جانے انجانے

ریاست کی تعمیر وترقی کے لیے اس کے تمام حصوں میں تال میل ضروری ہے۔جب کوارڈیینیشن قائم ہوتاہے۔اداروں کی کاوشیں یک سمت ہوتی ہیں۔تو بہتری آتی ہے۔آسانیاں بڑھتی ہیں۔رائج حکومت کا بنیا دی کام ایک نگہبان جیسا ہوتاہے۔جو اداروں کے درمیان تال میل ممکن بنائے۔ایسا نگہبان جو اس قدر متحرک اور الرٹ ہو کہ کسی بھی طرف سے سامنے آنے والی بے اعتدالی کو محسوس کرسکے۔وہ اتنا سوورن ہو کہ اسے تمام اداروں اور شعبوں پر بالا دستی حاصل ہو۔اس کا مرتبہ معتبرترین ہو۔اس کا فیصلہ حتمی ہو۔اس کی سورینٹی کے سبب تمام ادارے اس کا فیصلہ بھی سنتے ہیں۔اور اس پر عملدرامد کے سوا کئی چارہ نہیں ہوتا۔بعض اوقات یہ سووینٹی تسلیم نہیں کی جاتی جس کے سنگین نتائج برامد ہوتے ہیں۔بھٹو اور نوازشریف کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی اپنے اپنے انداacزمیں کیے جانے کو ناپسندکیا جانا اسی قسم کے کچھ واقعات ہیں۔آئینی مجبوری کے سبب بروقت تو عسکری حکام کو خاموشی اختیارکرنا پڑی مگر جب بھی موقع ملا یہ خاموشی صحرا کے کسی اونٹ کے کینے سے بھی بڑھ کر زہریلی نکلی۔بھٹو کو جب جب یہ اطلا ع ملی کہ آرمی چیف ان کی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔تو ایک شام انہیں بلاکرآگاہ کردیا کہ آپ میرا اعتماد کھوچکے ہیں۔آپ ریزائن کردیں۔اگلے دن جنرل ٹکا خاں کو نیا آرمی چیف بنادیاگیا۔اس یکا یکی تبدیلی پر عسکری قیادرت میں تشویش کی لہر دوڑگئی۔یہ تشویش بے جاتھی۔بطور چیف ایگزیکٹوبھٹو صاحب کو عسکری قیادت میں ردو بدل کا اختیار حاصل تھا۔اسے قبول کرنا عسکری قیادت کی ڈیوٹی تھی۔مگر اس اقدام کو فوجی حلقوں میں ایک چھیڑ خانی تعبیر کیا گیا۔ اس کا جواب اپنے رنگ میں دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔نوستارے۔اور حکومت مخالف تحریک اسی جواب کا ایک باب تھا۔اسی طرح کا دوسرا وقوعہ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے پرویز مشر ف کو ہٹاکر ضیاء الدین کو آرمی چیف مقرر کرناتھا۔آرمی نے اس بار خاموش رہنے کی مروت بھی نہ کی۔اور وزیراعظم اور ان کی حکومت کو روندڈالا۔

مسلم لیگ ن کی حکومت نوازشریف کی نااہلی کے باوجود جاری ہے۔مگر یہ حکومت کسی رو ح کے بغیر جسم کی مانند ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں قریبا اتنی ہی اکثریت حاصل ہے جو نوازشریف کو تھی۔مگر اس کے باوجود حکومت کی تمام دھاک اب ختم ہوچکی جو نااہلی کا فیصلہ آنے سے قبل تھی۔اس وقت افواہوں کا ایک بازار گرم ہے۔مسلم لیگ ن کے حصے بخر ے ہوجانے کے اندازے لگائے جارہے ہیں۔بعض لوگ اس بات پر حیر ت زدہ ہیں۔کہ ٹوٹ پھوٹ کا کام اب تک کیوں بچاہواہے۔خیال تو یہ تھاکہ ناہلی کا فیصلہ آنے سے قبل ہی پارٹی کی اکثریت تتر بتر ہوجائے گی۔کچھ ججز او رکچھ سیاستدانوں کو اشارے کرنے والوں کا واضح پیغام ملنے کے بعد بھی مسلم لیگ ن میں دراڑیں نہ پڑنا حیران کن تھا۔ایک امید یہ پیداہوئی کہ شاید لیگی پنچھیوں کو میاں صاحب کی دسترس کا مان ہے۔جیسے ہی ججوں نے باقاعدہ نااہل کیا۔میاں صاحب کی قوت کا یہ گمان دم توڑدے گا۔اور پنچھی اڑجائیں گے۔اب جبکہ نااہلی کو ایک مہینہ ہونے کوہے۔مسلم لیگ ن کا کوئی ایک ممبر بھی ادھر سے ادھرنہیں ہوا۔جس سے کھیل رچانے والے مذید مشتعل ہورہے ہیں۔اب بھی پارٹی میں قیادت سے اختلافا ت کی نوعیت وہی ہیں جو نااہلی کا کھیل شروع کرنے سے قبل تھی۔شہبازشریف اور ان کا مفاہمتی گروپ اب بھی منہ دھیان کام کرنے کا تمنائی ہے۔جبکہ نوازشریف معاملا ت کو لاتوں سے حل کرنے پر بضد ہیں۔دنوں دھڑوں میں مجبورا قربتیں ہیں۔مگر دونوں ہی اپنے اپنے موقف سے دستبردار ہونے پرآمادہ نہیں۔نوازشریف کا خیال کہ جو منظر نامہ پاکستان میں بنا ہواہے۔یہ ریاست کو بدنام اور ناکام کررہاہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ لاٹھی گولی سے مسلط کردیے گئے ہیں۔انہیں پیچھے ہٹانے کے لیے خالی زبان اور تحریر کافی نہیں۔وہ اپنی تقریر کا حشر غلام اسحاق کے ہاتھوں اسمبلی ٹوٹ جانے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔اور اپنی تحریر کا حشر ضیاء الدین کے تقرری کے پروانے کے پرزے پرزے کیے جانے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔نوازشریف اس منظرنامے کو کسی بھی قیمت پر تبدیل کرنے کی ذہن بنائے ہوئے ہیں۔

اس وقت جانشینی کا جھگڑا چل رہاہے۔تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے دورمیان اگلی حکومت کی اہلیت ثابت کرنے کا مقابلہ ہے۔جو اہلیت قانون اور آئین نے طے کی ہے۔یہ مقابلہ اس اہلیت کا نہیں ہے۔یہ ایک الگ قسم کا مقابلہ ہے۔پچھلے کچھ برسوں سے دونوں جماعتیں مقتدر حلقوں کا اعتماد پانے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔زرداری دورمیں تابع داری کی انتہاکی گئی۔اب عمران خاں اپنی ذات پات کو گنوا کر یہ میچ جیتنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ فیصلہ ہوتا چلا جارہاہے کہ زرداری اور عمران میں سے مقتدر حلقوں کے لیے کون زیادہ قابل قبول ہے۔نوازشریف بااختیار بننے کی ضد میں مقابلے سے باہر ہوچکے۔یہ دونوں جماعتیں کم سے کم بولی دیکر میدان مارنے کے چکر میں ہیں۔نوازشریف کلی اختیار کے حصول کی جنگ لڑرہے ہیں۔اور یہ دونوں جماعتیں جو تھوڑا بہت ملتاہے۔اس پر ہی صابر و شاکر ہیں۔قوم سب کچھ دیکھ رہی ہے۔مگر چپ ہے۔جانے انجانے کی یہ خاموشی بے وجہ نہیں۔اسے اگلے الیکشن کا انتظارہے۔وہ ان الیکشن میں ہر کسی کا حساب بے باق کرنے کا ذہن بنائے ہوئے ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 122579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.