چکوال میں بڑھتے ہوئے جرائم

ایک طرف ہم برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ مظالم کون کرا رہا ہے۔ وہ تو غیر مسلم ہیں جو بدھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ برما میں اسلام کے پھیلاؤ کو برداشت نہیں کر رہے مگر ہمارے یہاں چکوال میں کیا ہو رہا ہے۔ کلمہ گو مسلمان، مسلمان کو اپنا پیشاب پلا رہا ہے اور پھر اُسی کو فیس بُک پر بھی اپ لوڈ کر رہا ہے۔ یہاں قتل و غارت کا ایک طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ میرے اپنے گاؤں تھنیل فتوحی میں چند ماہ کے اندر 3 قتل ہو چکے ہیں۔ ابھی چند دنوں میں مکھیال میں کرکٹ میچ پر 2 نوجوان بچوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ انہی دنوں میں تلہ گنگ میں پولیس کی موجودگی میں 2 بھائیوں کو بے دردی سے دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور ستم ظریفی یہ کہ اُن پر خنجر بھی چلائے گئے مگر ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ملزمان کو پولیس نہ بچا سکی شاید اُن کا اسلحہ یہاں پر کارگر نہیں تھا۔ اس کے علاوہ چوری، ڈکیتی، راہزنی، منشیات فروشی، شراب فروشی، جگہ جگہ فحاشی کے اڈے یہ ایک الگ ضلع کی داستان پیش کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے ڈی پی او چکوال محمد ہارون جوئیہ سے گفتگو کا وقت لیا اور جب میں اُن کے دفتر میں پہنچا تو وہاں ڈپٹی کمشنر چکوال ڈاکٹر عمر جہانگیر محرم الحرام کے حوالے سے اُن سے میٹنگ کر رہے تھے اور میری موجودگی میں کافی سارے سائل ڈی پی او چکوال کے پاس آئے اور اُن کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں سن بھی رہے تھے اور اُس پر فوری احکامات بھی دے رہے تھے۔ میں نے گفتگو کا آغاز چکوال میں بڑھتے ہوئے جرائم سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ معاشرے میں عدم برداشت کا پہلو نمایاں ہو چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور پھر بات بہت آگے نکل جاتی ہے۔ تعلیم کا نہ ہونا، آپس میں پُرانی دُشمنیوں کو دل سے نہ نکالنا بھی ایک بہت بڑی وجہ بنتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے موٹر سائیکل اور گاڑی چوری کی وارداتوں میں خاصی کمی آئی ہے اور اس پر ہماری منصوبہ بندی خاصی کامیاب رہی ہے۔ جب میں نے سوال کیا کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ اسلحے کی نمائش کے ساتھ ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں اُن کے خلاف کیا کاروائی ہوئی ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس پر کام کر رہے ہیں اور اس پر کچھ لوگوں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے اور آپ کو آنے والے دنوں میں مزید اچھی کارکردگی نظر آئے گی۔ میں نے پوچھا کہ ہر شادی بیاہ پر اسلحے کی بھرپور نمائش ہوتی ہے اُس کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہماری عوام کو بھی ہم سے تعاون کرنا چاہئے۔ اب ہم نے ون فائیو کو بہت مؤثر بنا دیا ہے اور اُس پر فوری ایکشن کیا جاتا ہے۔ ہمیں فوراً آگاہ کرنا چاہئے اور ہم اس کا سختی سے نوٹس لیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ مختلف مساجد میں علمائے کرام فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں؟ کیا آپ کو رپورٹ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ایسے تمام علمائے کرام اور ذاکرین جن کے نام اس لسٹ میں موجود ہیں اُن کی سخت نگرانی کر رہے ہیں۔ میں نے تھنیل فتوحی عمر علی فاروقی قتل کیس کے حوالے سے سوال کیا کہ اس قتل سے پہلے دونوں فریقین نے تھانہ صدر میں درخواستیں جمع کرائی تھیں مگر پولیس ایک ہفتہ خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی بڑے حادثے کا انتظار کرتی رہی اور پھر ایسا ہی ہوا، اس پر آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس حوالے سے اے ایس آئی منیر سے تفتیش جاری ہے اور یقینا اس قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ میں نے سوال کیا کہ چکوال کے ہر گاؤں، گلی، محلے میں منشیات فروش اور شراب کے ڈیلر سرعام مکروہ دھندہ کر رہے ہیں اس پر آپ نے کیا کاروائی کی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی چند دن کی رپورٹ ملاحظہ کر لیں ہم نے سخت کاروائی کی ہے اور آپ ریکارڈ نکلوا لیں کہ اب تک کتنے 9-c کے پرچے دے چکے ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے قوانین کا ہے۔ ہم چھاپہ بھی مارتے ہیں ملزمان کو گرفتار بھی کرتے ہیں مگر پھر عدالت سے وہ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگ پیشہ ور ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا کیا مستقبل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر جگہ اچھے، بُرے لوگ موجود ہیں اور پولیس کا محکمہ ایک ایسا محکمہ ہے کہ جس کا سب سے زیادہ ٹرائل کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی پولیس کو بُرا کہتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ الزام لگانا بہت آسان ہے لیکن حقیقت کو جاننا بہت مشکل ہے۔ میں نے سوال کیا کہ متعلقہ تھانوں کو نہیں معلوم کہ کس کس کی دیرینہ دُشمنی چل رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ بالکل معلوم ہوتا ہے اور ہم اس حوالے سے مصالحت کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ پولیس کی موجودگی میں دن دیہاڑے قتل کر دئیے جاتے ہیں تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ اُس پر آپ کو میرا ایکشن بھی نظر آگیا ہو گا اور میں نے متعلقہ پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا اور اُن کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم بھی دیا۔ میں نے آخری سوال کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیوں نہیں ہو رہا، اسلحے کی بھرمار کیوں ہے، ناجائز اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ 8 ماہ میں 239 ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ عوام کو بھی ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہر جگہ پولیس اہلکار موجود نہیں ہوتے۔ عوام پولیس کے لئے آنکھیں اور کان کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور یقینا پولیس اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.