ریڈیو پاکستان کراچی کا پروگرام - خلا کے حوالے سے

آج کا کالم ایک لطیفے سے شروع ہوتا ہے -
لطیفہ یہ ہے کہ نصف صدی قبل جب امریکہ اور روس کی سرد جنگ عروج پر تھی -کسی ملک میں اشتراکیوں یعنی کمیونسٹوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی - ایسے میں ایک قسمت کا مارا پولیس کے ہاتھ چڑھ گیا - وہ واویلا کر نے لگا ارے بھائی لگا بھئی میں تو اینٹی کمیونسٹ ہوں -- مجھے کیوں پکڑ رہے ہو
"ہا ہا ہا ہے تو کمیونسٹ کی ایک قسم ہی نہ ؟ “ پولیس والے نے فاتحانہ اندا ز میں اسے پولیس ٹرک کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا "چڑھ جا اوپر ابھی تیری طرح کے اور اینٹی کمیونسٹ پکڑنے جا نا ہے "‌

اس روز ریڈیو پاکستان جیسی حساس عمارت میں داخل ہوتے وقت بھی میں کچھ ایسا ہی سوچ رہا تھا - کیوں کہ میرے پاس مصنوعی پٹاخے کی چھڑی جسے ہوائی یا شرلی کہتے ہیں اور راکٹ کے کچھ چھوٹے چھوٹے ماڈل تھے - یہ دور سے بالکل اصلی کی طرح کھلونا راکٹ بم اور اصلی آتش گیر ہوائی کی طرح نظر آتے تھے -
عمارت کے حفاظتی عملے کے ارکان تو چونکیں گے ضرور -
میں نے سوچا ----- اب یہ ہو گا -- کیسے مکالمات ہو ں گے - اور مکالمات ذہن میں بنتے گئے --
یہ کیا ہے
یہ ماڈل راکٹ ہے یعنی راکٹ کا ماڈل
ہے تو راکٹ یعنی بم والے راکٹ کی قسم - یاد ہے رفیقے ایک سال پہلے بھی ایک مشکوک آدمی سے ایسے ہی راکٹ برآمد ہوئے تھے - تیری پوسٹنگ ادھر تھی نہ بنارس کالونی میں - بات کر نے والا حفاظتی اہل کار اپنے ساتھی کی طرف مڑ کر کہہ رہا ہے -
اوہو - او ہو - یہ کیا -- یہ تو پٹاخے والی شرلی یعنی ہوائی ہے --لیکن اس میں تو بیٹری سیل بھی لگا ہوا ہے - رفیقے کیا کر رہا ہے اندر - -اٹھ کر تو آ -دیکھ تو سہی کیا ہے -- صا حب آپ تو اندر آؤ -
میں کہہ رہا ہوں بھئی یہ اندر آصف الیاس صاحب کا خلا یعنی اسپیس کے بارے میں پروگرام ہو رہا ہے - اس میں راکٹ اڑنے کے اصول بتانے کے لئے یہ گتے کے ماڈل بنائے ہیں - اور ہاں یہ ہوائی ہے لیکن یہ بھی نقلی - ہوائی میں "مسالے “ یعنی بارود کا ایک خاص قسم کا حصہ بنا ہوتا ہے - میں نے اسے ظاہر کر نے کے لئے گھر کے ٹی وی ریموٹ کنٹرول کا پرانا ناکارہ ٹوٹا ہوا سیل استعمال کیا ہے
لیکن یہ سب تصوراتی مکالمات تو فضا میں بلند ریڈیو پاکستان کے اونچے سے ٹاور کی لہروں میں نہ جانے کہاں غائب ہو گئے
یہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی - سیکیورٹی گارڈ با اخلاق تھے - لگتا تھا کہ پوری دنیا کی مٹھاس انکے لہجے میں سما گئی ہے - -ہر بات کا آغاز سر سے اور انجام جناب پر ہو رہا تھا -
میرے بنائے ہوئے مختلف ماڈل دیکھے -کچھ سوالات کئے - ڈبے کا بھی ہاتھ میں اٹھا کر جائزہ لیا - ماڈل پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اوپر تک لے کر آئے اور اسٹوڈیو کی عمارت تک پہنچا دیا -

یہ تھا 22 اکتوبر 2017 کا دن - اسی مہینے میں تو پورے پاکستان میں پوری دنیا کے ساتھ عالمی خلائی دن منایا گیا تھا - اسی حوالے سے اس روز کو ریڈیو پاکستان کراچی کے ایف ایم 93 سے ایک پرو گرام پیش کیا گیا - یہ لائیؤ تھا - مجھے بھی بطور مہمان اس میں بلایا گیا - میں ماضی میں حکومت پاکستان کے خلائی اور بالائی کرہ ہوائی تحقیقاتی کمیٹی میں بطور میکا نیکل انجینئر اپنے فرائض منصبی ادا کرتا رہا ہوں - ایک دو تفصیلی مضامیں بھی اپنی قومی زبان میں لکھ چکا ہوں - چند مضامیں ہماری ویب میں بھی شائع ہوئے تھے - میں‌اسی پروگرام میں شرکت کر نے کے لئے پہنچا تھا -
سائنسی موضوعات پر پروگرام پیش کرنا اور اسے اس انداز میں بیان کرنا کہ سب کو پورا پورا سمجھ آجائے آسان کام نہیں ہے - خاص طور پر ریڈیو پر پیش کرنا جس میں سننے والے کو کچھ نظرنہیں آرہا ہو تو اور ہی زیادہ دشوار ہے - اس لئے اچھے اچھے پروڈیوسر اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ کون جان ماری کرے اور سر کھپائے - پروڈیوسر آمنہ شیخ کلمات تحسین کی حقدار بنتی ہیں کہ اس چیلنج کو قبول کیا -

بلکہ میں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے دور کے مشہور عاشق صادق فرہاد صاحب ہوں اور ان سے کہا جائے کہ "اے بھائی فرہاد - شیریں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو لازم ہے کہ ریڈیو پر جا کر ایک سائنسی پروگرام نظام شمسی -خلا - اور اس سے آگے چاند کے سفر کے بارے میں بنا کر لائیو پیش کرو--اس میں موضوع کی تشریح بھی ایسے اثر انگیز انداز میں ہو کہ کہ اگر کوئی سائنسی ماڈل اسٹوڈیو میں دکھایا جا رہا ہے تو کہیں دور بیٹھے سامع کو ایسے محسوس ہو کہ سب کچھ اس سامع کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے - اور ہاں لائیو پرگرام میں میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی - کوئی غلطی ہو جائے تو نہایت مہارت سے اسے نبھانا پڑتا ہے کہ جبیں پر پسینہ آجاتا ہے اور دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی ہے - -اتنا مشکل کام سن کر وہ عاشق صادق بھی عاشق کاذب بن جائیں گے - بولیں گے اے ریڈیو پاکستان والو اس میں تو الجھیڑے ہی الجھیڑے اور بکھیڑے ہی بکھیڑے ہیں - شیریں کی الفت میں اتنی کلفت برداشت کرنا اپنے بس میں نہیں ہے - پھر شیریں سے مخاطب ہو کر عرض کریں گے اے مادام شیریں خدا حافظ یہ ظالم ریڈیو پاکستان والے ہمارا ملاپ پسند نہیں کرتے --- بھلا بتاؤ تو صحیح اتنی مشکلات و مسائل اور دشواریوں کے سمندر میں کیسے ٹاپوں اس سے بہتر ہے کہ تمہاری جدائی میں دن رات کاٹوں --- غمزدہ راگ الاپوں اور جنگل جنگل صحرا صحرا ناپوں -

اس پروگرام کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں بچوں کو نظام شمسی کے تمام سیاروں کے نام بتائے گئے - میری باری آئی تو پاکستان میں میں سپارکو کے قیام کا پس منظر بتا یا - اس کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا کہ کیسے رہبر اور رہنما راکٹ سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور آگے بڑھتے گئے - تشریح کر نے کے لئے جو ماڈل بنائے تھے ان کے بارے میں بتایا - جس خوش اسلوبی سے پروگرام کے میزبان آصف الیاس صاحب اور مریم اقبال انصاری صاحبہ دھیرے دھیرے آگے لیکر چلے اس کی داد نہ دینا انصاف سے دور ہے - پروگرام میں دلچسپی کا رنگ بھرنے کے لئے وہ درمیان میں رنگ برنگے چٹکلے بھی چھوڑتے جا رہے تھے - بچے آکر نغمے بھی سناتے جا تے تھے - غرض یہ کہ نہایت ہی خوشگوار ماحول بنا ہوا تھا- اور اسی عالم میں انہیں اور دیگر سننے والوں کو نظام شمسی سے خوب آگاہی ہوئی -

اس موقع پر راکٹ کے ماڈل کی مدد سے سے ایک اسٹیج دو اسٹیج اور تین اسٹیج والے راکٹ کا عملی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ مختلف حصے فضا میں کیسے الگ ہو جاتے ہیں - - راکٹ کے ابتدائی تصور یعنی ' پٹاخہ ہوائی' کی بھی تشریح کی گئی - اس سلسلے میں پروگرام کی رابطہ نگران شبینہ اسد کی تعریف کرنی چاہئے کہ انہوں نے اس عملی مظاہرے کے لئے وقت نکالا -

بچوں کے نغمات میں میرے نزدیک تو کوئی جھول نہیں تھا لیکن آصف الیاس ذرا سا غیر مطمئن تھے - یہ غالبا“ ان کا کام کرنے کا انداز ہے تاکہ بچے عمدہ سے عمدہ تر کارکردگی کا مظاہرہ کریں - لیکن بچوں کے نغمات میں موسیقی کی صحیح قسم کی آمیزش سے بہت ہی اچھا لگ رہا تھا - موسیقی کی ہر دھن بچوں کے لبوں کا مہارت سے ساتھ دے رہی تھی - میں تو موسیقی کی نگران سعدیہ نواب علی کی لیاقت اور موسیقاروں کے کمال کا معترف ہو گیا ہوں -

کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ پھول پر مضمون لکھنے کو دیا جائے اور مضمون نگار اس میں
پھول کے پودے کے تنے کا ذکر تو کرے -
اسکے پتوں کے بارے میں تو بتائے -
اس کی جڑ کے بارے میں تو لکھے
لیکن لہلہاتے ‘ جھومتے ہوئے پھول جن کے رنگوں سے دنیا میں بہار و رعنائیاں ہیں - جن کی مہک سے دنیا کی شادابیاں ہیں کا کہیں تذکرہ ہی نہ ہو - - تو کیا کہیں گے -
آپ جو کچھ بھی کہہ لیں لیکن میرا یہ کالم پھول والے مضمون کی طرح ناکارہ رہے گا اگر اس میں ایک بچے محمدعزیر رفیق کی بابت نہ بتایا جائے - ریڈیو پاکستان کا یہ خلا کے بارےمیں پروگرام مکمل کہلا ہی نہیں سکتا تھا اگر اس میں عالمی خلائی ادارے ‘ناسا‘ کی جانب سے تعریفی تصدیقی سند کے حامل اس بچے محمد عزیر رفیق کی شمولیت نہ ہوتی - محمد عزیر رفیق آرمی پبلک اسکول میں نویں‌ جماعت کے طالبعلم ہیں - ناسا والے ہر سال پوری دنیا میں ایک تحریری مقابلہ کرواتے ہیں جسے وہ "ایک دن کے لئے خلائی مشین --- کیسے نی --- کا سائنس دان"
کا نام دیتے ہیں -
کیسے نی --- وہ خلائی مشین ہے جو شمسی نظام کے سیارے زحل کے بارے میں تحقیقات کے لئے 1997 میں بھیجی گئی تھی اور یہ سات سال کے عرصے کے بعد 2004 میں اپنی منزل مقصود کو پہنچی - محمد عزیر رفیق نے اس تحریری مقابلے میں حصہ لیا تھا اور ان کے مضمون کو انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا - انہیں انعام میں ایک دوربین دی گئی تھی - اپنے مضمون میں انہوں نے سیارہ زحل کے ارد گرد واقع دائروں اور اس کے اپنے ہشت اجرام کی بابت اپنی معلومات فراہم کیں اور یہ بھی بتایا کہ سیارہ زحل پر خلائی تحقیقات کر نے والوں کو سب سے پہلے کن باتوں کی طرف ترجیح دینی چاہئے - پرو گرام میں انہوں نے اس کامیابی کے لئے اپنی کوششوں کے بارے میں روشنی ڈالی - ان کی اس پروگرام میں موجودگی اس بات کی گواہی تھی کہ نوجوان نسل کی ذرا سی رہنمائی کی جائے تو ان کی -صلاحیتیں اجاگر ہو کر ملک کے لئے ایک قابل فخر اثاثہ بن سکتی ہیں -
انہوں نے اپنی دوسری کامیا بیوں کا تذکرہ بھی کیا - پاکستان میں اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر ایک پروگرام “ڈالمن “ کے نام سے چل رہا ہے اس میں شریک ہوئے اور “قابل عزت “ کے خطاب (ٹائیٹل ) سے سرفراز ہوئے - اسی طڑح روزنامہ ڈان کے انگریزی ہجے کرنے کے مقابلے “اسپیلنگ بی “ میں بھی شرکت کر کے اپنا لوہا منوالیا - کہہ رہے تھے کہ اسکریبل میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور چیس کھیلنا بھی پسند ہے - اسی طرح ایچ آر سی اے کے کوئز مقابلوں میں بھی حصہ لیا

پروگرام کے اختتام پر بچے ایک سکون کی کیفیت لئے اسٹوڈیو سے باہر نکل رہے تھے - چہرے شگفتہ شگفتہ سے تھے - آسمان پر سورج ابھی تک چمک رہا تھا کہ وہ بھی بچوں کو شاداں و فرحان دیکھ کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا - اور اس بات پر بھی خوش تھا کہ آج اسکے کنبے کے بارے میں ایک نہایت ہی اچھا -ہر لحاظ سے بھرپور پروگرام پیش کیا گیا تھا
اس پروگرام میں جن بچوں نے شرکت کی تھی ان سب کے نام لکھ رہا ہوں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو - ان سے ہی رنگ بہاراں ہے - - ردا عبدالغفار (حمد ) -- زینب فتح ( نعت ) -- حدیرہ نعیم ‘ نبیہہ قمر ‘ جسرا بیلم ‘ارج علوی ‘ زینب فتح محمد (اسکرپٹ ) ان کے علاوہ جنید حمید ‘ خضر حمید ‘ ایم ایان ‘ رمشا ----- اور سعدیہ نواب علوی طربیہ صفدر ‘ ردا‘ ماریہ ‘ سوزن (موسیقی گروپ )
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333402 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More