پشاور میں ایک اور حملہ

دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھرصوبہ خیبرپختونخوامیں ایک تعلیمی ادارے کونشانہ بنایاصوبائی دارالحکومت پشاورمیں واقع ایگریکلچرانسٹیٹیوٹ پردہشت گردوں کے حملے اوروہاں ہونے والی خونریزی نے لامحالہ ہرآنکھ اشکبارکردی گھروں سے علم کی روشنی حاصل کرنیکی خاطرنکلنے والے ،ملک کا مستقبل کہلانے والے ملت کے مقدرکے ستارے،ماؤں کے دلارے اور بہنوں کے پیارے نوجوانوں کوایک مرتبہ پھر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتاراگیا،ایک مرتبہ پھروالدین سے بڑھاپے کے سہارے چھینے گئے ،انکی جھکی ہوئی کمرپربے رحمی کے کوڑے برسائے گئے اورماندپڑتی آنکھوں کے خواب روندے گئے، متعددبچے یتیم ہوگئے،کئی بہنیں اپنے بھائیوں کی راہیں تکتی رہ گئیں ایک مرتبہ پھرمسرتوں کی منتظرمتعدد گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی بدقسمت صوبے کے بدنصیب باشندوں کیلئے یہ کوئی پہلاسانحہ نہیں اس سے پہلے بھی اس صوبے کے باشندے بارہااپنے معصوم اوربے گناہ پیاروں کی خون میں لت پت لاشیں اٹھاچکے ہیں یہاں کے بوڑھے ،بچے اورجوان مساجدمیں شہیدکئے جاچکے ہیں یہاں کی خواتین کوباروداوربموں کانشانہ بنایاجاچکاہے یہاں کی بازاریں خریداروں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے جسموں پر ماتم کناں ہیں سرکاری دفاتر،مسافربسیں،ہوٹلز،پارک ،سینما،سکول ،کالجزاوریونیورسٹیاں تک خون کے سوداگروں کی دستبردسے محفوظ نہیں رہیں دہشت پسندقوتیں جب چاہیں درجنوں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل لیتی ہیں مگراس ظلم وبربریت کوروکنے والاکوئی نہیں حکومتیں چاہے صوبائی ہوں یاوفاقی محض زبانی جمع خرچ سے کام چلانے کی کوشش میں مصروف نظرآرہی ہیں سداکاگناہگار،مہمان نواز ،بہادرلوگوں کی سرزمین اورمحبتوں کے امین شہرپشاورکوایک مرتبہ پھرخون میں نہلایاگیادہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھرتعلیمی ادارے کونشانہ بنایایہ سانحہ اس وقت رونماہواجب جمعہ کے روزیکم دسمبرکو علی الصبح تقریباًساڑھے آٹھ بجے تین برقعہ پوش دہشت گردزرعی ڈائرکٹوریٹ پشاور میں داخل ہوئے اگرچہ سیکیورٹی فورسزنے کوئیک رسپانس دیکرسینکڑوں طالبعلموں کی جان بچائی مگردس طالبعلم اورایک چوکیداردہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے خیبرپختونخواکے تعلیمی اداروں پربزدلانہ حملے کایہ کوئی پہلاواقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی دوبڑے تعلیمی ادارے اسی قسم کے حملوں کانشانہ بن چکے ہیں 16دسمبر2014کوآرمی پبلک سکول پرحملے میں 135بچے شہیدہوگئے یہاں ظلم ، سنگدلی اور شقی القلبی کے وہ مظاہرسامنے آئے جو چنگیزاورہلاکوخان کے مظالم کوبھی مات دیں معصوم بچوں کوکسی قصوروگناہ کے بغیربے دردی سے گاجرمولی کی طرح کاٹاگیا،انہیں ذبح کیاگیا،گولیاں ماری گئیں ،بم اوربارودسے جلایاگیااورجس دماغ نے ملک وقوم کامستقبل بنناتھااسے فرش پربکھیردیاگیابوٹوں تلے رونداگیااورایک تعلیمی ادارے کے درودیوارکوخون ِ ناحق سے رنگین کردیاگیااسکے بعد 20جنوری 2016کوباچاخان یونیورسٹی چارسدہ کے بیس بچے اپنے ہی خون میں نہلادئے گئے اوراب یکم دسمبر2017کوایک مرتبہ پھرپختون بچوں کوتعلیم حاصل کرنے کی سزادی گئی انہیں پختون سرزمین کے باسی ہونے کی سزادی گئی انہیں مسلمان ہونے کی بناء پرتہہ تیغ کیاگیااوراس ظلم عظیم کیلئے عیدمیلادلنبی ﷺ کے مبارک دن کاانتخاب کیاگیاحملہ آوروں کاتعلق جس تنظیم سے ہے اوراس بہیمانہ واقعے کی ذمے داری جس انسانیت دشمن تنظیم نے قبول کرلی ہے اس نے پہلے والے دو واقعات کی بھی ذمے داری قبول کی تھی اس تنظیم کے ممبران کادعویٰ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اورانکے ساتھ’’کام ‘‘ کرنے والے بھی خودکو’’سب سے افضل‘‘مسلمان سمجھتے ہیں یہ الگ بات کہ یہ لوگ مسلمان ہوکر’’عالم کفر‘‘ کی خواہشات کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے کوئی مسلمان ،پختون اورپاکستانی تعلیم حاصل کرے اوروہ علم کے ذریعے دنیاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکربات کرنے کے قابل ہو یہ ’’جرم‘‘عالم کفرسے برداشت نہیں اوریہ نام کے مسلمان اسی عالم کفرکے آلہء کاربن کراپنے ہی مسلمان بھائی بیٹوں کاخونِ ناحق بہارہے ہیں اور اس کیلئے انتخاب بھی اس عظیم دن کاکرتے ہیں جس دن رحمت اللعالمین ﷺ دنیامیں تشریف لائے یہ قبیح فعل سرانجام دینے والے خودکوکس منہ سے مسلمان کہتے ہیں آخران معصوم بچوں کی کسی سے کیادشمنی ہوسکتی ہے انہیں کب تک ناکردہ جرم کی سزادی جاتی رہے گی انکے خونِ ناحق پرسیاست کب تک چمکائی جاتی رہے گی ایٹمی پاکستان کے بچے کب تک یونہی تعلیمی اداروں کے اندرقتل ہوتے رہیں گے اوراس سلسلے کی روک تھام کب کی جائیگی ؟ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے کافی نمٹاگیااب ان حملوں کے آگے بندباندھنے کی ضرورت ہے جوقوتیں خطے کوآگ وبارودکامنبع بناکررکھناچاہتی ہیں ان قوتوں کواب واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے اس سانحے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے تو پاکستان کوبطورریاست افغانستان اوروہاں قابض امریکہ سے دوٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے ڈومور کاراگ الاپنے والے اپنی ناک کے نیچے دیکھنے سے قاصرہیں اگردنیاکایہ سپرپاوراس قدرنااہل،کمزوراوراحمق ہے تواسے ہزاروں میل دورآکرکسی ملک پرقبضہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ڈیڑھ عشرے سے امن کے نام پرخطے کواپنے باسیوں کے خون سے غسل دیاجارہاہے اوردنیاکو سینکڑوں مرتبہ تباہ کرسکنے کے دعویداروں کاحال یہ ہے کہ انکی زبان گنگ ہے انکے ہاتھ شل ہوچکے ہیں انکی ٹانگوں میں سکت نہیں اورسرمیں دماغ نام کی کوئی چیزنہیں سپرپاوراپنے اتحادی بھارت کو افغانستان میں ’’رول ‘‘دینے پربضدہے بنیاافغانستان میں کیارول اداکرناچاہتاہے یہ بے گناہوں کاخون بزبان خودگویاہے بنئے اورانکل سام کاگٹھ جوڑخطے کومستحکم نہیں ہونے دے رہااوپرسے افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران اپنے ہی ہم نسلوں کاخون بہانے والوں کیلئے ناصرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں پال پوس کربنئے کے ساتھ روابط میں سہولت بھی فراہم کررہے ہیں اس نارواسلسلے نے خطے کوعدم استحکام سے دوچارکررکھاہے آئے روزقتل وغارتگری کے واقعات رونماہورہے ہیں اورمعصوم وبے گناہ انسان نشانہ بن رہے ہیں خیبرپختونخواکے عوام امریکہ کی اس نام نہادجنگ میں تھوک کے حساب سے مرے ہیں اورمررہے ہیں لاتعدادسکول تباہ کئے گئے اوراب توبچوں کوتہہ تیغ کرنے میں بھی فخرمحسوس کیاجارہاہے نہتے بچوں کومارکرنجانے کس جذبے کی تسکین کی جارہی ہے ریاست پاکستان سے خیبرپختونخواکے باشندوں کی یہ توقع اورمطالبہ حق بجانب ہے کہ انکے بچوں کوامن چاہئے ان کیلئے حصول علم کوجرم نہ بنایاجائے اورتمام تعلیمی اداروں کوبیانات کی حدتک نہیں بلکہ حقیقت میں پول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے ہرحملے کے بعد’’بڑی تباہی سے بچ گئے‘‘ والی منطق سے مزیدکام نہیں چلے گاحکومت تمام تعلیمی اداروں اوراساتذہ وبچوں کوتحفظ دے دس پندرہ بیس لاشیں گرنے پرکم نقصان کے پروپیگنڈے اورقوم کے زخموں پرنمک چھڑکنے سے مشابہہ مبارکبادیں دینے والوں کوگریبان میں جھانک کراپناطرزعمل اوربیانیہ تبدیل کرناہوگا پشاورمیں تعلیمی ادارے پرایک اورحملہ ریاست کے ماتھے کاایک اوربدنماداغ اورایک ایسازخم ہے جس سے مدتوں ٹھیسیں اٹھتی رہیں گی اورخون رِستارہے گا۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.