نائب کپتان آؤٹ

پانامہ لیکس سے شروع ہونے والی آندھی نے ایک اورسیاستدان کوپارلیمنٹ سے نکال باہرکیایہ معاملہ جوں جوں آگے بڑھے گاکوئی بعیدنہیں کہ ملک کے دیگرسیاستدان بھی اسکی زدمیں آئیں اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جب بھی جمہوریت کوموقع ملاسیاستدانوں نے اپنی نااہلی ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کازورصرف کیااگرموجودہ جمہوری پیریڈکی بات کی جائے تو بے نظیربھٹوکی بے وقت موت نے اقتدارزرداری کی جھولی میں ڈال دیاانکی حکومت نے بھی دنیاکی تمام حکومتوں کی طرح کئی شعبوں میں ڈیلیورکیامگربہت سے شعبے ناکامی سے بھی دوچارہوئے انکی حکومت نے صوبوں اورمرکز کے درمیان این ایف سی ایوارڈپرتصفیہ کرایا،اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو تاریخی خودمختاری دی گئی ،چین کے ساتھ تعلقات کی بنیادیں مستحکم کیں ،ورثے میں ملی ہوئی دہشت گردی کے خلاف کچھ اچھے اقدامات اٹھائے ،ناراض بلوچوں کومنانے کی سنجیدہ کوششیں ہوئیں اورسب سے بڑھکریہ کہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی زرداری کومفاہمت کے بادشاہ کاخطاب ملامگرانہوں نے ججوں کی بحالی اورخودصدر بننے پرنوازشریف کی ناراضگی مول لی اور’’وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘ والے تاریخی اقوال ارشادفرمائے جس سے مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی کے درمیان محاذآرائی نے جنم لیااس محاذآرائی میں یوسف رضاگیلانی کوگھرجاناپڑااورراجہ پرویزاشرف کوبھی عدالتوں میں پیشیاں بھگتناپڑیں یوسف گیلانی کی نااہلی پرنوازلیگ نے خوشی کے شادیانے بجائے اورکالے کوٹ پہن کر’’یکجہتی‘‘ کااظہارکیاگیابہرحال اس اسمبلی نے اپنی مدت ان افواہوں تلے پوری کی کہ ’’آج گئی بس کل گئی‘‘والی صورتحال پانچ سال تک جاری رہی2013میں نواز شریف ’’الیکشن‘‘ جیت کرتیسری مرتبہ وزیراعظم بنے توچند ہفتے یامہینے سکون کے وہ ملے جب تک عمران خان ہسپتال میں زیرعلاج رہے عمران خان نے حلف اٹھاتے ہی چارحلقے کھولنے کی گردان شروع کردی اوریہ گردان اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ سپریم کورٹ کاایک کمیشن نہیں بناکمیشن بننے سے پہلے 126روزپارلیمنٹ کے سامنے دھرناجاری رہاجس سے کاروبارمملکت بری طرح متاثرہوئے غیرملکی سربراہان کے دورے ملتوی ہوئے معاشی نقصان ہواملکی سیاست میں نئی زبان ِ تقریرمتعارف کرائی گئی جس سے تمام سیاستدانوں کی بلاتفریق ’’تواضع‘‘ کی گئی کسی کودونمبرسیاستدان کہہ کرپکاراگیاتوکسی کے چادرکی نقل اتاری گئی کسی سرکاری افسرکودھمکی دی گئی توکبھی جانبازپولیس افسروں کے سرپھاڑے گئے مگرسپریم کورٹ کمیشن نے ’’منظم دھاندلی‘‘ کے الزامات کی تردیدکردی دھرنے کے ان 126 دنوں میں کئی کئی مرتبہ حکومت جانے کی افواہیں اڑتی رہیں کمیشن کافیصلہ آنے کے بعدعمران خان اورانکی پارٹی نے عدلیہ پر اسی طرزکی تنقیدکی جس طرح آجکل نوازشریف اورانکے چندوزرا کررہے ہیں عمران خان سیاست میں بھی کرکٹ کی طرح روزانہ ایک نیامیچ کھیلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کبھی وہ دھرنوں پرعوامی توجہ حاصل کرنے اورمیڈیاکے ذریعے ہیجان یاکرکٹ کی زبان میں بخارپیداکررہے ہوتے ہیں توکبھی پانامہ کیس کولائیومیچ میں تبدیل کردیتے ہیں ہلے گلے ،شغل میلے اورناقص زبان کے استعمال نے ملکی سیاست میں نئی غلط روایات کااضافہ کیاعدالتوں کے ذریعے لائیومیچزنے آج عمران خان کوانکے ایک قابل اعتمادسیاسی ساتھی سے محروم کردیاناہی خان صاحب ساڑھے چارسال تک عدالتوں کوسیاسی اکھاڑے میں تبدیل کرتے اورناہی آج انہیں جہانگیرترین جیسے ساتھی سے محروم ہوناپڑتاعمران خان اگرچہ آج بچ گئے ہیں مگرکل کوکسی اورکیس میں انہیں پھنسایاجاسکتاہے ملک کو جوسیاسی ٹرینڈانہوں نے دیااسکی زدسے اب کسی کا بچنامشکل ہے عدلیہ پرسیاسی کیسوں کی بھرمارنے اسکے احترام کو متاثرکیاپھرکچھ ججوں کے بارے میں جوالزامات لگے اورجوسوچ پیداکی گئی آج اسی سوچ کی برکت سے ہرفیصلے پرسرعام تنقیدہوتی ہے ججوں کامذاق اڑایاجاتاہے کسی بھی فیصلے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ’’بیلنس کرنیکی کوشش کی گئی ‘‘ تنقیدسے بچنے کیلئے فیصلہ دیاگیا‘‘’’ڈیل ہوگئی‘‘’’اسے بچایاگیا‘‘اوراسطرح کے دیگرلاتعدادجملوں کے زبان زدعام ہونے سے عدلیہ کی رہی سہی ساکھ داؤپرلگی ہوئی ہے سیاسی کیسوں کی بھرمارسے عدلیہ کی توجہ اسکے اصل کام یعنی عوام کوانصاف کی فراہمی سے ہٹائی گئی ہے سیاسی مقدمات اعلیٰ عدلیہ کاجوقیمتی وقت ضائع کرتے ہیں اگریہی قیمتی وقت عوامی مقدمات کودیاجاتاتوناآج ہزاروں مقدمات ’’آویزاں ‘‘ہوتے اورناہی لوگ مرنے کے پندرہ سال بعدبری ہوتے جمہوریت کے ثمرات سے ہم تب بہرہ ورہوسکتے ہیں جب ہم اسے چلنے دینگے جمہوریت کامطلب ایک نظام ہے مگراس نظام کی’’ بالائی‘‘ حکومت ہے اگرآپ حکومت کوچلنے ہی نہیں دینگے تو نظام کوگالیاں دیتے رہنے سے کونسے ملک یانظام درست ہوئے ہیں پانامہ کامعاملہ پارلیمنٹ میں ہی حل ہوناچاہئے تھاسیاستدانوں کی نااہلی سے یہ عدالتوں میں چلاگیااگراسے پارلیمنٹ میں ہی حل کیاجاتاتوآج ناہی جہانگیرترین یوں نااہل ہوتے ناہی عمران خان نااہلی کے خوف تلے دنرات گزارتے ناہی الیکشن کمیشن کی تلوارلٹک رہی ہوتی اورناہی عدلیہ اورمقننہ میں محاذآرائی کی کیفیت پیداہوتی جمہوری نظام کوہمیشہ سیاستدانوں نے ہی تباہی کے کنارے پہنچایادیگرقوتوں نے ہلکاسادھکادیااب دھکے کاوہی پراناکام شائدعدلیہ سے لیاجارہاہے عدلیہ کے ذریعے حکومتیں گرانے یاوزرائے اعظم رخصت کرنے کی روایت قطعاًقابل رشک نہیں ملک کوسیاسی استحکام کے بغیرترقی کی منزل سے ہمکنارکرناممکن نہیں اورحالیہ عرصے میں جس قسم کی سیاست کوفروغ دیاگیااس سے نہیں لگتاکہ ہم آئندہ پندرہ بیس برس تک سیاسی استحکام حاصل کرپائینگے نئی آنے والی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح مفلوج ہی رہے گی اسی طرح ’’آج گئی اورکل گئی‘‘ کی باتیں ہونگیں عدالتوں کی پیشیاں ہونگیں نااہلیاں ہونگیں دنیاجہاں کی اقوام اورممالک ترقی کی منزلیں طے کرینگی اورہم ایک دوسرے کی تانگیں کھینچنے ،عدلیہ کوطعنے دینے ،حکومت کومفلوج کرنے،لاک ڈاؤن اورشٹرڈاؤن کرنے ،دھرنے دینے ،پریس کانفرنسیں کرنے ،پورے ملک کو لائیومقدمات میں مصروف رکھنے ،پیشیاں بھگتنے ،جلسے جلوس کرنے ،ہڑتالیں کرنے ، شاہراہیں بندکرنے اورحکومت کی رخصتی کی تاریخیں دینے میں مشغول رہیں گے ان روئیوں سے قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ زوال پذیرہوتی ہیں سیاسی استحکام کے بغیرنیاپاکستان بنانے کے خواب دیکھنااوردکھاناسراب کے سواکچھ نہیں جمہوریت برداشت کانام ہے جس جماعت پرعوام نے اعتمادکیااسے آئینی مدت پوری کرنے کاحق ہوناچاہئے پانچ سال بعدعوام خودہی فیصلہ کریگی کہ اس حکومت نے ملک یاعوام کیلئے ڈیلیورکیاہے یانہیں یہ اہل ہے یانااہل ؟ جہانگیرترین کی نااہلی سے یقیناًتحریک انصاف کودھچکالگاہے اسے اس دھچکے سے سنبھلنے میں وقت لگے گاوہ پارٹی کے دوسرے بڑے عہدے کے حامل تھے اورپارٹی میں خان صاحب کے بعدان کاہی سکہ چلتاہے انکی پارٹی ترجمان کے بقول انہیں’’ بیلنس‘‘ کانشانہ بنناپڑااس ــ’’بیلنس ‘‘پر پنجابی کے عظیم شاعرمیاں محمدبخش کے شعرکامصرعہ یادآرہاہے
دشمن مرے تے خوشی نہ کری سجناوی مرجانا

بہرحال تحریک انصاف کے کارکنوں کوفیصلے سے صدمہ اورخوشی دونوں بیک وقت حاصل ہوئے ہیں انکے کپتان ناٹ آؤٹ جبکہ نائب کپتان آؤٹ قرارپائے ہیں۔
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.