بے رحم سیاست انتہا پسند کون؟ اور مسئلہ ختم نبوت

پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن کے سالانہ ایوارڈ سرمنی پروگرام منعقدہ چک شہزاد اور شعور علم سوسائٹی کے ایک پروگرام منعقدہ صادق آباد راولپنڈی میں شرکت سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ٹریفک جام کے تکلیف دہ مناظر دیکھ کر بہت صدمہ افسوس اوردکھ ہوا صدمہ متاثرین ٹریفک کے تناظر میں دکھ اجتماعی بے حسی پر اور افسوس حکومت وقت پر۔ سیاست کی بے رحمی کا سنا ضرورتھا معاصر تناع حلف ختم نبوت نے یقین دلادیا صرف صادق اورامین والی شق میں ہونے والی ترمیم سے توجہ ہٹانے کے لیے ختم نبوت کے حلف نامے کے ساتھ چھیڑا گیا اور شاطر دماغ اپنی چال میں کامیاب رہا صادق اور امین کی شق میں ترمیم پر کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا سب ختم نبوت کے معاملے میں الجھ گئے جسے بنایا ہی سلجھانے کے لیے گیا تھا۔ ٹریفک جام کی پریشانی میں لوگ جس طرح کے تبصرے فرما رہے تھے ان تبصروں کے مبصرین کی نیت پر شک کرنے کے بجائے غورکیا جائے تو سازشیوں کی کامیابی یہاں بھی نمایاں نظر آتی ہے جسکی ذمہ دار حکومت وقت ہے کیونکہ حکومت کے پاس بے پناہ اختیارات آپشنز اور وسائل ہوتے ہیں جبکہ عوام گھربار اور روزگار چھوڑکر سڑکوں پر تب ہی آتی ہے جب عوام کے پاس اپنی بات منوانے یا حق لینے کے لیے باقی آپشنز ختم ہوجاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی صاحب کے مشیر ایک تیر سے کئی شکار کررہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے سخت سردی کا سامنا کرنا تحریک لبیک والوں کے لیے مشکل ہوجائے گا اور وہ مذاکرات کی میز پر کمزور ہوجائیں گے دوسری جانب مشیران کا خیال ہے کہ فیض آباد اڈے اور اسلام آبادپنڈی میں ٹریفک جام مسائل کی وجہ سے عوامی سطح پر تحریک مخالف ماحول بنے گا بعدازیں سوشل میڈیا پر اور آخرکار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوامی مشکلات کو بنیاد بناتے ہوئے تحریک لبیک کی حمایت کم کرناممکن ہوجائے گا? تحریک کی ساکھ کمزور کی جا سکے گی نتیجہ کے طور بذریعہ میڈیاعوامی مخالفت اور ناسازگار ماحول پیدا کرکے تحریک لبیک کو پیچھے ہٹنے پر مجبورکیا جا سکے جبکہ نام نہادلبرل‘ موم بتی مافیا اوردین بیزار طبقہ پہلے ہی یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ عقیدے اور نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس پر جینے مارنے اورمرنے کی بات کرنا بیوقوفی ہے اور جو لوگ پہلے ہی سے یہ پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ اسلامی دفعات عوامی مشکلات کا باعث ہیں لہذہ آئین سے ان کا انخلا ترقی اور امن کی بنیادی ضرورت ہے ان کی سوچ کو پذیرائی بخشی جا سکے مگر ان کی سوچ پوری ہو یہ ضروری نہیں ہے۔

یہ ہے میاں محمد نواز شریف صاحب کے دست راست عباسی صاحب کے مشیران کی سوچ جنہیں دائیں بازو مشرقی مزاج اور معتدل مزاج سمجھا جاتا ہھ اور اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے صحافی اورعلماء کی بڑی تعداد ان کی برملا حمایت بھی کررہی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ خادم رضوی صاحب کے دل میں کیا ہے مگر جب وہ ایک جائز مشن لے کر میدان میں آگئے ہیں تو اصولی طور پر مولانا فضل الرحمن صاحب۔ سراج الحق صاحب۔ ساجد میر صاحب۔ چوہدری شجاعت صاحب۔ فاروق ستار صاحب۔ خورشید شاہ صاحب کی جماعتوں سمیت تمام علماء اوراپوزیشن کو ان کا ساتھ دینا چاہیہے پہل جس نے بھی کی ہے اگر پہل کرنے والا حق بجانب ہے تو باقیوں کو اس کا ساتھ دینا چاہے ورنہ بے رحم سیاست کریڈٹ پوائنٹس اور نمبر گیم کے تصور کو درست سمجھا جائے گا۔ جہاں تک تحریک لبیک کی انتہا پسندی کی بات ہے تو کیا وہ میڈیا سب سے بڑا انتہا پسند نہیں جو نہ تو اصل ایشو سامنے لارہا ہے نہ مظاہرین کی کوریج کررہا ہے البتہ وقت آنے پر تحریک لبیک مخالف فضا بنانے میں عوامی مشکلات کو ضرور جواز بنائے گا۔ہلکی پھلکی کوریج پر قابل مبارکباد ہیں 92نیوز اور شاہد مسعود جن کے علاوہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ بزنس بنیادوں پر چلنے والے میڈیا کے اپنے مفاد ہیں جسکی غیر جانبدار ی کا دعوی وقت سے ساتھ اپنی وقعت کھو رہا ہے اور سوشل میڈیا متبادل کے طور پر موجود ہے۔ ارباب اختیار کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے اور تحریک لبیک یارسول اﷲ کے خلاف ماحول بنانے کی تھیوری پر عمل درآمد کے بجائے تحریک لبیک سے مذاکرات کرے ان کے جائز مطالبات پورے کرے قدآور دینی وسیاسی شخصیات پر مشتمل وفد تشکیل دیا جائے جو معاملے کو سنے جس کی بات درست ہو اس کو تسلیم کیا جائے خواہ مخواہ پراپیگنڈے اور سازشی تھیوریز کا راگ الاپنے کے بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلے کیے جائیں ورنہ یہ جان لینا چاہیے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ہرطاقت والے کے اوپر ایک طاقت والا ہے اوردوسروں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔۔۔ یاد رکھیں بات معمولی نہیں مسئلہ ایمان اورکفر کا ہے جنت اورجہنم کا ہے شفاعت نبی اور حوض کوثرکے جام کا ہے خاتمہ بالخیر اورخاتمہ بالشر کا ہے اک آگ کا دریا ہے یعنی پل صراط ہے جس سے گزرنا ہے․․․․․․ سوچیں کہ سوچنے سے یہ عقدہ کھلے گا کہ کیا سوچنا چاہیہے اور کیا نہیں۔ سوچنے سے ہی یہ سمجھ آئے گا کہ کل دربار رسالت سے پذیرائی ملنی ہے یا پھٹکار۔ دنیا کی معمولی مشکلات اور تکالیف آخرت کی آسانیوں کے مقابل بہت شاندار سودا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میری چھوٹی چھوٹی مشکلات پر میرا کوئی غیر محتاط تبصرہ خدانحواستہ میرے ایمان اور محبت رسول کے دعوے کی نفی کا باعث اور شان رسالت کی گستاخی کا موجب بن سکتا ہے اور شان رسالت کے معاملے میں میری صبر ورضا کی حکمت میری عاقبت سنوار سکتی ہے۔۔۔ کچھ تو سوچو کہ مثبت سوچ بھی عبادت ہے۔۔۔۔۔ حق تو یہ تھا کہ حق ادا نہ ہوا -

Lateef Rehman
About the Author: Lateef Rehman Read More Articles by Lateef Rehman: 3 Articles with 2044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.