پاکستان میں جمہوریت کی آزادی کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔۔۔؟؟

یہ اکیلے میرا سوال نہیں،مجھ جیسے بہت سارے نوجوان اوربوڑھے یہ سوال ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، لیکن دونوں( سوال پوچھنے والا اور جس سے استفسار کیا جاتا ہے) ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور پھر اپنی اپنی راہ پکڑتے اپنی اگلی منزل کی جانب چل نکلتے ہیں۔

یہ سوال کچھ عجیب بھی نہیں، کیونکہ یہ مملکت خداداد پاکستان ایک سیاسی تحریک اور جدوجہد کے ذریعے دنیا کے نقشے پر ابھرا، اس تحریک اور جدوجہد کی قیادت سیاسی اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے لوگوں نے کی،قائد اعطم محمد علی جناح سے لیکر شیر بنگال مولوی فضل حق تک کوئی ایک بھی ایسا راہنما دکھائی نہیں دیتا جو آمریت پسند ہو، یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی تسلیم نہ کرے تو یہ الگ بات ہے کہپاکستان اور جمہوریت دونوں لازم و ملزوم ہیں،دونوں ایک دوسرے کے بگیر نہیں رہ سکتے، جیسے ’’جل بن مچھلی‘‘ زیادہ دیر اپنی بقا ء کو قا ئم نہیں رکھ سکتی ایسے ہی پاکستان اور جمہوریت ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے۔

آج گیارہ ستمبر ہے اور پاکستانی قوم کے بابائے قوم بانی پاکستان قائد اعطم محمد علی جناح علیہ رحمۃ کی برسی بنا رہی ہے، قائد کی موت جس کسپمرسی کی ھالت میں ہوئی وہ آج تک راز ہے، کہنے والے تو کہتے ہیں کہ قائد اعظم طبعی موت نہیں مرے، بلکہ انہیں مارا گیا، اس الزام میں مجھے صداقت اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ قائد کی وہ ایمبولینس جس کے ذریعہ انہیں علاج کے لیے زیارت پریذیڈنسی سے کراچی منتقل کیا جا رہا تھا وہ راستے میں خراب ہوگئی، اور کئی گھنٹے تک ایمبولینس وہیں کھڑی رہی کیونکہ اسے دھکا لگانے والا دور دورتک دستیاب نہیں تھا۔

کیسی منطق قوم کو بتائی گئی،اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں،کا کلچر تویہ ہے کہ اگر کسی پٹواری، پولیس کے حوالدار کی گاڑی (چاہے موٹر سائیکل ہو) خراب ہو جائے تو دھکا لگانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے، لیکن کس قدر بے ھس ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ منطق پیش کی کہ بانی پاکستان کی گاڑی کو دھکا لگانے کے لیے افراد موجود نہیں تھے، اس لیے ۔۔۔یہ سب سوچی سمجھی سازش کہانی ہے،جس پر سے کبھی نہ کبھی تو پردہ اٹھے گا،سازشی بے نقاب ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم کو اس سلوک کا کیونکر مستحق جانا گیا؟ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ سازشی کھیل کھیلا؟ یقیننا جوبھی تھے اسی ملک کے رہنے والے تھے، اقتدار کے ایوان تک نہیں رسائی حاصل تھی، اور انہیں بااصول حکمران سے نجات حاسل کرنا تھی، اس سازش کے پس پردہ عوامل اور مقاصد پاکستان کو جمہوریت کی منزل پر پہنچنے روکنا تھا، غیر جانبدا پاکستان کی بجائے اسے عالمی قوتوں کا حاشیہ بردار بنانا مقصود تھا، سو انہوں نے اپنے ان مقاسد کے حصول کے لیے قائد اعظم کے بعد قائد ملت خان لیاقت علی خان کو بھی ’’ چٹے دن‘‘ موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر اسی سازش کے اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقتدار کا میوزیکل کھیل کھیلا گیا، جمہوری حکومتوں کو لانے اور ہٹانے کی مشق کرکے عوام پاکستان کو جمہوریت سے متنفر کرنے کا تین ایکٹ کا ڈرامہ کیا گیا۔

خواجہ ناطم الدین کو گورنر جنرل کے منصب سے ہٹوا کر ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل جیسے اہم منصب پر بٹھا دینا یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے ، بعد میں اسی غلام محمد نے سویلین اور جمہوری حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچوایا،اسی اپاہج غلام محمد نے پہلا گیر آئینی اقدام کرکے اسمبلی کو توڑا، پھر اسی نے عدالت عظمی کو نطریہ پاکستان متعارف کروانے کی ہلہ شیری دی، اسی کی حرام زدگیوں کے باعث سکندر مرزا آیا اور اسے نے ایوب خان کو وردی سمیت ملک کا وزیر دفاع مقرر کرنے کی روایت ڈالی، جس کے بعد ایوب خان نے دس سال تک قائد اعظم کی سوچ اور ویژن کی دھجیاں اڑائیں، اسی ایوب خان نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں شریکۃالقائد اعظم( قائد اعطم کی شریک سفر) محترمہ فاطمہ جناح علیہ رحمہ کو دھاندلی سے شکست سے دوچار کیا، اور انہیں ازیتیں دیکر موت کی نیند سلایا۔

قائد اعظم محمد علی جناح عالم اروح سے اپنے پاکستان کو دیکھ رہے ہوں گے، انہوں نے اپنے ساتھی قائد ملت خان لیاقت علی خان کو قتل کرتے ہوئے اور اس کی سازش کرنے والوں کو بھی دیکھا ہوگا، پھر اپنی لاڈلی پیاری بہن فاطمہ جناح کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو بھی دیکھا ہوگا،اس لیے قائد ان کی بہن اور قائد ملت اور ہمیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے ہوں، ہماری ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے رب کے حضور دست دعا بلند کرتے ہوں گے۔

قائد اعظم سے فاطمہ جناح اور فاطمہ جناح سے بے نظیر بھٹو تک کیے جانے والے قتل ہمارے ماتھے پر بدنما داغ ہیں،ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے جن کے دعوے رہے کہ وہ قائد اعظم کے وارث ہیں، نے قائد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے باعث لگنے والے داغ دھونے کی قطعا کوشش نہیں کی گئی، اس لیے امید واثق ہے کہ ایک نہ ایک دن اس پاک دھرتی پر خمینی بت شکنی آئے گا جو سب ظلم و زیادتیوں کے حساب چکاکر روح قائد و قائد ملت اور قائد اعظم کی ہمشیرہ سمیت سب قائد اعظم کے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مار دیئے گئے ،ارواح کو راحت فراہم کریگا۔ انشا اللہ تعالی یہ دن آئے گا، خلق خدا ، عوام پاکستان ، اس مملکت پاکستان پر راج کریگی اور پاکستان کو قائد کے ویژن کو عملی جامہ پہنائے گی۔

سب سے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ جنرلوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو اپنے اور غیر ملکی طاقتوں کے مفادات کی آماجگاہ بنا کے رکھدیا، قائد کے ویژن کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنے ویژن متعارف کروانے کے تجربات کرنے کی جگہ بنایا، بات صرف فوجی جنرلوں تک محدود نہیں قائد کی جماعت اور پاکستان کی بانی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ نے ہر آنے والے آمر کو سہارا دیکر اسے مضبوط کیا، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے فوجی ٓامروں کی پرورش کی، مسلم لیگ کے منہ پر یہ کالک تاقیامت لگی رہے گی۔

فوجی اور سویلین حکمران برسراقتدار آتے ہی مزارقائد پر پہنچتے ہیں، ناجانے کس منہ سے وہاں جاتے ہیں، اگر اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو شائد وہاں جاتے ہوئے انہیں کچھ شرم حیا آ جائے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں
’’ لاء دتی لوئی تے کی کریگا کوئی‘‘

مطلب جب بندہ بے شرم ہوجائے تو کوئی اسے کیا کہے گا اگر کوئی کہے گا بھی تو انہیں کونسی شرم آنی ہے، میرا کیال ہے کہ جب یہ حکمران مزار قائد پر جاتے ہوں گے تو روح قائد تڑپ جاتی ہوگی اور کہتی ہو گی کہ ’’ظالمو مجھے یہاں تو آرام و سکون سے رہنے دو۔۔۔ لیکن انہیں تو دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم قائد کے تابعدار بچے ہیں، جنرل بھی شیروانی اور جناح کیپ پہن کر عوام پاکستان کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کو قائد کا پاکستان بنائیں گے، اور ہرطرف دودھ کی نہریں بہا دی جائیں گی۔۔۔ مگر دس دس اور گیارہ گیارہ سال تک قائد کے پاکستان کا خون نچھوڑنے کے بعد بھی پاکستان کی حالت سدھرنے کی بجائے مذید ابتر ہوتی گئی۔ آئیے ملکر یہ نعرہ بلند کریں ’’ قائد اعطم ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں

اور جب تک عوام پاکستان قائد کے پاکستان کو تجربات کی آماجگاہ بنانے ، اور جمہوریت پر شب خون مارنے اور فوجی آمروں کو سہاسی کی بساکھیاں فراہم کرنے والے سیاست دانوں کو عبرت کا نشان نہیں بناتے اور ترکی کی طرح اپنی منتخب حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے والوں کے راستے میں دیوار نہیں بنتے اس وقت تک قائد کے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی ہم جمہوریت کو مقتدرہ قوتوں کے شکنجے سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

 

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.