اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس……رسوائی کے باوجود امریکا کی ہٹ دھرمی برقرار

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ جمعرات کے روز جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں یمن اور ترکی نے مشترکہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد پیش کی، جبکہ پاکستان نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ قرارداد کے حق میں 128ووٹ ڈالے گئے، جبکہ امریکا اور اسرائیل سمیت صرف 9 ممالک نے اس کی مخالفت کی، جن میں امریکا اور اسرا ئیل کے علاوہ غیر معروف ممالک شامل ہیں، ان ممالک میں ٹوگو، پلاؤ، مارشل آئی لینڈ، میکرونیشیا، ہنڈراس، سولومن آئی لینڈ، ویناٹو اور گوئٹے مالا شامل ہیں، جبکہ ووٹنگ میں 35 ممالک غیر حاضر رہے جن میں کینیڈا، کروشیا، چیک ریپبلک، ڈومینیکین ریپبلک، استوائی گنی، فجی، ہیٹی، ہنگری، جمیکا، کیریباتی، لیتویا، لیسوتھو، میکسیکو، پاناما، پیراگوئے، فلپائن، پولینڈ، رومانیہ، رونڈا، سولومن آئی لینڈ، جنوبی سوڈان، ٹرینڈاڈ وٹوباگو، توویولو، یوگینڈا، وانواتو شامل ہیں۔ امریکا کے صف اول کے اتحادیوں برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور بھارت کے علاوہ مصر، اردن ، عراق اور سعودی عرب نے قرارداد کی حمایت کی۔ اس ووٹنگ سے امریکا کی سفارتی تنہائی مزید واضح ہوگئی ہے۔ ووٹنگ سے ایک روز پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے پوری عالمی برادری کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسیلم کرنے کے خلاف قرارداد کی حمایت نہ کی جائے۔ جو ممالک امریکا کے خلاف ووٹ دیں گے ان کی امداد بند کردیں گے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکی مستقل مندوب نِکی ہیلی نے بھی مختلف سفیروں کو خطوط لکھے تھے، جن میں اس دھمکی کا اعادہ کیا گیا۔ امریکی فیصلے کے خلاف پہلے یہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی۔ 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن امریکا نے یہ قرارداد ویٹو کردی، اس کے بعد سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ معاملے کو جنرل اسمبلی میں لے جایا جاتا۔ یہاں بھی امریکا کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ امریکا کسی ملک کو امداد نہ دینا چاہیے تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کا اصولی فیصلہ امریکا پیسے یا دھمکیوں سے نہیں بدل سکتا ہے۔ پاکستان نہ پیسے کا بھوکا ہے نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے جنرل اسمبلی میں پاکستانی حکومت اور قوم کے موقف کی عکاسی کی ہے، پاکستان اصول پر نہ بکتا ہے نہ ڈرتا ہے اور یہی ہماری پالیسی رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے امریکا کے خلاف اصولی موقف اپنایا ہے۔ غیر معروف ممالک نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جبکہ کسی مسلم ملک نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ جنرل اسمبلی سے امریکا کو واضح پیغام گیا۔ امریکا اپنا فیصلہ واپس لے۔ ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی، جب کہ مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق کوئی بھی غیر قانونی اقدام ناقابل قبول ہوگا۔ فلسطین اور القدس کا تحفظ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی اصول ہے جب کہ مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق 1967 میں قرارداد بھی پاکستان ہی کی قیادت میں پیش کی گئی تھی۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے اس قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں امریکا سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ نبیل ابو ردینہ نے اسے فلسطین کی جیت قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد ہر سطح پر جاری رکھیں گے۔ ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جنرل اسمبلی کا فیصلہ امریکی صدر کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ فیصلے سے فلسطین کو ایک بار پھر عالمی برادری کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ بلا تاخیر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لے گی۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نے امریکی صدر کی دھمکی کو مسترد کردیا۔ برطانیہ نے بھی ٹرمپ کا متنازعہ فیصلہ مسترد کرنے کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کے حق ہی میں ووٹ دیا، جو امریکا کا قریبی اتحادی ہے۔ اردن کی جانب سے بھی قرارداد منظور ہونے کا خیرمقدم کیا گیا، جبکہ غزہ اور اردن میں اسرائیل اور امریکا کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔ فلسطین کی جانب سے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا گیا، جبکہ غزہ میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ تنظیم آزادی فلسطین کی جانب سے کہا گیا کہ 128 ممالک نے امریکا اور اسرائیل کو بتا دیا کہ وہ جو کررہے ہیں وہ غلط اور ناقابل قبول ہے۔ امریکا سے بیت المقدس سے متعلق فیصلہ واپس لینے کی قرار داد منظور ہونے پر اردن میں جشن منایا گیا، عمان میں امریکی سفارتخانے کے باہر شہری جمع ہوئے اور ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا امریکی اقدام کی مخالفت کررہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے خطاب کرتے ہوئے قرارداد کو امریکی خودمختاری کے خلاف قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرارداد پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مقبوضہ بیت المقدس میں سفارتخانہ ضرور بنائیں گے اور ان ممالک کو یاد رکھیں گے جنہوں نے ہمیں بے عزت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اقوام متحدہ کو امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے اور ہم سے مزید رقم کا مطالبہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ہماری بے عزتی کی جاسکے۔ ہیلی نے کہا کہ اگر ہمارا سرمایہ ضائع ہورہا ہے تو ہم اسے دوسری صورت میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ امریکی امداد کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے یہ کوئی خیرات ہے۔ سپر طاقت ہوتے ہوئے عالمی سیاست میں امریکا کا جو مقام ہے اس کو پیشِ نظر رکھ کر اسے بعض اقدامات کرنے پڑتے ہیں جن میں امداد بھی شامل ہے۔ اسرائیل دنیا میں سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے۔ وہ بھی ساری امریکی پالیسیوں کو قبول نہیں کرتا۔امریکی امداد کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ امریکی حکومت عالمی برادری کے جذبات اور رائے کو قطعاً نظر انداز کرکے جو چاہے کرتی رہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھی یہی کہا ہے کہ امریکا کسی ملک کو مفت میں امداد نہیں دیتا بلکہ اس کے ذریعہ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس ہمیشہ سے فلسطین کا حصہ ہے، اسرائیل نے بزورِ قوت اس پر قبضہ کررکھا ہے۔ دنیا کے تمام مسلمان ممالک بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں، اس کے باوجود اگر امریکا نے اس جانب سے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور امریکی امداد کے دباؤ میں دوسرے ملکوں کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں تو یہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔ صدر ٹرمپ القدس کے حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے ان سے پہلے کسی امریکی صدر نے ایسا فیصلہ نہیں کیا۔ اسے انتہائی احمقانہ فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کو جنرل اسمبلی میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا اگر اب بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے پاگل پن ہی کہا جاسکتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں امریکا کے رسوا ہونے سے پہلے بھی امریکی صدر کے فیصلے کو پوری دنیا مسترد کرچکی تھی، جبکہ جن 86ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور جن کے سفارت خانے اس وقت تل ابیب میں ہیں، ان میں سے کسی ملک نے بھی امریکا کی پیروی نہیں کی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام قابلِ تقلید بھی نہیں ہے اور عالمی امن کے لیے اس کے اثرات منفی مرتب ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو امریکا کی جانب سے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد کے نتائج غیر متوقع اور حیران کن نہیں، کیونکہ امریکا پہلے بھی اس معاملے پر تنہائی کا شکار ہے۔ سیکورٹی کونسل میں امریکی تنہائی پہلے ہی واضح ہو گئی تھی کہ جو اقوام متحدہ کا ایک بہت منتخب ادارہ ہے، اس میں امریکا کے خلاف ایک طرح سے متفقہ قرارداد منظور ہوچکی تھی۔ جنرل اسمبلی جمہوری لحاظ سے دنیا کی نمائندگی کرتی ہے۔ عملی طور پر قرار داد کا ردعمل یہ ہوسکتاہے کہ ٹرمپ چھوٹے ممالک کو دبانے کی کوشش کرے، امداد کم کردے، مگر اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ ممالک نے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر ووٹ دیا۔ اتنی بڑی تعداد میں ممالک کا امریکا کے خلاف فیصلہ صادر کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور انہوں نے ان دھمکیوں کے باوجود بڑی جرات دکھائی ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے خلاف سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں پاس ہونے والی قراردادوں نے امریکا کے اس اعلان اور اقدام کو مسترد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ امریکا کا یہ فیصلہ عالمی امن کے لیے خطرہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مذاق اڑانے اور مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل اور امن کی آخری امید کو بھی ختم کرنے کے مترادف ہے۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادیں امریکا کے لیے نوشتہ دیوار ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ امریکا بیت المقدس کے حوالہ سے اپنے کیے جانے والے فیصلے سے پیچھے ہٹتا ہے یا ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس یکطرفہ فیصلہ کو اقوام عالم پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔دنیا کی جانب سے واضح اور کھلی مخالفت کے باوجود اگر امریکا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہتا ہے اور اپنی اسرائیل نواز پالیسیوں کے لیے اقوام متحدہ کے دیگر ممالک کو دھمکاتا رہا ہے تو پوری دنیا میں اس کا بحیثیت عالمی طاقت کے عالمی امن کے لیے کردار محدود ہو جائے گا اور اس کے اس طرزعمل کی وجہ سے دنیا بھر میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون فروغ پائے گا اور اس طرح کے یکطرفہ اور اسرائیل نواز فیصلوں سے خود امریکا کا دنیا بھر میں جمہوری قوتوں کے حامی اور شخصی اور بنیادی انسانی آزادیوں کے چیمپئن کا کردار مجروح ہو جائے گا۔ امریکا کے اس فیصلے اور طرزعمل نے براہ راست عالم اسلام کے لیے بھی بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے اور تمام مسلم ممالک کو ثابت کرنا پڑے گا، انہیں اس اہم ترین سنگین موڑ پر قبلہ اول آزاد کرانے کے لیے ہر صورت اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا اور اس اہم اور حساس ایشو پر اگر مسلم ممالک نے اپنا دوہرا اور منافقانہ کردار جاری رکھا تو ان کا یہ عمل ان کی حکومتوں کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ اب بھی مسلم قیادتوں نے عملاً کوئی قدم نہ اٹھایا تو مسلم معاشروں میں بے چینی بڑھے گی۔ اسلامی دنیا کا چیلنج اب شروع ہواہے۔ او آئی سی میں شامل57اسلامی ممالک کے لیے چیلنج ہے کہ وہ کس طرح بڑے مسائل پر عملی اقدامات کرتے ہیں، اس حوالے سے ایک متفقہ موقف اور پالیسیاں اپناتے ہیں۔ ہمیں سیاسی، معاشی اور فوجی بنیادوں پر متحد ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اختلافات سے اوپر ہو کر متحد ہونا ہوگا۔

جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے روزنامہ اسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کے معاملے میں امریکا پہلے بھی تنہا تھا اور اب مزید تنہا ہوگیا ہے۔ امریکا کو جلد از جلد اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے۔ اگر امریکا اب بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتا تو اس سے نفرت بڑھے گی اور امریکا کا وقار بھی دنیا میں مجروح ہوگا، اس لیے امریکی اداروں کو ٹرمپ کا مواخذہ کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی سے جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ٹرمپ امریکا کو بدنام کر رہا ہے اور اس کے خلاف دنیا میں نفرت کا سبب بن رہا ہے۔ امریکی فیصلے کے مقابلے میں ترکی کی طرف سے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کا اقدام بہت اچھا تھا، یہ سلسلہ یہیں نہیں رکنا چاہیے۔ مزید کانفرنسز کرنی چاہیے۔ تمام مسلم ممالک کو اس حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سینیٹر حافظ حمداﷲ نے روزنامہ اسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی میں امریکا مزید تنہا ہوگیا ہے۔ القدس اسرائیل کا دالحکومت نہیں بن سکتا، کیونکہ یہ فلسطین کا ہے اور اس کا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع چلا آرہا ہے۔ جنرل اسمبلی میں امریکا رسوا ہواہے، یہ امریکا کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ پوری دنیا نے فلسطین کے حوالے سے امریکا کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔ امریکا کے اتحادیوں نے بھی امریکی فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ امریکا کا ایجنڈہ صرف مسلم ممالک میں خونریزی پھیلانا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ جنگ ہو اور امریکا کا اسلحہ زیادہ فروخت ہو۔ امریکا کو اندازہ ہے کہ اگر القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنادیا جاتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ ہوگی اور امریکا کا اسلحہ فروخت ہوگا۔اسرائیل نوازی میں بہت دور تک جاچکا ہے، گریٹر اسرائیل کے راستے میں جو جو مسلم ملک رکاوٹ تھا اسے راستے سے ہٹادیا گیا۔ عراق، شام، مصر، لیبیا کو کمزور کردیا گیا۔ مصر کے صدر مرسی امید کی ایک کرن تھے، انہیں بھی سازش کے تحت راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ اب مسلم ممالک کو متحد ہوکر آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اسلامی دنیا کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ امریکا اگر ہٹ دھرمی دکھاتا ہے تو پوردی اسلامی دنیا کو امریکا کا سفارتی سطح پر بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ امریکا پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔ تمام مسلم ممالک کو متحد ہوجانا چاہیے۔ مسلم ممالک کو مل بیٹھ کر مستقبل کا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ اب کیا کرنا ہے۔ او آئی سی کا اجلاس دوباہ بلانا چاہیے۔ ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے امریکی فیصلے کے خلاف قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.