیکو کاروں کی اولاد بھی بُری ہوجاتی ہے۔ اور بُروں کی اولاد بعض اوقات اچھی ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ قاعدہ نہیں ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ اچھوں کی اولاد اچھی ہوتی ہے۔ اچھی تربیت کے ماحول میں پلنے والے بچے صالح ہوتے ہیں۔ اور بُرے ماحول میں پرورش پانے والے بچے بُرے ہوتے ہیں۔

اس لیے اپنے گھر کا ماحول آپ اچھا بنائیں۔ فرمایا گیا کہ گھروں کو قبرستان نہ بناؤ! کیوں کہ جب گھروں میں نماز پڑھو گے تو بچے تمہاری نقالی کریں گے ۔ امام غزالی کا بھی قول آپ کے سامنے ہے؛ کہ ہر عمل پہلے ریا ہوتا ہے؛ پھر عادت بنتا ہے اور پھر عبادت بنتا ہے۔ امام غزالی کے قول کے مطابق ابتداءً ریا ہے۔ وہ سجدے میں بھی ایک آنکھ سے دیکھیں گے کہ ماں باپ دیکھ رہے ہیں؟ اور اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ عادت بن جائے گی اور پھر آہستہ آہستہ وہ عبادت بن جائے گی۔ اور یہ بات ذہن میں رہے کہ بچے بچپن میں نیک عمل کرتے ہیں؛ بلوغت کے بعد احکامِ شرعیہ کا نفاذ ہوتا ہے؛ لیکن جو بچے بچپن میں صالح و نیک عمل کرتے ہیں ان کا ثواب ماں باپ کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے…… دوسری بات کہ اس عمر کی پختگی ساری زندگی ساتھ دیتی ہے۔ سات سال کی عمر میں ہی بچوں کو نماز کی تلقین کی گئی؛ اور دس سال کی عمر میں اگر وہ نماز نہ پڑھیں تو ان پر سختی کرنے کا کہا گیا ہے۔

ماں باپ اولاد کی صالح تربیت کے حوالے سے بنیادی نکتہ یہ سمجھیں کہ ان کو اگر رزقِ حلال کھِلائیں گے تو پھر ان کی طبع میں ، خون میں صالحیت پیدا ہوگا۔ جب اولاد کو حرام کھِلایا جائے گا تو اس کے اثراتِ بد ظاہر ہوں گے۔ اور آپ کی محنت کوششوں کے باوجود بھی وہ سدھر نہیں پائیں گے؛ اس لیے کہ آپ نے انہیں لقمۂ حلال نہیں کھلایا۔ تو اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھِلائیں۔ بلکہ انہیں مشکوک رزق سے بھی بچائیں۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جو ناقص غذا ہے وہ ان کا میدہ(پیٹ) خراب کردیتی ہے؛ اسی طرح جو حرام غذا ہے وہ ان کے باطن کو خراب کردیتی ہے۔ اس لیے پاکیزہ اور صالح غذا کا ان کے لیے اہتمام کیا جائے۔

اپنے اولاد کی اچھی کفالت کرو۔جو وسعت ہے اس کے مطابق اپنی اولاد کے اوپر کشادگی جائے۔ میرے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا جولقمہ لاکے تم اپنے اہلِ خانہ کے منہ میں رکھتے ہو وہ بھی صدقہ لکھا جاتا ہے۔ تو اپنی اولاد کے اوپر کشادگی کے ساتھ خرچ کرنا چاہیے۔اور انہیں کشادگی بھی دینی چاہیے؛ لیکن انہیں قناعت و توکل بھی سکھانا چاہیے۔ حضور نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے اب اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں ، اس کے ماں باپ اس کو عیسائی بناتے ہیں، اس کے ماں باپ اس کو مجوسی بناتے ہیں ۔ تو گھر کا ماحول بچے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ وہ فطرتاً مسلمان پیدا ہوا ہے۔ اس کی طبع کے اندر اسلام رکھا گیا تھا۔ تو ماں باپ کی تربیت اسے جس سانچے میں ڈھالنا چاہے؛ ڈھال دے۔ مجوسی بنانا چاہے تو مجوسی بنادے گی۔ اگر وہ بت پرست ہوں گے تو بیٹا بھی بتوں کو پوجنے لگ جائے گا؛ ان کی تعظیم بجا لائے گا۔اور اگر وہ اسلامی طریقے کے مطابق اس کی تربیت کریں گے اور وہ مسلمان ہوں گے تو بچہ ایک صالح مسلمان کی صورت میں معاشرے کا ایک صالح فرد بنے گا۔

اپنی اولاد کو دین سکھاؤ۔ اپنی اولاد کو نماز کا خوگر اور عادی بناؤ۔ ان کو کھینچ کھینچ کے نمازکی طرف لے جاؤ کہ یہ عادی بن جائیں نماز کے۔ تاکہ بعد از انتقال دعاؤں کے سلسلے جاری رہیں۔
(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب) 24-12-2017
٭٭

Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 121418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.