اردو زبان کا نفاذ ،ترقی وترویج

ہفتہ کے روز ہم پاک ٹی ہاؤس میں اپنے دوستوں کے ناول سننے کی ایک تقریب میں موجود تھے کہ پروگرام کے اختتام پر ہمیں ایک صاحب نے الحمرا میں ایک پروگرام کی دعوت دی اور ضرور آنے کی تاکیدبھی کی، دعوت نامہ دیکھا تو اس پر بڑے بڑے اور مشہور مقررنین خواتین و حضرات کے نام لکھے ہوئے تھے جن میں اوریا مقبول،ناصرہ جاوید اقبال اور دوسرے لوگ شامل تھے اور یہ پروگرام ـ"کل پاکستان نفاذاردو کانفرنسـ" سے متعلق تھا، یقیناً میری دلچسپی بڑھی اور میں نے آنے کا وعدہ کر لیا۔جس دن پروگرام تھا اس دن ہم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ الحمرا ہال میں پہنچ گئے جہاں یہ پروگرام یا سیمینار ہو رہا تھا ۔

پروگرام شروع ہو چکا تھا اور ایک ایک مقرر اپنے اپنے حصے کی تقریر کر کے اپنی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ جاتا،ان میں سے کچھ مقرر کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور کچھ تنقید برائے تنقید بھی کرتے رہے ،بہرحال ہر ایک نے اپنا اپنا مؤقف بیان کیا۔چلیں اب اصل موضوع کی جانب چلتے ہیں کہ پاکستان کو بنے ہوئے ستر سال کا ایک بہت بڑا عرصہ گذر چکا ہے اور ابھی تک پاکستانی اداروں میں اردو کا نفاذ نہیں ہو سکا اور ہم جبراً انگریزی زبان کو اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے ،سوچنا یہ چاہیئے کہ انگریزی زبان سے ابھی تک ہم کتنے سائنسدان پیدا کر سکے ہیں،کیونکہ ہمارے یہاں اردو بھی کسی کو صحیح طریقے سے نہیں آتی ، انگریزی تو دور کی بات ہے۔

ہمارے ہاں تعلیمی نظام اتنا خراب ہے کہ ایک بی اے یا ایم اے پاس بچہ انگریزی کا ایک پیرا بھی نہیں لکھ سکتا ،انگریزی سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے بھی انگریزی زبان پر پورا عبور نہیں رکھتے جب کہ ان کا ذریعہ تعلیم بھی انگریزی ہے، وجہ سب جانتے ہیں لیکن اس نظام کی بہتری کے لئے کوئی نہیں سوچتا، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب پاکستان بنا اسی وقت ملک میں اردو زبان کا نفاذ تمام سرکاری اداروں میں کر دیا جاتا اور ایک قانون بنا دیا جاتا کہ تمام سرکاری اور نجی ادارے اس کے پابند ہوں گے ۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا کہ ہمارے طلبا و طالبات اپنی زبان میں سائنس کو پڑھتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہو ان میں سے کئی سائینسدان بنتے جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے ، ترقی کرنے والے تمام ممالک اپنی اپنی زبانوں میں تعلیم دے رہے ہیں ، وہاں خوشحالی ہے اور ہم انگریزی زبان کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے ، انگریزی زبان پڑھ کر ہم نے کتنی ترقی کر لی ہے ، اگر ہمارا ایک بچہ ایف اے کی انگریزی میں فیل ہو جا تا ہے تو اس کی تعلیم یہی اختتام ہو جاتی ہے ، انگریزی کو آپ آپشنل مضمون کے طور پر تو لے سکتے ہیں لیکن اس کو لازمی قرار دینا درست نہیں ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ ہم طلبا و طالبات کو اپنی میٹھی بولی اردو میں تعلیم دیں اور اس کو تمام سرکاری اداروں میں نافذ کریں۔

انگریزی زبان سیکھنے کے لئے علیحدہ سے ٹرینگ سنٹر کا قیام لایا جا سکتا ہے۔جسے ضروت ہو وہ انگریزی زبان ضرور سیکھے ،انٹر نیشنل زبان ہونے کے ناطے اس کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن اس کو زبردستی پڑھانا بھی سمجھ سے باہر ہے۔یہاں تو انگریزی زبان سکھانے والوں کی اپنی انگریزی بھی درست نہیں ہوتی تو وہ دوسرے کو کیا انگریزی سکھائے گا،انگریزی سکھانے والوں کی ملک میں بھر مار ہے اور انہوں نے انگریزی سکھانے کے عوض ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں یہ بھی انگریزی سیکھنے والے کے ساتھ سراسر زیادتی ہے ،جس طرح گورنمنٹ نے فنی تعلیم کے لئے اداراے بنائے ہوئے ہیں اسی طرح انگریزی زبان کے بھی سنٹر بنائے جائیں تاکہ انگریزی سیکھنے والے کم فیس میں اچھی انگریزی سیکھ سکیں۔

اگر ہم اپنا تعلیمی نظام اردو میں کر دیں گے تو بہت سارے طالب علم جو انگریزی میں فیل ہو جانے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے تھے انہیں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا ،یقناً پھر ہمارے ہاں بھی اچھے سائنسدان ،اچھے وکیل،اساتذہ ،ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہوں گے۔جو ملک اپنی زبانوں میں تعلیم دے رہے ہیں وہ ترقی کی منزلیں بھی طے کر رہے ہیں اور ساری دنیا میں ان کا نام بھی ہو رہا ہے۔ہم اپنی زبان کی ترقی کے بارے میں سوچنے کی بجائے انگریزی اور اب چینی زبان پر فوکس کرنے لگے ہیں ، اب تعلیمی اداروں میں چینی زبان کو بھی نافذ کیا جا رہا ہے پہلے ہم انگریزی سے تنگ تھے اب چینی زبان سے بھی تنگ آ جائیں گے۔چینی زبان ان کو سیکھنی چاہیئے جن کی ضرورت ہے جن لوگوں نے چین کے ساتھ کاروبار یا ملازمت کرنی ہے وہ اس کو ضرور سکھیں لیکن سب پر اس کو مسلط کر دینا مناسب نہیں ہو گا۔

اردو زبان ایک میٹھی زبان ہے اس کی ترویج کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا ، اس سیمینار میں بھی اردو زبان کی ترویج اور سرکاری اداروں میں اس کے نفاذ کے لئے کام کرنے کے حوالے سے ہی عام لوگوں کو آگاہی دی گئی۔میں جناب عزیز آزاد صاحب جو ایک لکھاری بھی ہیں اور فاطمہ قمر صاحبہ کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ اردو زبان کی ترقی و ترویج اور سرکاری اداروں میں اس کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو کامیاب کرے ۔آمین

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1837907 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More