عمران، جہانگیر نااہلی کیس کے اہم نکات

پاکستان کی سپریم کورٹ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواستوں پر جمعے کو فیصلہ سنا رہی ہے۔

یہ درخواستیں پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن حنیف عباسی نے گزشتہ برس نومبر میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔
 

image


رواں برس 28 جولائی کو پاناما کیس کے فیصلے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف سپریم کورٹ میں 5-0 کی واضح اکثریت سے وزارت اعظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کے بعد سپریم کورٹ کی تفتیش کا رخ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے اثاثوں کی جانب ہو گیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے رواں برس نومبر کے وسط میں ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو آج سنایا جا رہا ہے۔

اس کیس کے بارے میں کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات کی تفصیلات یہاں پڑھیے۔

• حنیف عباسی کی پٹیشن میں عمران خان اور جہانگیر ترین پر کیا الزامات ہیں؟
حنیف عباسی نے اپنی پٹیشن میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں نے انتخابات میں لڑنے کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات میں سچائی سے کام نہیں لیا ہے اور اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں جس پر ان دونوں رہنماؤں کو آئین کی شق 62 کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔

اس اپیل میں عمران خان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے لندن فلیٹ کا ذکر نہیں کیا۔ دوسری جانب جہانگیر ترین پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے، اپنے قرضے ادا نہیں کیے، وہ انسائیڈر ٹریڈنگ کے مرتکب ہوئے ہیں اور اپنے زمینوں سے ملنے والی رقم چھپائی ہے اور ان پر لاگو ہونے والے ٹیکس بھی ادا نہیں کیے ہیں۔

عمران خان نے لگائے گئے الزامات کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا آف شور کمپنی نیازی سروس لمیٹیڈ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ کمپنی صرف ان کے لندن فلیٹ سے متعلق تھی۔ عمران خان کی جانب سے کہا گیا کہ فلیٹ کی فروخت کے بعد اس کمپنی سے ان کا تعلق ختم ہو گیا تھا۔ساتھ ساتھ لندن میں ہونے کی وجہ سے اس فلیٹ پر لگائئے گئے ٹیکس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسری جانب بنی گالا کی رہائش گاہ کے لیے حاصل کی گئی رقم کے بارے میں انھوں نے عدالت کو جواب جمع کرایا کہ اس کے لیے مطلوبہ رقم ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان نے فراہم کی تھی جو انھوں نے لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد انھیں واپس کر دی تھی۔ واضح رہے کہ جمائما خان نے طلاق کے بعد یہ پراپرٹی عمران خان کو تحفتاً دے دی اور وہی اب اس کے مالک ہیں۔

جہانگیر ترین زرعی ٹیکس چوری اور آمدن کے ذرائع چھپانے کے بارے کہا ہے کہ جس زمین سے انھیں آمدنی ملی ہے وہ انھوں نے لیز پر لی ہے اور ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور وہ اسے ظاہر کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔جہانگیر ترین نے لندن میں موجود آف شور کمپنی کی ملکیت کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ڈسکریشنری ٹرسٹ قوانین کے تحت بنی ہے اور وہ بذات خود اس کے مالک نہیں ہیں۔

•عمران خان کی بنی گالا کی رہائش گاہ کیوں متنازع ہے اور جمائما خان کا اس میں کیا کردار ہے؟
عمران خان کی اسلام آباد کے مضافات میں بنی گالا کے علاقے کی رہائش گاہ کا پہلے بھی ذکر ہوتا رہا ہے جب الیکشن کمیشن نے اس جائیداد کی خرید کے بارے میں عمران خان سے تفصیلات طلب کی تھیں۔

گزشتہ سال عمران خان نے اپنے جمع کرائے گئے گوشواروں میں کہا تھا کہ زمین انھیں جمائما خان نے تحفتاً دی ہے لیکن بعد میں انھوں نے موقف اختیار کیا کہ زمین انھوں نے خود خریدی ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے کہا کہ انھوں نے 300 ایکڑ پر محیط زمین خریدنے کے لیے اپنی بیوی سے پیسے قرض کے طور پر لیے تھے جس کے پیسے انھوں نے لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد واپس کر دیے تھے۔
 


عمران خان پر مسلسل یہ الزام لگتا رہا کہ انھوں نے مسلسل اپنے بیانات تبدیل کیے ہیں لیکن اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ عمران خان نے بنی گالا کے لیے خریدی گئی زمین کی منی ٹریل تسلی بخش طور پر پیش کر دی ہے۔

دوسری جانب عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کا کردار اس مقدمے میں اس لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عمران خان نے اپنے دفاع میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ بنی گالا کی پراپرٹی انھوں نے جمائما خان کے دیے ہوئے پیسوں سے حاصل کی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ انھوں نے اپنی سابقہ بیوی سے لیے گئے پیسے واپس کر دیے تھے۔

جمائما خان بھی اس حوالے سے متعدد ٹویٹس کرتی رہی ہیں جن میں انھوں ہر پرانی چیز کو سنبھال کر رکھنے کی عادت کا بھی تذکرہ کیا کہ کس طرح ان کے پاس 15 سال پرانے کاغذات موجود تھے۔

جمائما نے سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد ایک بار پھر اسی بارے میں ٹویٹ کی
 


•جہانگیر ترین کی برطانیہ میں موجود زمینوں کی کیا تفصیلات عدالت کے سامنے آئی ہیں؟
حنیف عباسی نے اپنی دائر کی گئی پٹیشن میں جہانگیر ترین کی برطانیہ میں موجود 12 ایکڑ کی زمین کے بارے میں سوال اٹھایا جو کہ شائنی ویو نامی آف شور کمپنی کی ملکیت میں ہے۔

اس کے بارے میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ یہ ڈسکریشنری فنڈ کے تحت ای ایف جی ٹرسٹ کے کنٹرول میں ہے لیکن بعد میں بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ ہی اس ٹرسٹ کے بینیفیشری ہیں، نہ کہ ان کے بچے۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

The Supreme Court will announce its earlier-reserved judgment in the disqualification case against Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) chairperson Imran Khan and secretary general Jahangir Tareen today. The apex court had reserved the verdict against the two PTI leaders on November 14. The decision is expected to be announced at 2pm today.