لازوال قسط 23

کہاں ہے وہ؟‘‘اس نے آتے ہی ضرغام کے بارے میں پوچھا تھا۔ حوالدار نے ایک طرف اشارہ کیا۔ وہ مٹکتے ہوئے اس طرف چل دی۔
’’ کیسے ہو تم؟‘‘اس آواز کو بھلا وہ کیسے بھو سکتا تھا۔ اگر مر بھی جاتا تو بھی اس آواز کو پہنچان لیتا۔ اپنے سر کو گھٹنوں سے اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا تو آنکھوں سے نفرت کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دوڑ کر اس کی طرف لپکا
’’ ابھی بھی میرے پاس پہنچنے کی کوشش کر رہے ہو۔۔‘‘ اس کے لبوں میں شاطرانہ ہنسی تھی
’’جھوٹی! کیوں کیا تم نے یہ سب کچھ ۔۔ کیوں؟‘‘وہ سلاخوں کو مضبوطی س بھینچ رہا تھا۔ بس نہیں چل رہا تھا ورنہ آگے ہاتھ بڑھا کر اس کا گلا دبا دیتا
’’اوہ۔۔ اتنا غصہ۔۔لیکن اس غصے کو اپنے قابو میں رکھو۔۔ کام آئے گا تمہارے۔۔‘‘ استہزائیہ اندازمیں کہتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو تھپتھپایا
’’ مجھے چھونے کی کوشش بھی مت کرنا ناپاک عورت۔۔‘‘اس کے ہاتھ جھٹک کر پیچھے کئے۔اور ا س کے کردار کو نشانہ بنایاجسے عنایہ بالکل برداشت نہ کر سکی
’’ بی ہیو یور سیلف۔۔مجھ پر الزام لگانے سے پہلے یہ سوچ لیناکہ تم بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہو۔۔ ابھی تو صرف دو شنوائی ہوئی ہے اور تمہاری یہ حالت ہے ، تیسری میں کیا حال ہوگا تمہارا؟‘‘وہ تمسخرانہ ہنس رہی تھی
’’مجھے اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے۔۔ سمجھی تم۔۔ وہ مجھے بے گناہ ثابت کر کے رہے گی۔۔‘‘جبڑے بھینچتے ہوئے کہا
’’اچھا! لیکن کیسے ؟‘‘ اس نے استفہامیہ انداز میں ضرغام کی طرف دیکھا
’’ اور ویسے بھی ثابت تو تب کرے گی ناں۔۔ جب اسے خود یقین ہوگا کہ تم بے گناہ ہو۔ بے چاری دوشنوائی میں تو دو بو ل بول نہیں پائی۔ تمہیں بے گناہ ثابت کر ے گی۔۔ ہنہ۔۔‘‘ کندھے جھٹکتے ہوئے اس نے ایک ادا سے ضرغام کی طرف دیکھا
’’سچ ڈگمگاتا ضرور ہے مگر چھپتا نہیں اور جس دن یہ سچ سامنے آگیا ناں۔۔‘‘ وہ جھلاتے ہوئے کہہ رہا تھا مگر عنایہ نے اس کی بات مکمل ہی نہیں ہونے دی
’’لیکن اگر اس ڈگمگاتے ہوئے سچ کو ہی ختم کر دیا جائے تو۔۔‘‘ اس نے معنی خیز لیجے میں اپنے لبوں کو گول کیا تھا
’’ کیا مطلب ہے۔۔۔؟‘‘ ضرغام کے دل میں کھٹکا ہوا تھا
’’مطلب یہ کہ اگر اس امید کو ہی توڑ دیا جائے ۔۔۔‘‘ اس نے معنی خیز نگاہوں سے ضرغام کے چہرے کو ٹٹولا
’’جسٹ شیٹ اپ۔۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔۔‘‘وہ جھلایا
’’ آواز مدھم۔۔۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو میں کیا کر سکتی ہوں۔تمہارے پاس تین راستے ہیں۔پہلا راستہ : اپنا جرم مان لو اور کیس کو ختم کرو۔۔‘‘سیدے ہاتھ کی پہلی انگلی کھڑی کرتے ہوئے کہا
’’ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا
’’دوسرا راستہ:جو ہوتا ہے ہونے دو اور پھر انجام کے ذمہ دار تم خود ہونگے۔۔۔‘‘ اپنی دوسری انگلی کھڑی کرتے ہوئے
’’تیسرا اور آخری راستہ:میں اپنا کیس واپس لے لیتی ہوں اور بھری عدالت میں تم سے معافی بھی مانگ لونگی مگر تمہیں وہ کرنا ہوگا جو میں کہتی ہوں۔ اُس کام کو پورا کرنا ہوگا جو ادھورا رہ گیا تھا۔۔‘‘ تینوں انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ کیا
’’ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔ جس کام کی طرف تم مجھے بلا رہی ہو اس سے بہتر میں اس جیل میں سڑنا پسند کرونگا۔۔‘‘اس نے سپاٹ لہجے میں کہہ دیا۔
’’مرضی ہے تمہاری۔۔۔ میرا کام تھا تمہیں بتانا۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے واپس پلٹی
’’اور ہاں۔۔ تمہاری بیوی اکیلی رہتی ہے اور اس شہر میں کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔۔‘‘ معنی خیز لہجے میں کہہ کر چل دی
’’ عنایہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ بس چلاتا رہ گیا۔ آنکھوں سے اس کادکھ واضح ہو رہا تھا۔اشکوں کی صورت میں بہہ رہا تھا۔ عنایہ کے جملے اس کے دل و دماغ میں بار بار دستک دے رہے تھے۔
’’میں اپنا کیس واپس لے لیتی ہوں اور بھری عدالت میں تم سے معافی بھی مانگ لونگی مگر تمہیں وہ کرنا ہوگا جو میں کہتی ہوں۔ اُس کام کو پورا کرنا ہوگا جو ادھورا رہ گیا تھا۔‘‘
’’ تمہاری بیوی اکیلی رہتی ہے اور اس شہر میں کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ زمین بوس ہوتا گیا۔
’’ اے خدا ! مدد کر۔۔‘‘ اس نے سچے دل سے اپنے رب کو پکارا تھا۔ ذہن میں سورہ یوسف تھی
’’اے خدا! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہے اور اگر تو ان کے مکر کو مجھ سے نہ پھیرے گا تو میں اس کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور میں نادانوں میں ہوجاؤں گا‘‘
وہ بھی اپنے رب سے دعا کرنے لگااور اس کام سے پناہ مانگنے لگا جس کی دعوت وہ دے کر گئی تھی
’’اللہ ! تُو تو جانتا ہے کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ؟کون حق پر ہے کون گمراہی کے راستے پر گامزن۔ کون اپنے کردار کو سینت رہا ہے اور کون اپنے کردار کو سر عام نیلام کر رہا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ میں پاک باز ہوں۔ میں تو گناہگار ہوں۔ ایسا گناہگار جس نے آج تک کبھی تجھے دل سے نہیں پکارا۔ ہمیشہ مطلب کے ساتھ تیرا نام لیا اور آج بھی جب خود پر بن آئی تو تجھے مطلب کے ساتھ پکار رہا ہوں لیکن اے میرے خدا! اگر آج بھی میں تجھے نہ پکاروں توپھر کسے پکاروں؟کس سے مدد مانگوں ؟ کس کی پناہ میں آؤں؟اے خدایا!تو نے ہمیشہ مجھ سے گناہ کو دور رکھا مگر میں اچھل اچھل کر گناہ کی طرف لپکتا رہا۔تو مجھے بچاتا رہا اور میں تیری رحمت کا دامن چھوڑ چھوڑ کر گناہ کی طرف مائل ہوتا رہا۔مگر تُو نے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا ۔ تُو نے ہمیشہ اپنے اس بندے کی مدد کی۔ہمیشہ گناہوں کے دلدل سے اپنے اس بندے کو بچایا۔اے میرے خدایا! آج ایک بار پھر میں گناہوں سے گھر چکا ہوں۔ چاروں اور گناہ ہیں۔مجھے ان گناہوں سے بچا لے۔اس راستے سے بچالے جس پر چلنے سے کبھی فلاح نہیں ملتی۔جس پر چلنے سے ہمیشہ ہمیشہ کی گمراہی مقدر بنتی ہے۔ ایسے راستے سے بچا لے۔میرا دامن اگرچہ گناہوں کے غبار سے آلودہ ہے لیکن اے خدا! تُو تو جانتا ہے میں نے اپنا دامن کبھی اس گناہ سے داغدار نہیں کیا۔کبھی اپنے کردار پر بہتان نہیں باندھا ۔ آج میرے کردار پر انگلی اٹھائی گئی ہے۔ میری عزت کو مجروع کیا گیا ہے ۔ اے خدا! عزت چاہے عورت کی ہو یا مرد کی ہوتی تو ایک نعمت ہے۔ آج یہ نعمت مجھ سے چھینی جا رہی ہے ۔ اے خدا ! اس نعمت کو چھننے سے بچا لے۔ میری پاکدامنی کو تو اپنی رحمت سے ثابت کر دے۔۔ ثابت کردے۔۔‘‘
* * * *
’’دیکھیے مس وجیہہ اگر آپ کے پاس کوثبوت ہیں تو پیش کریں۔۔ ورنہ عدالت کو وقت ضائع مت کریں۔۔‘‘جج صاحب نے برہم ہو کر کہا تھا۔ پچھلے تین شنوائیوں سے مسلسل وہ مہلت پر مہلت مانگے جا رہی تھی۔جو بھی سوچتی ہمیشہ الٹ ہوجاتا۔ جو دلیل دیتی پروسیکیوٹر اس کو رد کر دیتی اور باتوں کے جا ل میں ایسی پھانستی کہ وجیہہ لاجواب ہوجاتی۔ آج بھی وہ کچھ وقت کے لئے مہلت مانگ رہی تھی۔
’’جج صاحب ! میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے صرف چند دنوں کی مزید مہلت دی جائے۔انشاء اللہ میں اگلی شنوائی میں میں آپ کے سامنے ثابت کردونگی کہ جو الزام میرے شوہر۔۔۔ سوری میرے موکل پر لگا ہے وہ صرف اور صرف بے بنیا د ہے۔‘‘ اس نے پورے وثوق سے کہا تھا
’’ یور آنر! میری ساتھی صرف اور صرف عدالت کا وقت ضائع کر رہی ہیں اور کچھ نہیں۔ ان کے پاس نہ ہی آج ثبوت ہیں اور نہ ہی کل ثبوت ہونگے اور نہ ہی کبھی ہو سکتے ہیں کیونکہ جو سچ تھا وہ تو میں پچھلے تین ماہ سے آپ کو بتا رہی ہوں۔۔‘‘
’’ وہ سچ نہیں ہے۔۔‘‘ وجیہہ نے جھلا کر کہا
’’وہی سچ ہے ۔ اگر آپ کے موکل سچے ہوتے تو آپ اب تک کوئی نہ کوئی ثبوت عدالت میں دے چکی ہوتیں مگر یورآنر ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ ہی انہوں نے کوئی ثبوت دیا اور نہ ہی کوئی ایسی دلیل ہمارے سامنے رکھی جس کی بنیاد پر انہیں اگلی شنوائی کے لئے وقت دیا جائے۔‘‘وہ برق رفتاری سے بولتی جا رہی تھی۔کمرہ عدالت میں ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔صرف پروسیکیوٹر کی آوازگونج رہی تھی۔ وجیہہ نے کچھ بولنا چاہا مگر درد کی ایک لہر اس کے جسم میں سرایت کر گئی۔ وہ اپنا ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ کر کرسی کے سہارے کھڑی تھی۔ زبان مسلسل خشک ہوتی جا رہی تھی۔اس نے لبوں کو بھینچ کر درد کو چھپانا چاہا مگر درد کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا
’’بتائیں مس وجیہہ ضرغام عباسی۔۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے جس کی بنیاد پر آپ اگلی تاریخ کی استدعا کر ہی ہیں؟‘‘وہ عقابی نظروں کے ساتھ وجیہہ سے مخاطب تھی
’’دیکھیے۔۔۔‘‘ اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔ ضرغام کی نظریں وجیہہ کی طرف تھیں۔ وہ اس کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’مم میں۔۔۔‘‘ اس کے لب لڑکھڑانے لگے تھے۔
’’ میں نے جو پوچھا ہے آپ صرف وہی جواب دیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟‘‘ وہ کراخت لہجے میں پوچھ رہی تھی
’’مم مم۔۔۔‘‘درد کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ مزید چھپا نہیں سکتی تھی۔ آگے بڑھنا چاہا تو قدم لڑکھڑا گئے۔
’’ وجیہہ۔۔۔‘‘ ضرغام نے آگے بڑھ کر وجیہہ کو سنبھالنا چاہا مگر اسے روک دیا گیا اور وہ صرف مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
’’ وجیہہ سنبھالو اپنے آپ کو۔۔‘‘ پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔وجیہہ نے ایک نظر ضرغام کی طرف دیکھا جو اس کے لئے فکر مند ہورہا تھا۔ دل چاہا کہ ابھی اس کے پاس جا کر اس کی بانہوں میں سانس لے۔ اپنا غم ہلکا کرے مگر وہ ایسا نہ کرسکی۔ اس کے پیچھے بیٹھی اس کی کولیگ نے وجیہہ کو شانوں سے پکڑ کر بٹھایا اور پانی پلایا
’’آپ ٹھیک تو ہیں مِس وجیہہ؟‘‘جج صاحب نے پوچھا تھا۔ پروسیکیوٹر بھی یک ٹک اسے دیکھتی جا رہی تھی
’’ دیکھیے۔۔ جج صاحب۔۔ میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔پلز یہ شنوئی روک دیں اور مجھے اس کے پاس جانے دیں۔۔‘‘ضرغام نے ہاتھ جوڑ کرجج صاحب سے درخواست کی تھی
’’ دیکھیے۔۔۔ آپ کو اُن کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن جہاں تک شنوائی کا تعلق ہے ۔ یہ شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کی جاتی ہے۔‘‘
’’ پلز جج صاحب۔۔ بس ایک بار ۔۔ مجھے اپنی بیوی کے پاس جانے دیں۔۔ پلز ایک بار۔۔۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کر رہا تھا۔ وجیہہ درد سے مسلسل کراہتی جا رہی تھی۔
’’ پلز جج صاحب! بس ایک بار مجھے وجیہہ کے پاس جانے کی اجازت دے دیں‘‘قسمت نے ضرغام کو کیسے دوراہے پر لاکھڑا کیا کہہ وہ کسی اور کے آگے منت سماجت کر رہا تھا اور وہ ابھی اس عورت کے لئے جسے پہلے وہ ناپسند کرتا تھا مگر نہ جانے کیوں اب وہی عورت اس کے لئے دل و جان سے بڑھ کر ہوچکی تھی۔اس کی آنکھوں سے خود بخود اشک بہنے لگ گئے تھے۔ وجیہہ کے کراہنے کی آواز اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔جج صاحب نے ایک نظر ضرغام کی حالت پر ڈالی تو دوسری نظر وجیہہ کی حالت پر۔ دونوں کی حالت میں زیادہ فرق نہ تھا۔ وجیہہ درد سے کراہ رہی تھی اور ضرغام وجیہہ کو درد میں دیکھ کر۔ جب انسان کا دل صاف ہوتو لوگ بھی ان کے لئے نرمی کے احساسات رکھتے ہیں
’’ ٹھیک ہے۔۔ جب تک آپ کی بیوی کی حالت ٹھیک نہیں ہوجاتی آپ اُن کے ساتھ رہ سکتے ہیں مگر سکیورٹی کے طور پر آپ دونوں کے ساتھ پولیس کے دو آدمی رہیں گے۔۔‘‘ جج صاحب فیصلہ سنا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔یہ بات سن کر تو جیسے ضرغام کی آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی میں مزید اضافہ گیا۔ وہ انگلیوں کے پوروں سے آنسو پونچھتاہوا اٹھ کھڑا ہوااور آناً فاناً وجیہہ کے پاس گیا
’’ وجیہہ۔۔ ٹھیک تو ہو ناں تم؟‘‘اس کے چہرے کو تھپتھپایا جو درد کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوچکی تھی
’’ وجیہہ آنکھیں کھولو۔۔‘‘ پیار سے اس کا سر اپنے شانوں پر رکھا اور مسلسل اس کا چہرہ تھپتھپاتا رہا مگر وہ ہوش میں نہ آئی۔ایمولنس بھی دس منٹ میں وہاں پہنچ گئی۔ضرغام اپنی بانہوں نے اسے اٹھا کر ایمولنس تک لایا اور پورا راستہ اس کے ہاتھ پاؤں مسلتا رہا اور اسے ہوش میں لانے کی پوری کوشش کرتا رہا
’’دکھیے! میں نے پہلے بھی ان سے کہا تھا کہ یہ سٹریس مت لیں لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی اسی لئے یہ سب کچھ ہوا ہے۔‘‘وجیہہ کا چیک اپ کرنے کے بعد لیڈی ڈاکٹر ضرغام کے پاس آئی تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھا بے تابی سے ڈاکٹر کا ہی انتظار کر رہا تھا
’’وجیہہ ٹھیک تو ہے ناں۔۔کچھ ہوا تو نہیں۔۔۔‘‘ انہیں دیکھتے ہو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑ ا ہوا اور فکرمندانہ لہجے میں استفسارکیا۔
’’ دیکھیں! آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کمزوری ہے جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گی آپ کی بیوی۔ بس آپ ان کی خوراک کا خاص دھیان رکھا کریں۔ ایسے حالات میں خوراک میں ذرا سی بھی احتیاطی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔۔‘‘ایک پرچے پر وہ دوا تجویز کرنے لگیں
’’ ایسے حالات میں؟؟‘‘ ضرغام نے استفہامیہ انداز میں کہا تھا
’’جی بالکل! یہ وقت بچے اور ماں کے لئے انتہائی حساس ہوتا ہے۔ آپ کو ہی دونوں کا خیال رکھنا ہوگا‘‘
’’ بچے اور ماں؟ ‘‘ ایک بار پھر اس نے استفہامیہ انداز میں کہا۔ وہ ڈاکٹر کی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں پارہا تھا
’’جی بچے اور ماں۔۔آپ کی بیوی ماں بننے والی ہے اور اس لئے انہیں صرف وہی خوراک کھانی چاہئے جو نہ صرف ان کی صحت کے لئے بہتر ہو بلکہ آنے والے بچے کی لئے بھی بہتر ہو۔۔ ‘‘ تجویز کی گئی دوا کو ضرغام کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے مزید کہا
’’اور کوشش کیجیے انہیں ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھیں۔۔‘‘وہ مسلسل ضرغام کو نصیحت کرتی جا رہی تھی جبکہ وہ تو سن ہی نہیں پا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر یکدم بہار امڈ آئی تھی۔
’’ میں۔۔ باپ بننے والا ہوں۔۔‘‘خوشی سے آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے تھے۔ایک پل کے لئے وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔صرف ذہن میں جو بات گردش کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ وہ باپ بننے والا ہے
’’ میں مل سکتا ہوں۔۔‘‘ خوشی میں اس کے لب ہکلانے لگے تھے
’’ جی کیوں نہیں۔۔‘‘ یہ سن کر وہ دوڑتا ہوا وجیہہ کے پاس گیا۔ جو آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔دور سے ہی اس کا چہر ہ دیکھا تو اس کے قدم جواب دے گئے۔ وہ یک ٹک محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ خراماں خراماں قدموں سے وہ آگے بڑھا۔ اس کے چہرے کی طمانت کو دیکھ کر ایک پل کے لئے مسکرایا۔اور ہاتھ بڑھا کراس کے بالوں پر پھیرا ور اپنے لبوں کی چاشنی اس کی پیشانی پر نقش کی۔ لبوں کے مس ہونے کی دیر تھی کہ اس کی آنکھیں کھل گئیں۔سامنے ضرغام کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی۔چہرے پر ایک عجیب سی رعنائی تھی۔وہ یک ٹک اسے دیکھتا ہی جا رہا تھا۔
’’وجیہہ تم نہیں جانتی میں کتنا خوش ہوں۔ میں اپنی خوشی کو اپنے لفظوں میں بیاں نہیں کرسکتا۔تم نے مجھے میر ی زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔ اس کے لئے میں تمہارا ہمیشہ احسان مند رہوں گا۔۔‘‘وہ اس کا داہنا ہاتھ پکڑے آنکھوں کو لگائے ہوئے تھا۔ وہ اس کی آنکھوں برسات ، آنکھوں کی ٹھنڈک اپنی انگلیوں کے پوروں پر محسوس کرسکتی تھی۔وجیہہ نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کے شانوں کو پکڑا۔
’’ نہیں۔۔ ابھی آرام کرو۔۔‘‘وہ اس پر تقریباً جھکا ہوا تھا۔
’’ ضرغام۔۔‘‘ اس نے کچھ بولنے کے لئے ابھی لب ہی ہلائے تھے کہ اس نے اپنی انگلی اس کے لبوں پر رکھ دی
’’ نہیں۔۔ آج کچھ نہیں بولو گی تم۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ بس سنو گی۔جو میں کہوں گا۔ جو میں کہنا چاہتا ہوں تم وہی سنو گی۔میری باتوں کو ۔ میرے احساسات کو بس آج تم سنو گی۔۔‘‘آنکھوں میں رعنائی لئے وہ اس کی طرف دیکھا جا رہاتھا۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑیسا
’’ تم ہمیشہ مجھے سمجھاتی رہی کہ اس راستے پر نہ چلوں مگر میں تمہاری باتوں کو نظر انداز کر کے اسی راستے پر گامزن رہا۔ تم جانتی ہو ناں میں ایسا کیوں کر رہا تھا ؟ مجھے منزل چاہئے تھی۔ ایسی منزل جس پر عروج کو بھی دوام حاصل ہو۔جس کے بعد کوئی مقا م نہ ہو۔ جس پر میرے علاوہ کسی اور کا کوئی حق نہ ہو۔لیکن جانتی میں وہ منزل نہیں پاسکا۔صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔تمہاری وجہ سے میں اس منزل پر پہنچ ہی نہیں سکا۔‘‘ضرغام کی باتوں پر اسے ایک کرنٹ لگا تھا
’’تم نے مجھے اس منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ایک نئی منزل کی طرف گامزن کر دیا۔پہلے میں تمہیں کوستا تھا کہ تم کیوں آئی میری زندگی میں؟ کیوں میری زندگی کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہو؟کیوں میرے راستے کا کانٹا بن رہی ہو؟ اور اس لئے میں نے ہمیشہ تم نے بے اعتنائی برتی۔ ہمیشہ تم سے دور رہنے کی کوشش کی لیکن وجیہہ میں یہ نہیں کرسکا۔ ‘‘ اس نے شکست خوردہ انسان کی طرح سرد آہ بھرتے ہوئے کہا تھا
’’ کیوں؟‘‘
’’ پتا نہیں کیوں؟ میں خود نہیں جانتا کہ میں تم سے کیوں دور نہ رہ سکا۔ جب جب میں تم سے دور جانے کی کوشش کرتا تب تب ایک انجانی سے طاقت مجھے تمہاری طرف کھنچتی۔ تمہارے خیال میرے ذہن پر محو رقص ہوتے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی تمہیں سوچنے پر مجبور ہوجاتا۔تم جاتی ہو ایسے کرنے سے مجھے بہت غصہ آتا۔ د ل چاہتا کہ تم پر اپنا غصہ اتاروں کہ آخر کیوں تم مجھ پر اتنا حاوی رہتی ہو لیکن میں ایسا بھی نہیں کرسکا۔ جب جب میں تمہارے چہرے کو دیکھتا میرا دل پگھلنا شروع ہوجاتا ۔ میرے لب میرا ساتھ چھوڑ دیتے۔ میرے الفاظ بدل جاتے۔ میں کہنا کچھ چاہتا تھا اور کہتا کچھ تھا۔اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا ۔۔۔‘‘اس نے ایک لمحے کے لئے گہرا سانس لیا۔ وہ اس کی باتوں کو بڑے دھیان سے سن رہی تھی
’’میرے دل میں تمہارا وجود خوبخوو اپنی جگہ بنانے لگا۔ضرغام عباسی جس کے نزدیک صرف اپنی ذات اہمیت رکھتی تھی نہ جانے کیوں تمہارے بارے میں سوچنے لگا۔جس کا مقصد صرف اور صرف عروج تھا، تمہاری خاطر پستی میں اترنے کے لئے بھی تیار ہوگیا۔تم جانتی ہو وجیہہ۔۔۔‘‘ اس نے پیار سے اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان کیااور پوری توجہ سے اس سے مخاطب ہوا
’’تمہاری وجہ سے ہی میں نیکی اور بدی میں فرق کر پایا۔ تمہاری وجہ سے ہی خیر و شر کے درمیاں میں تمیز کر پایا۔تمہاری بدولت ہی میں نے نیکی کی روشنی کو محسوس کیا۔ نیکی کی چاشنی کو محسوس کیا۔اور تم جانتی ہوآج تمہاری وجہ سے ہی میں اپنے دامن کو بچانے میں کامیاب ہوسکا۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اگر تم میری زندگی میں نہیں آتی تو آج میں اپنا دامن میلا کر چکا ہوتا۔اپنے دامن کو داغدار کر چکا ہوتا۔ان لوگوں کی صفوں میں کھڑا ہوچکا ہوتا جن کے لئے خدا نے عذاب کی وعید سنائی ہے لیکن تمہاری عبادت ، تمہاری ریاضت ، تمہاری دعائیں مجھے جہنم کے گڑھے سے نکال لائیں۔ آج تمہاری دعاؤں کی بدولت ہی میں تمہارے سامنے اپنا دامن بچائے کھڑا ہوں۔مجھے اس بات کا غم نہیں کہ لوگ میرے اوپر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ میرے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے۔مجھے خوشی تو اس بات کی ہے کہ میرے رب نے مجھے گناہ عظیم سے بچا لیا۔ میرے دامن کو پاک رکھا۔برسوں پہلے حضرت یوسف نے گناہ پر قید کو ترجیح دی تھی ۔ آج میں بھی ابدی رسوائی پر ظاہری رسوائی کو ترجیح دیتا ہوں۔ جس طرح میرے رب نے یوسف کی پاکدامنی ثابت کی تھی ۔ مجھے بھی یقین ہے کہ وہی رب میری بھی پاکدامنی کوثابت کرے گا۔۔‘‘اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے مگر ان آنسوؤں میں بھی ایک امید تھی۔ ایک آس تھی جسے وہ بآسانی دیکھ سکتی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے ضرغام کی آنکھوں سے آنسو صاف کئے
’’ ایک طر ف رب پر بھروسہ کرتے ہیں آپ تو دوسری طرف آنسو بھی بہاتے ہیں۔۔۔!!‘‘
’’یہ آنسو شکوہ شکایت کے نہیں بلکہ خوشی کے آنسو ہیں کہ اس نے مجھ جیسے گناہگار انسان کو بھی اپنی اس نعمت سے نوازا۔۔‘‘
’’ وہ تو ہمیشہ نوازتا ہے بس ہم ہی نہیں سمجھ سکتے۔۔ہماری ہی عقل اس کی نعمت کو شمار نہیں کر سکتی۔۔‘‘ وجیہہ کی اس بات پر اس نے اثبات میں سرہلادیا
’’بس اب دیکھنا!ایک بار یہ امتحان ٹل جائے پھرہم خود اپنی دنیا بسائیں گے۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
’’انشاء اللہ جلد ٹل جائے گا۔۔‘‘ ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی تو ضرغام نے سہارا دے کر اسے بٹھایا
’’آپ کی ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔۔‘‘ ایک حوالدار باہر سے آیا اور گرج دار آواز میں کہا
’’اچھا۔۔۔‘‘اس کے چہرے پر ہلکا ساتاسف چھا گیا
ؔ ’’ تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔۔‘‘ یہ کہہ کر باہر چلا گیا
’’اب پتا نہیں کب ملاقات ہو۔۔‘‘ اس کے لہجے میں تاسف چھایا ہوا تھا
’’دیکھنا جلد ہی یہ امتحان ختم ہوجائے گا۔ اس کے خزانے میں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں۔۔۔‘‘وجیہہ نے حوصلہ دیا
’’بس یہی امید ہے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا
’’اپنا خیال رکھنا۔۔۔‘‘جھک کر اس کے ماتھے کو چوما
’’آپ بھی۔۔۔‘‘ جیسے ہی وہ پلٹا تو وجیہہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پہلی بار ایک عجیب سی کشمکش میں اس کا وجو د الجھا ہوا تھا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے وجود سے علیحدہ کیااور باہر کی طرف بڑھنے لگا مگر دل بار بار پلٹنے کو چاہ رہا تھا۔اور آخر دل کی سن لی اور وہ پلٹ کر ا س کے پاس آگیا
’’ آج کے بعد اس کو مت اتارنا۔۔‘‘اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ صرف ایک قربانی نے ضرغام کے دل پر اتنا اثر کیا تھا اور آج وہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کے سر کو عزت کی چادر سے ڈھانپ رہا تھا۔ پہلے تو وہ صرف ایک کپڑا اوڑھتی تھی مگر آج اس کے سر پر اس کی عزت تھی۔ اسکا مان تھا جو اس کے شوہر نے خود اس کے سر پر رکھا تھا۔
’’ضرغام۔۔۔‘‘پیار سے اس نے ضرغام کے ہاتھوں کو چوم لیا مگر وہ اب نہیں رک سکتا تھا اور رکتا تو شاید خود بھی اپنے جذبات پر وقابو کھو بیٹھتا اسی لئے چل پڑا
’’ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دونگی۔۔‘‘جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچا تو اس نے زیر لب کہاتھا مگر جب دل جڑ جائیں تو درمیاں کی ہر رکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔اس کے لفظ اس کے کانوں رس گھولنے لگے۔ اس نے پلٹ کر ایک نرم گرم نگاہ اس کے وجود پر ڈالی تھی
’’یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔‘‘
’’ مجھے یقین ہے تم پر۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ چلاگیا۔ پل بھر میں جو خوشی ملی تھی ۔ ہوا کے جھونکے کی مانند ثابت ہوئیں ۔ آئی اور چلی گئیں۔
’’پہلے تو میں صرف ایک ماں سے کیا گیا وعدہ نبھا رہی تھی مگر اب عدالت میں ایک بیوی آئے گی جو اپنے شوہر کی بے گناہی کو ثابت کرے گی۔‘‘ اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 98793 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More