بی بی سی انوویٹرز: صرف ایک ڈالر میں آواز کی نعمت

انڈیا میں ڈاکٹر وشال راؤ حلق کے کینسر کے مریضوں کی زندگیاں بدل رہے ہیں۔

انڈیا میں ہر سال تقریباً 30 ہزار افراد حلق کے کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔ جن کا مرض بڑھ چکا ہوتا ہے ان کا علاج صرف یہ ہے کہ ڈاکٹر ان کا بولنے کا نظام نکال دیں اور مریض کو بےآواز چھوڑ دیں۔

آواز کے مصنوعی باکس پر عموماً ایک ہزار ڈالر خرچ آتا ہے اور اکثر مریض یہ خرچ اٹھا نہیں سکتے۔
 

image


بنگلور کے ہیلتھ کیئر گلوبل سے وابستہ ڈاکٹر راؤ بتاتے ہیں 'ہمارا صحت عامہ کا بڑا حصہ نجی شعبے سے جڑا ہے اور اخراجات کے اعتبار سے پہنچ سے باہر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ درحقیقت ان مریضوں کو پھر سے بولنے کے قابل بنانے میں مدد دینے کی شدید ضرورت ہے۔ کیوں کہ بولنا رعایت نہیں ایک حق ہے۔'

بے مصرف محسوس کرنا
کینسر کی وجہ سے سوامی نرائن کا وائس باکس نکال دیا گیا، وہ بولنے کے قابل نہیں رہے اور اس کا ان کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔

وہ بتاتے ہیں 'میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس کا یونین لیڈر تھا، میں دوسرے مزدوروں کی مدد کرتا تھا لیکن آواز کے بغیر میں ان کے لیے بےمصرف تھا۔'

'میری آواز کا جانا میرے لیے زندگی کا جانا تھا، میں نے خود کو مارنے تک کی کوشش کی۔ میں وہ سب کام نہیں کر سکتا تھا جو مجھے اچھے لگتے تھے۔'

سوامی جیسے مریضوں سے صلاح مشورے کے بعد ڈاکٹر راؤ اس سوچ میں پڑ گئے کہ وہ ایسے مریضوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔

پھر ان کے ایک دوست نے انھیں کہا کہ وہ ایک وائس باکس کیوں نہیں بناتے جو سب کی پہنچ میں ہو۔ شاید انھیں ایسے ہی دھکے کا انتظار تھا، انھوں نے ایک انڈسٹریل انجینئر دوست شاشانک ماہس کو ساتھ ملا کر پہلے تحقیق اور تحقیق کو عملی شکل دینے کا کام شروع کر دیا۔
 

image


دو سال بعد نتیجہ اے یو ایم وائس باکس کی شکل میں سامنے آیا۔ جس کی لاگت ایک ڈالر تھی۔ تقریباً ایک سینٹی میٹر کا یہ آلہ اس مریض کے حلق میں لگایا جاتا تھا جس کا وائس باکس نکال دیا گیا ہو۔

اس آلے نے نلینی ستیانرائن جیسے مریضوں کو ایک نئی زندگی دی۔

وہ اب بات چیت کرتی ہیں اور اپنا وقت حلق کا آپریشن کرانے والے دوسرے مریضوں کی مدد اور دلجوئی میں صرف کرتی ہیں۔

وہ ان سے کہتی ہیں 'تو میں نے پلٹ کر جواب دیا ہے، میں کینسر کے بعد کی زندگی کی ایک جیتی جاگتی اور ہنستی بولتی مثال ہوں۔'
 

image


ڈاکٹر راؤ وضاحت کرتے ہیں 'حلق کینسر کے مریضوں، خاص طور سے جو سٹیج 4 میں ہوتے ہیں، کے پاس وائس باکس نکلوانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ تب تک ان کا وائس باکس بالکل تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔'

'اب ایسے مریض اُسی صورت میں پھر سے بات کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں اگر ہوا کی نالی کو خوراک کی نالی سے جوڑ دیا جائے اور پھیپھڑوں سے ہوا کی فراہمی خوراک کی نالی کو تھرتھرانے کے قابل کرے۔ یہیں ضرورت ہوتی ہے کہ دماغ خوراک کی نالی کو پھر سے تھرتھرانے کی تربیت دے تاکہ مریض کو بولنے میں مدد ملے۔'

اے یو ایم وائس باکس اتنی کم قیمت پر اس لیے دستیاب ہے کہ اس منصوبے پر وقت اور مہارت بلامعاوضہ صرف کی گئی ہے۔

ڈاکٹر راؤ بتاتے ہیں کہ ان کا گروپ سماجی تبدیلی کی خواہش کے تحت کام کر رہا تھا اور مریضوں کو صحت کی ایک قابلِ رسائی سہولت دینا چاہتا تھا۔

یہ آلہ بھی انڈیا میں ہی بنایا گیا۔ مصنوعی آواز کے دوسرے باکس اس لیے بھی مہنگے ہوتے ہیں کہ انھیں درآمد کیا جاتا ہے۔

آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں سر اور گردن کے ماہر ڈاکٹر الوک ٹھاکر اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ اے یو ایم وائس باکس مریضوں کی زندگی بدلنے والا آلہ ثابت ہو گا۔

ان کا کہنا ہے 'یہ سادہ سا آلہ ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے ایسی چیز وہ واحد ٹکٹ ہوتی ہے جو ہمیں ملازمت اور بامقصد اور معاشی طور پر معقول زندگی میں واپس لا سکتی ہے۔'

تاہم وہ ڈاکٹر راؤ اور ان کی ٹیم کو متنبہ کرتے ہیں کہ ان کا چیلنج اب یہ ہو گا کہ ان کا آلہ وسیع پیمانے پر دستیاب بھی رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہی ایک منصوبہ بڑے پیمانے پر اپنا اثر ڈالنے میں اس لیے ناکام ہوا کہ اسے موثر مقدار میں تیار کرنے میں دشواریاں پیش آئیں۔

ڈاکٹر راؤ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی ایجاد سارے انڈیا میں ہیلتھ کیئر کے تمام ریجنل مراکز میں دستیاب ہو تا کہ حلق کے کینسر کے تمام مریض ان کا آمدنی جو بھی ہو یہ حاصل کر سکیں۔

'یہ ایک سادہ سی ایجاد ہے جو بہت سی زندگیوں کو انتہائی سادہ انداز میں چھوتی ہے۔'


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Dr Vishal Rao is changing the lives of throat cancer patients in India. Across the country around 30,000 patients a year are diagnosed with cancer of the larynx. For those in the latter stages of the disease the only option can be to have the voice box removed, leaving the patient without a voice.