برمی مسلمان اور بے حس امت مسلمہ

ظہیرالدین بابر نے 1526ء میں جب مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تو دو سال کے قلیل عرصے میں برما میں اسلام کا پرچم لہراگیا۔ مغلیہ سلطنت کی حدیں ویت نام کے ساحلوں تک جا پہنچی۔ کم و بیش 150سال برما مغلوں کے زیر سلطنت رہا ۔ برٹش انڈیا کمپنی نے 1600 میں اسی خطے میں قدم رکھا اور 1773ء تک بنگال پر قبضہ کرلیا اور پھر 1824ء میں برما بھی برٹش حکومت کے تسلط میں چلا گیااور 124سال برما برٹش حکومت کے زیر تسلط رہا۔ انگریز کے تسلط کے دوران مسلمان برماسے ہندوستان ہجرت کرتے رہے اور برما میں بدھ مت کی تعداد بڑھنے لگی اور مسلمان کم ہوتے گئے اور بالآخر 4جنوری 1948ء کو انگریز حکومت برما بھی بدھ مت کے حوالے کردیا تقسیم کے وقت انگریز کا فارمولہ یہ تھا کہ جہاں جس مذہب کی اکثریت ہوگی وہ علاقہ ان ہی کے حوالے کیاجائیگا یوں برما میں پہلا بدھ مت کا پیروکار حکمران بنا۔ برما کے شرق میں چائنہ، شمال میں لاؤس اور تھائی لینڈ جنوب میں بنگلہ دیش اور مغرب میں اسکی سرحدیں بحر ہند سے ٹکراتی ہیں۔ برما کی کل آبادی 7کروڑ ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد 30لاکھ کے قریب ہے۔ پوری دنیا میں ویسے تو کئی ملکوں جن میں اسرائیل، شام، عراق، افغانستان ، چیچنیا، صومالیہ، ہندوستان اور دیگر ممالک میں مسلمان زیر عتاب ہیں لیکن جو حال برما کے بت پرست روہنگیا مسلمانوں کا کررہے ہیں اس کی مثال تو شاید چنگیز خان ، ہلاکوخان کے بربیت کے دور میں بھی نہیں ملتی۔ مسلمانوں کو زندہ جلایاجارہاہے۔ انہیں لاٹھیوں، پتھروں، لاتوں، گھونسوں سے مار مار کر زخی و ہلاک کرنا معمول بن چکاہے۔ ان کے اعضا کاٹ کر کھایا جارہاہے۔ جو مسلمان کشتیوں کے ذریعے فرار کی کوشش کرتے ہیں انہیں بھی برمی فوج گولیوں کا نشانہ بناتی ہے ۔ لاشیں پانی میں تیرتی ہوئی جنگلوں ، بازاروں، میدانوں میں بے یار و فکن، ننگ دھڑنگ نظر آتی ہیں۔ بچوں تک کے سر قلم کئے جارہے ہیں لیکن مہذب دنیا انسانیت کا رونا پیٹنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے وہ مہذب دنیا جنہوں نے طالبانوں کے ہاتھوں کابل کے قریب قبل مسیح کے پہاڑ میں موجود بت کے منہدم کرنے پر تو بڑا واویلا کیا ، شور مچایا لیکن انہیں برمی فوج، حکومت، عوام کی سفاکی ، بربریت نظر نہیں آتی۔ انہیں کیا نظر آئے گی سوائے ترکی کے کوئی اسلام ملک مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے صرف مالدیپ جیسے چھوٹے ملک نے تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے لیکن ہمیں واحد ایٹمی طاقت پاکستان اور 29ممالک کی اسلامی فوج کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ معلوم ایسا ہوتاہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بے غیرتی کا گھونٹ پی رکھاہے۔ اس وقت تک 30ہزار مسلمان برما میں شہید کئے جاچکے ہیں گذشتہ دو عشروں میں شہید کئے جانے والے مسلمانوں کی تعداد 3ہزار کے قریب ہے۔ برما کا سب سے بڑا صوبہ ارکان مسلمانوں کیلئے جہنم بنا ہواہے۔ تاریخ کے بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیاجارہاہے لیکن تمام مسلمان ممالک خصوصا پاکستان ، سعودی عرب صرف رسمی کارروائی کرنے تک کوتیار نہیں ہیں اگر ہم برمی مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم سفارتی اور تجارتی تعلقات تو ختم کرسکتے ہیں۔ لیکن ہماری امت مسلمہ کے حکمران اپنی عیاشیوں اور دنیاوی لذتوں میں کھوکر یہ بھول بیٹھے ہیں کہ انہوں نے آخر ایک دن مرناہے اگر اب بھی جہاد ہم پر فرض نہیں ہے تو کب ہوگا؟ مسلمانوں کو تو اﷲ نے ایک جسم کی مانند قرار دیاہے۔ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد میں مبتلا ہوتا ہے لیکن برما کے مسلمان تو تکلیف میں ہیں لیکن ہم بے حس بنے ہوئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ واجد پر جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا ان کے ملک میں جب لٹے پٹے برمی مسلمان داخل ہوتے ہیں تو انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے۔ پانی کے راستے آنے والوں کی ٹوٹی پھوٹی کشتیوں کو واپس سمندر میں دھکیل دیاجاتاہے۔ جس کے باعث سینکڑوں مسلمان ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں لیکن بنگلہ دیش کی بھارت نواز حسینہ واجد مسلمانوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی عوام اپنی حکومت اور برمی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں برما کی یہ خوش قسمتی سمجھیں کہ اسکی سرحدیں پاکستان کے ساتھ نہیں لگتیں اگر ایسا ہوتا تو اب تک ہزاروں مجاہدین وہاں جہاد کی غرض سے جاچکے ہوتے۔ انہیں کسی حکومت کی اجازت، اسلحہ کی ضرورت نہ ہوتی بدست آتش و زور ،بدبخت نے مسلمانوں کو زندہ دفن کرنے ، جلانے، قتل کرنے اور جانوروں کی زبح کرنے کا ظالمانہ حکم دیا ہے ، کو برمی حکومت، فوج کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ برمی حکومت بدھسٹ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اپنے نجومیوں کی اس پیشنگوئی سے خائف نظر آتے ہیں کہ ایک دن مسلمانوں کی آبادی برما میں بدھ مت کے پیروکاروں سے بڑھ جائے گی اسلئے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور نو مسلموں کے اسلام قبول کرنے کی بڑھتی ہوئی شرح سے تو یہو دو نصاری بھی خائف ہیں وہ خاندانی منصوبہ بندی، مسلمان ملکوں میں اندرونی انتشار، باہمی جنگ و جدل ، فرقہ واریت و دیگر طریقوں سے مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پہ ہیں ان کی اس کوشش میں ہمارے حکمران ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن نسل کشی کیلئے جو ظلم و بربریت برما کے مسلمانوں پر جاری ہے اس کی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی۔ برما ایک چھوٹا سا ملک ہے اسکے مقابلے میں پونے دو ارب مسلمان جس طرح چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں وہ اﷲ کے غیض و غضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔ 29 ملکوں کی اسلامی فوج کس کام کی؟ اس کے بنانے کا مقصد کیا ؟ پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت اور دنیا کے 250ممالک میں 15ویں بڑی فوجی قوت ہے کے ذمہ دار کیا کررہے ہیں؟ آخر ہم کب ہوش میں آئیں گے؟ کب ہماری غیرت ایمانی جاگے گی؟ اب کہیں جاکر OICجیسی مسلمانوں کی غیر فعال، غیر متحرک تنظیم نے اجلاس اس مسئلے پر طلب کیا ہے دیکھیں اسکا کیا نتیجہ برآمد ہوتاہے؟ سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز، تصاویر نے ہر حساس، درد دل رکھنے والے مسلمان انسان کو رلایاہے۔ وہ برمی مظلوم مسلمانوں کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن کیسے اسکا فیصلہ حکمرانوں اور علمائے کرام نے کرنا ہے کہ برما کے مسلمانوں کی مدد کیسے کی جائے؟ صرف مظاہروں، دھرنوں، بیانات، دفتر خارجہ کے احتجاج، قراردادوں سے کام نہیں چلے گااس سلسلے میں ہمیں اپنے ماضی کے حکمرانوں کی کوتاہیوں اور عیاشیوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ ایک ہزار سال تک ہندوستان اور 150سال تک برماپر مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے دعوت و تبلیغ کی اہم ذمہ داری کو پورانہ کیا صرف اپنے دور حکومت، سرحدوں کو دوام دینے اور مال اکھٹا کرنے میں لگے رہے۔ ہندوؤں سے شادیاں کیں، شراب و کباب میں اکثر حکمران مبتلا رہے، دین الہی کے ساتھ ساتھ کئی بدعات، رسومات شروع کیں جو آج تک ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اگر کلمہ کا پیغام کافروں تک پہنچایا ہوتا تو ہندوستان، برما میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی۔ علماء کرام کے بقول اگر کہیں سو فیصد دین زندہ ہے لیکن وہاں دین کی محنت کسی بھی اجتماعی صورت میں نہیں ہورہی ہوتی تو ایک دن وہاں دین ختم ہوجائیگا۔ جبکہ اگر کہیں سو فیصد دین نہ ہو اور دین کی اجتماعی تبلیغ کی محنت شروع رہے تو ایک دن آئے گا جب سو فیصد دین زندہ ہوگا۔ ہمارے حکمرانو ں نے اس اہم فریضہ دین کی طرف توجہ نہ دے کر جہاں ایک طرف کروڑوں لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنادیا وہاں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ بھی اقلیت میں ہونے کے باعث زیادتی کی۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.