اﷲ دتہ حجام ( بابا ایک آنے ولا):خدمت میں عظمت کی درخشاں مثال

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
غریبوں ،مزدوروں اور فاقہ کش انسانوں کا خادم اﷲ دتہ حجام 1983میں دائمی مفارقت دے گیا۔اﷲ دتہ 1878میں جھنگ شہر میں پیدا ہوا ۔چھے سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ۔اِس دُھوپ بھری دنیا میں اُس نے محسوس کیا کہ سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا تھا ۔ آبائی پیشے کے اعتبار سے وہ حجام تھا،اس لیے اُس نے کم عمری ہی میں رزقِ حلا ل کمانے کے لیے اپنے آبائی پیشے میں مہارت حاصل کی ۔دینی تعلیم ممنا گیٹ جھنگ شہر میں واقع مسجد شاہ علیانی میں میاں برخوردار خان سے حاصل کی ۔ وہ ایک صابر ،شاکر اور نیک اطوار کا حامل ہو نہار بچہ تھا ،اﷲ کریم نے اُسے ایک درد مند دِل سے نوازا تھا۔دس سال کی عمر میں اﷲ دتہ قرآ ن حکیم اور حدیث شریف پڑھ چکا تھا اور ساتھ ہی اپنے آبائی پیشے میں بھی کامل مہارت حاصل کر چکا تھا۔اگرچہ وہ اپنے فن میں ماہر تھا لیکن اُس کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ شہر کے مروجہ دستور کے مطابق بازار میں دکان کا ایک سال کا پیشگی کرایہ اور پھر ماہانہ کرایہ با قاعدگی سے ادا کر سکے ۔ناچار اُس نے جھنگ شہر کے نُور شاہ دروازے کے جنوب کی سمت والی پہلی گلی کے شروع میں زمین پر بیٹھ کر حجام کا پیشہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔1890میں وہ ایک پیسہ لے کر حجامت کرتا تھا۔اِس میں سر کے بال تراشنا ،شیو کرنا ، دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کی انگلیوں اور انگوٹھوں کے ناخن کا ٹنا اور معمر افراد کے سر پر کالی مہندی لگا نا بھی شامل تھا ۔اُ س کے پاس حجامت کے لیے آنے والوں میں کم سِن بچے ،نو عمر لڑکے ،نو جوان مرد ،ادھیڑ عمر کے مرد اورضعیف آدمی سب شامل تھے ۔اﷲ دتہ حجام ہر روز نماز تہجد پڑھنے کے بعد با جماعت نماز فجر ادا کرتا اِس کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت کرتا اور گھر سے ناشتہ کرنے کے بعد با وضو ہو کر گھر سے نکلتا ۔اُس کے بائیں ہاتھ میں حجامت کے اوزاروں کی چھوٹی سی صندوقچی ہوتی اور دائیں ہاتھ میں تسبیح ہوتی ۔وہ ہمہ وقت درودِ پاک کا ورد کرتا رہتا ۔ سورج طلوع ہوتے ہی نور شاہ بازار جھنگ شہر میں اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا فرش زمین پر بیٹھ جاتا اور سورج غروب ہونے تک وہ اپنے کام میں مصروف رہتا ۔سردی ہو یا گرمی اس کے اوقات میں کوئی خلل نہ پڑتا۔گرمی میں وہ دیوار کے سائے میں بیٹھ کر غریب لوگوں کی حجامت کرتا اور سردی میں وہ دھوپ میں بیٹھ کر اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہتا۔یہ باریش نو جوان شرافت اور حیا کا پیکر تھا ۔سب کے ساتھ اخلاق ،اخلاص ،ہمدردی اور نرم دلی سے پیش آنا اُس کا شیوہ تھا ۔آندھی ،طوفان اور بارش میں وہ ناچار اپنا کام بند کر کے گھر کا رُخ کرتا۔کام کے دوران ظہر اور عصر کی نماز وہ با جماعت پڑھتا ۔اس وقفے میں وہ حجامت کے اوزاروں کی صندوقچی وہیں زمین پر رکھ کر نزدیکی مسجد میں پہنچتا۔ اِس مسجد میں ہینڈ پمپ تھا وہ اِس ہینڈ پمپ کو مسلسل چلاتا اور اُ س حوض کو پانی سے بھر دیتا جہاں سے وضو اور طہارت خانوں کے لیے پائپ کے ذریعے پانی جاتا تھا ۔اِس کے بعد وہ مسجد کی صفوں کی جھاڑ پھونک میں مصروف ہو جاتا ۔اُس کی آواز گرج دار اور لہجہ دبنگ تھا ۔جب وہ اذان دیتا تو اُس کی آواز دُور دُور تک پہنچتی ۔جب اُس کی عمر بیس سال ہوئی تو نمازیوں نے اﷲ دتہ حجام کو نُور شاہ دروازے کی پہلی گلی میں واقع چھوٹی سی مسجد کا پیش نماز مقرر کر دیا ۔اِس مسجد میں اﷲ دتہ حجام نے بجلی کا کنکشن منظورکرایا اور جب تک زندہ رہا مسجد کی بجلی کے بل کی رقم کی بر وقت ادائیگی کا انتظام بھی خود کرتا رہا۔اِس مسجد میں ہر ماہ محفل حمد و نعت کا باقاعدگی سے اہتمام کرتا ۔اِس میں ممتاز حمد خواں اور نعت خواں شرکت کرتے اور سامعین کے جذبہء ایمانی اور عشق رسول ﷺ کی تسکین ہوتی ۔ جھنگ کے مایہ ناز شاعر رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )اکثر یہاں آتے تھے۔یہ نعت سُن کر اﷲ دتہ حجام کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں اور وہ یہ نعت بار بار سُنتا:
جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابن ِ غنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ابتدا میں اﷲ دتہ حجام محض ایک پیسہ لے کر حجامت کرتا تھا لیکن 1947کے بعد اُس نے حجامت کی اپنی مزدوری ایک آنہ مقرر کی اور اِس کے بعد یہی مزدوری اُس کی مستقل پہچا ن بن گئی ۔لوگ اُسے بابا آنے والا کے نام سے یاد کرتے ۔اپنی محنت کی اُجرت اورخدمت کا مقام اُس نے پھر کبھی نہ بدلا ۔لوگ کہتے تھے اﷲ دتہ حجام جہاں بیٹھ گیا ، سوبیٹھ گیا ۔جو کچھ اُس نے کہہ دیا وہ کالنقش فی الحجر ہے ۔جھنگ شہر میں غریب لوگوں کی بے لوث خدمت کے سلسلے میں چار آنے والے حکیم (حکیم احمد بخش نذیر )اور ایک آنے والے حجام (بابا اﷲ دتہ )کا نا م کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔جِس زمانے میں ہر شخص ہوس زر کی اندھی دوڑ میں دیوانہ وار مصروف ہو ،دولت کو ٹھکرانے والے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔اﷲ دتہ حجام جو کچھ کماتا اُس میں سے دو وقت کی ر وٹی کے لیے درکار پیسے الگ کر لیتا باقی رقم شام کو مستحق غریبوں کے گھر پہنچا کر اﷲ کریم کا شکر ادا کرکے آرام کی نیند سوتا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا :
رزق نہ پلے بنھدے پنچھی تے درویش
جنھاں نوں تقویٰ اﷲ دا، اوہناں نوں رزق ہمیش
اُردو ترجمہ : رزق ذخیرہ کبھی کریں نہ درویش اورطیور
اﷲ پر جو کریں بھروسااُن کو رِزق وفور
جھنگ کے قدیم شہر کے بارے میں یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں چار ہزار سال قبل مسیح میں بھی آبادی کے آثار پائے جاتے تھے۔امیر اختر بھٹی اور غلام علی خان چین اس شہر کے کچھ کھنڈرات کو طُوفانِ نوح کی باقیات قراردیتے تھے ۔سکندر کی افواج اس علاقے میں پہنچیں اور یہاں یونانیوں نے اپنی رسوم کے مطابق حُسن کی دیوی (ہیر) کا مندر بھی تعمیر کیا ۔جس کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس قدیم شہر میں اسلام کی روشنی 712میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے بھی پہلے پہنچ چکی تھی ۔عرب تاجر اس علاقے میں طویل عرصے سے تجارت کی غرض سے آ رہے تھے ۔جھنگ شہر کی پہلی مسجد شاہ علیانی کے نام سے معروف ہے ۔اِس کی تعمیر دوسری صدی ہجری میں ہوئی ،یہ قدیم مسجد اب بھی مو جود ہے ۔ڈیڑھ ہزار سال قدیم یہ مسجد قدیم عرب طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ تھی ۔ اِس کی دیواریں مٹی کے گارے اور چُونے سے بنائی گئی تھیں اس کی چھت پر کھجور کے تنے کے شہتیر اور بالے ڈالے گئے تھے اور کھجور کے پتے اور مٹی ڈال کر اس کی لپائی کی گئی تھی۔1960میں اِس مسجد کی تعمیرِنو کی گئی اِس کام میں اﷲ دتہ حجام ،غلام علی خان چین ،احمد بخش ،خدا بخش ، محکم دین ،مرزا محمد وریام ،حاجی محمد یوسف ،محمد بخش آڑھتی ،اﷲ دتہ سٹینو ،محمد کبیر بھٹی ،حکیم احمد بخش ،میاں محمود بخش بھٹی ،میاں اﷲ داد ،ڈاکٹر محمد عمر ،ملک عمر حیات ،رانا سلطان محمود اور شیر محمد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اﷲ دتہ حجام نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات اور توحید اور رسالت کی محبت کو جزو ِ ذات بنا رکھا تھا اِسی کے اعجاز سے اُس کے دِل و نگاہ کی دنیا منور تھی ۔
بے ثبات کارِ جہاں میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر اُس نے ہر صبح رنج و الم کے عالم میں شام کی اور یوں اُس کی خوننابہ کشی مدام جاری رہی ۔وہ ایک صاحب ِ بصیرت شخص تھا،سرِ راہ لوگوں کی ایک جھلک دیکھ کر وہ اُن کے گوشہء چشم میں لرزاں پیغام پڑھنے پر قادر تھا۔دِل کے پیہم اضطراب کے باعث اُس کی چشم ہمیشہ پُر آب رہتی ۔وہ اکثر کہا کرتا کہ دِل کی بربادی کا کیا مذکور ہے ،اِس نگر کو تو گردش حالات نے لُوٹ کر ویرانے میں بدل دیا ۔دِ ل کی ویرانی میں ان جان لیوا صدموں کے گہرے داغ اِس طرح پیہم ضو فشاں ہوتے ہیں جیسے اُجڑی بستی کے کِسی کھنڈر میں رات گئے کوئی چراغ جھلملانے لگے ۔ مفلس و قلاش غم زدوں کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن بوسیدہ جھونپڑوں اور شکستہ مکاں سے ہفت خواں طے کرتے ہوئے لا مکاں کی منزل تک پہنچتے پہنچتے اُس کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے اور وہ مکمل طور پر کر چیوں میں بٹ جاتا ہے ۔اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چُھپا کر خندہ پیشانی سے کٹھن حالات کے سامنے سینہ سپر رہنے والے اس درویش منش فقیر نے اِس عالم آب و گِل کو ایک آئینہ خانے اور توہم کے کارخانے سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دی ۔
قُدر ت اﷲ شہاب نے اپنی تصنیف ’’شہاب نامہ ‘‘میں اﷲ دتہ سٹینو کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے ۔اس کے علاوہ اُس نے جھنگ کے جِس پُر اسرار موچی کے کشف و کرامات کا حال بیان کیا ہے ،اُس کا نام کرم دین (عرف کرموں موچی )تھا۔وہ اور اﷲ دتہ سٹینو دونوں اﷲ دتہ حجام کے عقیدت مندوں میں شامل تھے ۔اِس کے علاوہ میاں مراد علی (عرف میاں مودا )سید مظفر علی ظفر ،حامد علی شاہ ، امیر اختر بھٹی ،عبدالغنی (برتن فروش )عبداﷲ خان ،بختاور خان ،منیر حسین معلم اور شاہ محمد بھی اُس کے احباب میں شامل تھے ۔ان کے ساتھ مل کرو ہ اصلاحی اور فلا حی کاموں میں بھر پور حصہ لیتا ۔معرفت ،درویشی اور فقیری کی اقلیم کے یہ فرماں روا پنی اپنی دنیا میں مگن دُکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار شکوۂ ظلمتِ شب میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے کی مساعی میں منہمک رہتے ۔اﷲ دتہ حجام اِن کا میرِ کارواں تھا اور یہ سب اُس کے قدم سے قدم مِلا کر سوئے منزل رواں دواں رہتے ۔چشم ِ بینا پر یہ بات واضح تھی کہ اِن فقیروں نے اپنے پیشوں اور دنیا داری کا جو روپ دھار رکھا تھا اُس کے پس پردہ کتنی عظیم ،با کردار اور مقربِ بارگاہ ہستیاں تھیں ۔اﷲ دتہ حجام نے زندگی بھر اپنی قناعت ،استغنا ،انا اور خود داری کا بھرم ر قرار رکھا۔فرشِ زمین پر بیٹھنے والے یہ لوگ کردار کے اعتبار سے افلاک کی وسعتوں کو چُھو لیتے تھے ۔اﷲ دتہ حجام نے نمود و نمائش اور ہوس ِزر سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بے لوث محبت اور حسن اخلاق سے غریبوں کے دِلوں کو مسخر کر لیا۔انسانیت کی عظمت ،وقار اور سر بُلندی کو مطمح نظر بنانے والے ایسے یگانۂ ر وزگار لوگ سونے کے ترازو میں نہیں تولے جا سکتے ۔
اﷲ دتہ حجام کی زندگی کشف و کرامات کی متعدد چشم کشا صداقتوں اور ناقابلِ فراموش واقعات سے لبریز ہے ۔اُس کی ذات ایک قندیل کے مانند تھی ۔اِس روشنی کی راہ میں جو بھی حائل ہوا وہ حر ف غلط کی طرح مٹ گیا اور لوگوں کے لیے عبرت کی مثال بن گیا۔لالہ دُنی چند جھنگ شہر کا بد نام سُو د خور مہاجن تھا۔ سادیت پسندی کے مر ض میں مبتلا اس نا ہنجار بنیے نے سُود در سُود کے قبیح دھندے سے پُورے علاقے کے غریب مُسلمان کِسانوں فاقہ کش غریبوں اور مزدوروں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔اِس ظالم و سفاک ،مُوذی و مکار بنیے کی درندگی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں سے بے شمار گھر بے چراغ ہو گئے ۔غریبوں کے سر چھپانے کے گھر ،کھیت کھلیان اور زیورات اِس کے پاس رہن رکھے ہوئے تھے ۔اِس کے مظالم سہنے والے بے بس لوگ جھولیاں اُٹھا کر اِسے بد دعا دیتے اور قادرِ مُطلق کے حضور گِِڑ گڑا کر سوال کرتے کہ پروردگار ِعالم نے لالہ دُنی چند جیسے فرعون کی مُدت ِحیات کو کیوں بڑ ھا رکھا ہے ؟اِتفاق کی بات ہے کہ خسیس لالہ دُنی چند ہر ماہ اﷲ دتہ حجام سے اپنا سر مُنڈا کر اپنی ٹِنڈ کراتاتھا۔
دسمبر 1939کی خُون منجمد کر دینے والی سردیوں کی ایک خنک سہ پہر تھی یخ بستہ برفانی ہوائیں چل رہی تھیں۔جاڑے کے باعث بازار ویران تھا ۔لالہ دُنی چند اب ضعف پِیری سے نڈھال تھا ۔اچانک وہ کمر جھکائے اﷲ دتہ حجام کے پاس آیا اور اُسے مخاطب کر کے بولا :
’’ارے میاں اﷲ دتہ !میرے سر کے بال بہت لمبے ہو گئے ہیں۔مہنگائی کے اِس دور میں اِن لمبے بالوں پر تیل لگانے کی سکت مجھ میں نہیں ۔ ہر ماہ کی طرح میری ڈاڑھی ،مونچھیں اور سر کے بال صاف کر دو ۔بچت کرنا اچھی عادت ہے اِس لیے میں ہمیشہ بال بڑھانے کی عیاشی سے دُور رہتا ہوں ۔‘‘
’’تُم جیسے دولت مند مہاجن کو ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا ‘‘اﷲ دتہ بولا’’تُم نے تو پُورے شہر کو اپنے سُود در سُود کے چُنگل میں جکڑ رکھا ہے۔کون ہے جو تمھارے مظالم سے تنگ نہ ہو۔ بے بس و لاچار غریبوں کو تم نے یر غمال بنا رکھا ہے ۔تُمھارے پاس مال و دولت کی ریل پیل ہے ۔اِس طرح نا شکری نہ کیا کرو ۔اس وقت تم ضعفِ پیری سے نڈھال ہو کچھ تو غریبوں کا بھی خیال کرو اور ان کی غصب کی ہوئی اِملاک بحال کرو۔‘‘
’’فضول باتیں بند کرو ‘‘ لالہ دُنی چند نے دانت پِیستے ہوئے کہا’’جلدی سے میری ٹِنڈ کروکل میں نے ایک غریب ، ضعیف اور بے سہارا مسلمان بیوہ کا مکان قُرق کرایا ہے اُس نے میرے سُود کی رقم نہیں دی تھی ۔اُسے میں نے گھر سے بے گھر کر دیا ۔آج دو یتیم مسلمان بچوں کے مکان کا قبضہ لینا ہے پیادے میں نے بھیج دئیے ہیں ،اُن کے مرحوم باپ نے مجھ سے دس سال پہلے جو قرضہ لیا تھا وہ اب بڑھ کر چار گُنا ہو چکا ہے ۔جو میرا قرض نہیں اُتارتا اور میرے ساتھ ٹکر لینے کی حماقت کرتا ہے اسے میں زینۂ ہستی سے اُتار دیتا ہوںَ‘‘
اﷲ دتہ حجام اِس مخبوط الحواس اور فاتر العقل جاہل کی باتیں سُن کر خاموش ہو گیا اور جلدی سے لالہ دُنی چند کے سر ،ڈاڑھی اور مُو نچھوں کو صفا چٹ کر دیا ۔حجامت سے فارغ ہو کر لالہ دُنی چند نے غُراتے ہوئے بد تمیزی سے کہا’’اوئے اﷲ دتہ !میری بات کان کھول کر سُن لے آئندہ میرے معاملات میں دخل مت دینا اور اپنی اوقات میں رہنا ۔تُو ایک پیسہ لینے ولا حجام ہے اور میں ارب پتی تاجر ۔میرے سامنے تیری کیا اوقات ہے ۔مجھ سے منہ سنبھال کر بات کیا کرو ۔‘‘
اﷲ دتہ حجام نے دھیمے لہجے میں کہا ’’اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ بے بس و لاچار انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ اﷲ کی گرفت نہایت سخت ہے۔خالق کائنات کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں ۔اُس قادر مطلق سے ڈرو اور سُود خوری کے قبیح دھندے سے توبہ کر لو ۔‘‘
’’خاموش رہوزبان دراز حجام ‘‘لالہ دُنی چند باؤلے کُتے کی طرح غُرایا ’’ذات کی کو ڑھ کِرلی اور شہتیروں پر چڑھائی ۔میری آن بان کے آگے تو پُوری خلقت ہیچ ہے اور تم ہو کہ مسلسل اپنی ہانکے چلے جا رہے ہو ۔اب کوئی بات کی تو میں تمھاری زبان گُدی سے کھینچ لو ں گا ۔مجھے اپنے خدا کی بے آواز لاٹھی سے مت ڈراؤ ۔دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی ۔‘‘
اِس کے ساتھ ہی لالہ دُنی چند نے اﷲ دِتہ حجام کی صندوقچی کو زور سے ٹھوکر ماری ،اِس میں موجود اوزار زمین پر بکھر گئے ۔اﷲ دِتہ حجام تیزی سے اپنے اوزار سمیٹ کر زمین پر بیٹھ گیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری اور پُرنم آنکھوں سے زیر ِلب کچھ کہا اور پھر چُپکے سے گھر چلا گیا ۔شام ہو چکی تھی اﷲ دِتہ گھر پہنچ گیا اور اُس نے مغرب کی نماز پڑھی او ر حسبِ معمول درود پاک اور قرآنی آیات کی تسبیح میں مصروف ہو گیا۔
لالہ دُنی چند نہایت رعونت کے ساتھ اﷲ دِتہ حجام کو مغلظات بکتا رہا پِھر بُڑ بُڑاتا ہوا دریائے چناب کے کنارے واقع اپنے فارم ہاؤس کی طرف چل پڑا ۔ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ زبردست طُوفانِ ِباد و باراں نے اُسے دبوچ لیا ۔اِس کے ساتھ ہی ژالہ باری بھی شروع ہو گئی ۔یہ خوف ناک ژالہ باری ایک گھنٹہ جاری رہی جس میں موٹے موٹے اولے پڑے ۔لالہ دُنی چند فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ چُکا تھا ۔وہ جان بچانے کے لیے اندھا دُھند ہر طرف دوڑا مگر اِ س لق و دق صحرا میں اُسے کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہ مِلی ۔وہ منہ کے بل گِرا اور ٹھنڈا ہو گیا ۔اگلی صبح اُس کا ڈھانچہ دریائے چناب کے کنارے پایا گیا جِسے جنگلی درندے چٹ کر گئے تھے ۔ سُو رج طلوع ہوتے ہی زاغ و زغن لالہ دُنی چند کے استخواں نوچ رہے تھے ۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مظلوموں کی آہ و فغاں اور اﷲ دتہ حجام کی بد دعا نے اس فرعون کا کام تما م کر دیا ۔
جھنگ شہر کا نُور شاہ دروازہ جھنگ کا چلیسی کہلاتا ہے ۔اِس دروازے کے سامنے سے جو شاہراہ گزرتی ہے اُ س کے شمال میں پولیس چوکی ،جنوب میں ایک سرکاری سکول ،اِس کے ساتھ ملحق گلی میں ایک دینی مدرسہ ،دروازے کے ساتھ ہی حلوائی کی دکان ہے جس پر کئی خسیس اپنے دادا کا فاتحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں ۔کچھ فاصلے پر جنرل ہسپتا ل ہے اور اُس کے عقب میں شفا خانہ حیوانات واقع ہے ۔اِس علاقے میں خوب چہل پہل رہتی ہے ۔ناصفو نامی ایک جنونی شخص اکثر اﷲ دتہ حجام کے پاس آتا تھا ۔ایک دِن اُس نے کہا’’مجھے گُزشتہ ہفتے سے بُخار ہے ۔لسوڑی شاہ کے دربار سے لسوڑیاں بھی کھائیں، عامل کوڈو سے عمل بھی کرایا مگر بے سود ،گھر میں ہر مل اور کافور کی دھونی بھی دی کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ اُلو اور خنزیر کے خون سے جادو کا اثر زائل کرنے کے لیے نجومی گھسیٹا خان سے بھی مِلا ،جو ،جوار ،مکئی اور چاول کے دانوں کاہار بھی گلے میں پہنا مگر مرض بڑ ھتا ہی جاتا ہے ۔اب میں کس سے علاج کراؤں ؟‘‘
پا س بیٹھے ہوئے احمد بخش نے کہا ’’اِس شہر میں ڈاکٹر محمد کبیر خان سے زیادہ قابل کوئی معالج نہیں ،تم اُن کے پاس جا کر اپنی تکلیف بتاؤ اور اُن سے دوا لو ‘‘اﷲ دتہ حجام نے بھی اس بات کی تائید کی ۔
دس دِ ن کے بعد ناصفو پھر وہاں آ یا ۔اِس باروہ بہت ہشاش بشاش دکھائی دیتا تھا ۔اُ س نے اپنی بُوم جیسی آ نکھیں گھماتے ہو ئے کفن پھاڑ کر کہا ’’تم لو گوں نے مجھے جس ڈاکٹر کے پاس بھیجا میں اُس کے پاس گیا تھا ،چھے دن مسلسل دوا بھی کھائی مگر بالکل آرام نہ آیا۔‘‘
’’لیکن اِس وقت تو تم بھلے چنگے نظر آتے ہو ‘‘اﷲ دتہ حجام بولا ’’آخر کس کے علاج سے تمھاری تکلیف دور ہوئی ؟‘‘
’’میں شفاخانہ حٰیوانات میں گیا تھا ‘‘ناصفونے کہا ’’وہاں کا ڈاکٹر رنگو بہت قابل ہے ۔اُس نے مجھے ایک ہی ٹیکہ لگایا اور میں صحت یاب ہو گیا ۔‘‘
اﷲ دتہ حجام بولا ’’سچ ہے تم اپنے علاج کے لیے صحیح مقام پر گئے ۔وہاں تم جیسوں کا شافی علاج ہو سکتا ہے ۔‘‘
احمد بخش نے کہا ’’ڈاکٹر محمد کبیر خان جو دوا دیتا ہے وہ صرف انسانوں کے لیے مفید ہے لیکن استر،بُوم اور کر گس زادے پر اس دوا کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔تم جیسے بُز اخفش کو سمجھانا ممکن ہی نہیں۔اتنی فرصت کِسے کہ بھینس کے آگے بین بجائے ۔‘‘
یہ سب باتیں ناصفو کے سر سے گزر گئیں اور وہ ہنہناتا ہوا وہاں سے رفو چکر ہو گیا ۔
قحط الر جال کے موجودہ دور میں قلم و قرطاس کو بھی بد قسمتی سے بعض عاقبت نا اندیش لوگوں نے ذاتی پسند و نا پسند اور شخصی مفادات کے تابع بنا دیا ہے ۔اکثر اہل قلم کو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی قصر وایوان کی مخلوق کے فرضی محاسن تو دکھائی دیتے ہیں مگر پارس جیسے وہ پتھر جنھیں گردش ِحالات نے سنگِ راہ بنا دیا اور جن کا وجود اِنسانیت کی خدمت اور عظمت کے سلسلے میں سنگِ مِیل کی حیثیت رکھتا ہے وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے ۔ کئی چربہ ساز لوگ ساغر جم کو تو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں مگر شکستہ اور مقبول جامِ سفال اُن سے نہیں دیکھا جاتا۔عیاش اور گُم راہ امرا کی رعونت تواُنھیں گوارا ہے مگر غریب محنت کشوں کا عجز و انکسار اِن قلم فروش متشاعروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔اﷲ دتہ حجام کی زندگی سب کے لیے فیض رساں تھی ۔اُس کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی کسی کی تخریب سے اُس نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا ۔معاشرتی زندگی کی قباحتوں سے اُسے شدید نفرت تھی ۔اُس کی دعا مقبول ہوتی اور لوگ اُس کے سامنے اپنی تکالیف کا احوال بیان کر کے دعا کی التجا کرتے ۔گندا ٹوڑا (گندے پانی کا جوہڑ)کے نام سے جھنگ میں ایک کچی آبادی صدیوں سے موجود تھی۔اِس مقام کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا ۔پُورے شہر کا گندا پانی اور غلاظت یہاں جمع ہوتی تھی ۔اِس علاقے کے مفلوک الحال مکینوں پر یہ اُفتاد پڑی کہ ثباتی نام کی ایک جِسم فروش رذیل طوائف اور اُس کے خصم گھاسفو نے یہاں ایک مکان میں اپنا قبیح دھندا شروع کر دیا۔ثباتی نے خرچی کی آمدنی سے مقامی انتظامیہ کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا ۔اِ ن رسوائے زمانہ بد معاشوں کے سبز قدم پڑتے ہی یہاں کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ۔ان ننگ انسانیت درندوں کے قحبہ خانے میں اجلا ف و ارذال اور سفہانے دہشت کی فضا قائم کر دی ۔رام ریاض نے اﷲ دتہ حجام کو بستی کے غریب مکینوں کی تکالیف سے آگا ہ کیا ۔ اﷲ دتہ حجام ایک صاحب بصیرت شخص تھا ،اُس نے اِن غریبوں کو اِس بلائے نا گہانی سے نجات دلانے کے لیے اﷲ کریم کے حضور دعا کی ۔اگلی شب گھاسفو اور ثباتی کو اپنے مکان میں ایک اژدہا نظر آیا جو پھنکارتا ہوا اُن کی طرف بڑھ رہا تھا۔اژدہا دیکھ کر اِن ضمیر فروش بے غیرت بد معاشوں کی گھگھی بندھ گئی اور وہ ننگے پاؤں گھر سے بھاگ نکلے ۔اِس کے بعد اُن کی مکروہ صورت کبھی دکھائی نہ دی ۔منہ زور وقت زندگی کے متعدد حقائق کو خیال و خواب بنا دیتا ہے ۔وقت اِس قدر سبک خرام اور سبک رو تھاکہ ابتدا ہی میں سب پروانے ثباتی کو چھوڑ گئے اور کوئی بھی اُس کی انتہا کی خبر نہ لایا ۔سُنا ہے کچھ عرصہ بعد وہ دونوں جذام اور کوڑھ کر مرض میں مبتلا ہو گئے اور ہیرا منڈی لاہور کے باہر ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک ما نگتے تھے لیکن کوئی اِن کو بھیک بھی نہ دیتا۔ ثباتی کوہر طرف سے دھتکار اور پھٹکار ملتی ۔ وہ حسینہ جو کبھی بے شمار پروانوں کے لیے شمع محفل تھی کوئی راہ گیر اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔
اﷲ دتہ حجام نے دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص ،دردمندی اور ایثار کی اساس پر جو پیمانِ وفا باندھا زندگی بھر اُسے استوار رکھا اور اِس معتبر ربط کوعلاجِ گردش ِ لیل و نہار سمجھا۔جھنگ شہر میں جب کسی کے گھر میں بچہ پیدا ہوتا اُس کے کان میں اذان دینے کے لیے ہمیشہ اﷲ دتہ حجام کو بلایا جاتا۔نو مولودبچے کے کان میں اذان دینے کے بعد وہ اس کی اچھی زندگی ،صحت ،سلامتی ،خوش قسمتی اور نیک عادات و اطوار کا حامل ہونے کی دعا کرتا ۔کم سِن بچے کے سر کے پہلے بال بھی وہ احتیاط سے اُتارتا۔خوشی کے اِس موقع پر اگر کسی خاندان کی طرف سے اپنی ذاتی مرضی سے اُس کی کچھ خدمت کی جاتی تو وہ اُسے قبول کر لیتا اور یہ رقم وہ اُسی وقت کسی مفلس بیوہ یا یتیم بچی کو پہنچادیتا ۔اﷲ کریم اُس کے وسیلے سے نادار لوگوں کے لیے فیض کے اسباب فراہم کر دیتا اور وہ دُکھی انسانیت کی غم گُساری میں ہمیشہ مصروف رہتا ۔وہ لڑکیوں کی تعلیم کا زبردست حامی تھا ۔نوجوان لڑکیوں کو پردے کا پابند بنانے کے لیے اُس نے عملی اقدامات کیے ۔جب کوئی غریب بچی جماعت نہم میں داخلہ لیتی تو اُس کے لیے سکول کی وردی اور بُرقع مُفت فراہم کرنے کی ذمہ داری اﷲ دتہ حجام نے از خود سنبھال رکھی تھی اِس نیک کام کے لیے اُسے شہر کے متعدد مخیر لوگوں کا تعاون حاصل تھا ۔جب کسی غریب بچی کی شادی کا موقع آتا تواﷲ دتہ حجام اُس کے جہیز میں رکھنے کے لیے ست رچھی ( لوہے ،پیتل اور تانبے کے چودہ برتن )ہر حالت میں مہیا کرتا ۔اِ ن میں پرات ،بالٹی ،تغاری ،جگ ،گلاس ،کڑاہی توا ،دیگچہ ،سر پوش ،ٹفن ،تھالی ،کٹورا ،گڑوی ،اور پتیلا شامل ہوتے تھے ۔اہل ِ درد کے تعاون سے وہ مونج کے بان سے بُنی ہوئی رنگین چارپائی اور پیڑھی بھی غریب بچی کے جہیز کے لیے پہنچا دیتا ۔ اپنے یہ کام وہ نہایت راز داری کے ساتھ جاری رکھتا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔اُ س کی یہ نیکیاں ہمیشہ غریبوں کے دِلوں کو مرکزِمہر و وفا کرتی رہیں گی ۔وہ اس قسم کے فلاحی کام ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہ کر انجام دیتا جب کوئی یتیم اور غریب بچی اپنے سسرال جاتی اور نیا گھر بساتی تواﷲ دتہ حجام خوشی سے پُھولے نہ سماتا اور سجدہء شُکر ادا کرتا ۔
اﷲ دتہ حجام ہر جان دار سے ٹُو ٹ کر محبت کرتا ۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ افراد کی محرومیوں اور تنہائیوں کے اعصاب شکن کرب کا مداوا صرف بے لوث محبت سے ہو سکتا ہے ۔اِس قسم کی بے لوث محبت انسان کو حصارِ ذات سے باہر نکال کر بیرونی دنیا کے ساتھ ایک ایسا مضبوط اور مستحکم تعلق قائم کرنے کی صلاحیت سے متمتع کرتی ہے ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ یہ محبت اُس کے جذبات و احساسات کو جہانِ تازہ سے آ شنا کرتی ہے اور حیات و کائنات کے جملہ مظاہر سے اُس کی قلبی وابستگی اُس کی شخصیت کو نکھار عطا کرتی ہے ۔اﷲ دتہ حجام نے اِ س عالمِ آب و گِل کے جُملہ مظاہر کے ساتھ ایک حیاتیاتی تعلق اُستوار کر رکھا تھا ، یہاں تک کہ مظاہر قدرت سے بھی اُسے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت تھی ۔ انسانوں ،حیوانوں ،شجر ،حجر طائرانِ خوش نوا اور باغ وصحرا سب اُس کی محبت کا محور تھے ۔نُور شاہ گیٹ کے ساتھ واقع ایک قدیم تاریخی تعلیمی ادارہ ہے اِ س میں پیپل کا درخت تھا جو 1560میں مغل افواج نے لگایا تھا ۔چار سو سال پرانے اس نخل تناور کی گھنی چھاؤں میں گرمیوں میں بچے کھیلتے اور اس کی شاخوں میں بے شمار طیور کا بسیرا تھا۔ان میں عنادِل اور چڑیوں کی بڑی تعدا د بھی شامل تھی ۔ دریائے چناب میں1973کے سیلاب کے بعد ایک طوفان باد و باراں نے اِ س قدیم درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔پرندوں کے گھونسلے تباہ ہو گئے ،اُن کے انڈے اور بچے رِزقِ خاک بن گئے اور کئی پرندے اِس نا گہانی آفت کی بھینٹ چڑھ گئے ۔صبح ہوئی تو سیکڑوں طیور اِ س آشیاں بربادی اور اپنے ہم نوا پرندوں کی ہلاکت پر اپنے دُکھ کا اظہار کر رہے تھے۔ بُلبل ،کوئل اور پپیہا شکستہ ٹہنیوں پر چونچیں مار مار کر اپنے دلی صدمے کا اظہار کر رہے تھے ۔فاختاؤں، قُمریوں اور چڑیوں کی چیخ پُکار سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس سانحے اور اپنے انڈوں بچوں کی بربادی پر ان مصیبت زدہ طیور کا سینہ پھٹ جائے گا ۔اﷲ بخش مالی ،اﷲ دتہ حجام، خدا بخش ،احمد بخش ، مرزا محمد وریام ،ملک عمر حیات ،حاجی محمد یوسف ،غلام علی چین اور ڈاکٹر محمد کبیر خان سب کی آ نکھیں پُر نم تھیں ۔جلد ہی بڑھئی آ گئے اور اُن کے قاتل تیشوں اور تیز آروں نے اس ساونت کے جِسم کو چیر کر رکھ دیا اور شاخیں ایندھن کے لیے کاٹ لیں ۔غلا م علی چین نے اس موقع پر یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا:
اِ س بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گِرا ہے
چِڑیوں کو بہت پیار تھا اُس بُو ڑھے شجر سے
یہ سُن کر اﷲ دتہ حجام کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور اُس نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’یہ درخت جو گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق تھا اب عبرت کا ایک سبق بن گیا ہے ۔‘‘
حاجی محمد یوسف نے کہا ’’ حیات و کائنات جِس میں نباتات ،جمادات ،جان دار اور بے جان شامل ہیں سیلِ زماں کی مہیب موجوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں ‘‘
اﷲ دتہ حجام بولا ’’یہی سچ ہے !دُنیا کی ہر چیز فنا کی زد میں ہے اور بقا تو صر ف ربِ ذولجلا ل ولاکرام کو حاصل ہے ۔‘‘
رام ریاض نے بھی اِسی سکول سے تعلیم حاصل کی تھی اور اِس قدیم درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر قابل اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا تھا ۔اِس چھتنار کے گِرنے پر اُس نے تمام احباب کے سامنے اپنے دِلی رنج اورغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
رام اِس دھوپ بھری دنیا میں
ایک دِن پیڑ نہ پتے ہوں گے
مقدر نے اﷲ دتہ حجام سے عجب کھیل کھیلا ۔وہ تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند تھا لیکن وہ پرائمری سے آگے نہ جا سکا اور حالات نے اُسے آبائی پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔اُس نے زندگی بھر یہ کوشش کی کہ شاہین بچوں کو تعلیم کے فراواں مواقع میسر ہوں اور وہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی سعی کریں ۔پرائمری سکول میں پڑھنے کے لیے جانے والے کم سن طلبا اور طالبات کی وہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ۔حاجی محمد یوسف کی کتابوں کی دکان سے سٹیشنری خرید کر وہ غریب اور مستحق طلبا و طالبات میں مفت تقسیم کرتا ۔جب سکول میں تفریح کا وقفہ ہوتا تو وہ سکول کے دروازے پر پہنچ جاتا اور ایسے ننھے مُنے بچوں کے لیے ریفرشمنٹ کا انتظام کرتا جن کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان ہو نہار بچوں کو بڑی مشکل سے سکول بھیجتے تھے ۔معصوم طلبا و طالبات اﷲ دتہ حجام کو رحمت کا فرشتہ سمجھتے اور اُس سے مل کر اُنھیں نہ صرف تعلیم بل کہ زندگی کی جد و جہد سے بھی پیار ہو جاتا ۔وہ کم سِن بچے جنھیں غریب والدین نے حالات کے جبر کے باعث چائلڈ لیبر کی بھٹی میں جھونک دیا تھا،اُن کو تعلیم پر مائل کرنا اُس کا نصب العین تھا۔اِس کام کے لیے اُس نے انتھک جد و جہد کی ۔جن ماہرین تعلیم نے اﷲ دتہ حجام کی مدد کی اُن میں عبدالحلیم انصاری ،عبدالستار نجم ،رانا عبدالحمید خان ،دیوان الیاس نصیب ، گدا حسین افضل ،شفیع ہمدم،محمد بخش گھمنانہ اور سمیع اﷲ قریشی شامل تھے ۔یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوئیں اور سیکڑوں بچے تعلیم حاصل کرکے مفید شہری بن گئے ۔اُس کے نیک اعمال ہمیشہ اچھے نتائج سامنے لاتے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے صائب اعمال کے اعجاز سے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتا ۔اس طرح رنگ ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے تمام استعارے اُس کے خلوص اور دردمندی کا ثمر قرار دئیے جا سکتے ہیں۔انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے اﷲ دتہ حجام نے جو بے لوث خدمات انجام دیں وہ اخلاقی لذتیت کے نظریے کی مظہر ہیں۔علمِ بشریات سے واقفیت رکھنے والے جا نتے ہیں کہ اخلاقی لذتیت اُس نظریۂ اخلاق کی مظہر ہے جس کے مطابق انسان یہ سیکھتا ہے کہ اُسے کس نوعیت کے اعمال اور کون سی خواہشات کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے ۔اُس کی یہ خوبی آخری عمر میں آفاقی لذتیت میں بدل گئی اور سارے جہاں کا درد اُس کے جگر میں سمٹ آیا ۔اُس کی شخصیت اور کردار میں جو حُسن و جمال اور دل کشی پائی جاتی تھی اُس کے سوتے اُس کی خوبیوں سے پھوٹتے تھے ۔ہوسِ زرو مال سے اُس نے کبھی اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔ وہ رقم بچانے اور اُسے سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اُسے غم زدوں پر بے دریغ خرچ کرنے کا حامی تھا ۔وہ اِس قدر خوش خصال اور خوش گفتار تھا کہ اُس کے پاس طویل نشست میں بھی تشنگی کا احساس ہوتا ۔اُس کی مقبول ،مستحکم اور دل کش شخصیت کا راز یہ تھا کہ اُس نے ہمیشہ تصنع سے اجتناب کیا اور سادگی اوربے ساختگی کو شعار بنایا زندگی کی برق رفتاریوں ،اِ س کی بو قلمونی اور تنوع کا ادراک کرتے ہوئے اُس نے قناعت اور ایثار پر مبنی اپنے دستور العمل کو حسب معمول پیش نظر رکھااور کبھی مصلحت اندیشی اور موقع پرستی کا خیال دل میں نہ لایا ۔چڑھتے سورج کے پُجاریوں اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ابن الوقت لوگوں سے اُس نے کوئی تعلق نہ رکھا۔معاشرت اور تمدن کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر اُس نے تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے میں گہری دلچسپی لی ۔اپنی نواسی کو اعلا تعلیم دلائی ۔اِ س کے علاوہ بے شمار غریب طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر اُ س کی تحریک پر سائنس اور طب کے شعبے سے وابستہ ہو کر دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
ہمارے معاشرے میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو پسِ پُشت ڈال کرا پنا اُلو سیدھا کرنے کی مذموم روش نے معاشرتی زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔اِ س سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ غیبت ،کِذب و افترا پر مبنی اِلزام تراشی اور من گھڑت بہتان لگاکر سادیت پسندی کے مریض لذت ایذا حاصل کرتے ہیں ۔اﷲ دتہ حجام نے اِس ِ قماش کے درندوں کو کبھی قریب نہ پھٹکنے دیا ۔سادیت پسندی (Sadism)کے مریض مارِ آستین ثابت ہوتے ہیں اور گُرگ آشتی اِ ن کا ہتھکنڈہ بن جاتا ہے ۔اِن کے شر سے بچنے کے لیے وہ قرآنی آیات کا کثرت سے وِرد کرتا ،خاص طور پرسورۃ الکوثر ، سورۂ اخلاص ،سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھنا اُس کا معمول تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اِس وظیفے کے معجز نما اثر سے انسان کینہ پرور حاسدوں اور سادیت پسندی کے عارضہ میں مبتلا درندوں کے شر سے محفوظ رہتا ہے ۔جن لوگوں نے اِس وظیفہ کو پڑھنا اپنا معمول بنایا اُن کی زندگی راحت سکون اور مُسرت سے گُزری ۔بتیس دانتوں میں جس طرح زبان محفوظ رہتی ہے اُسی طرح اِن آیات کے وظیفہ سے انسانیت ہمیشہ جِنوں اور انسانوں کے فساد سے محفوظ رہتی ہے۔
جُون 1983کی ایک گرم سہ پہر کو اﷲ دتہ حجام خلاف معمول جلد اپنا کام ختم کر کے اُٹھا کر حجامت کے اوزاروں کی صندوقچی بغل میں داب کر وہ گھر کے بجائے بازار کی جانب روانہ ہوا ۔ اگرچہ ضعفِ پیری کے باعث اس کی کمر میں معمولی خم تھا مگر وہ اس اعتماد سے چلتا تھا کہ وہ وقار،خود داری اور عزت و تکریم کی مجسم صورت دکھائی دیتا تھا ۔اس کی ڈاڑھی اور سر کے بال سحر کی چاندنی کے مانند سفید ہو چکے تھے ۔ اُس روز وہ اپنے کام کی مقررہ جگہ سے یو ں اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔اس نے گرد ونواح کے آٹھ عشروں سے مانوس ماحول کواس انداز سے دیکھا جیسے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہو کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے بعد وہ حسب معمول سیدھا نو ر شاہ بازار کے نیک نام خادِ م خلق ،متقی تاجر، اپنے معتمد ساتھی ،دیرینہ رفیق او ر محرم راز حاجی مر زا محمد وریام کے پاس پہنچا اور دیر تک اپنے دِل کی لا شعوری کیفیات سے اپنے محرمِ راز رفیق کو آ گاہ کیا ۔یہ دونوں ساتھی اقلیم معرفت کی منازل کے رمز آ شنا اور کم و کیف ِحیات کی میزان پر دھیان رکھتے تھے ۔وہ یہاں سے اُٹھا تو اس کی جسمانی کیفیت دیکھ کر حاجی مرزا محمد وریام کا دِل بیٹھ گیااور پُرنم آ نکھوں سے اپنے ساتھی کو الوداع کہا۔اس کے بعد اﷲ دتہ حجام نے بازار کے سب راہ گیروں اورتمام دکان داروں سے مصافحہ کیا اور اُنھیں اﷲ حافظ کہا۔ بازار سے گزر کر سبزی منڈی سے ہوتا ہوا وہ ممنا گیٹ جھنگ شہر میں مقیم دُکھی انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے جھنگ کے معروف معالج حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والا حکیم )کے مطب میں پہنچا ۔ اس پُر اسرار شخصیت کے مالک حکیم کی شخصیت بھی ایک سر بستہ راز تھی۔ حکیم اجمل خان کا شاگرد اورطب یو نانی کا یہ ممتاز معالج ہمہ وقت دردمندوں ،ضعیفوں ،ناداروں اور بیماروں کی خدمت کے لیے اپنے مطب میں مو جود رہتا۔ اور مطب میں علاج کی غرض سے آنے والے ہر مر یض سے دوا علاج کے محض چار آنے وصول کر تاتھا۔ حکیم احمد بخش نذیر نے اﷲ دتہ حجام کی نبض پر ہاتھ رکھا ،سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ حکیم احمد بخش نذیر نے اﷲ دتہ حجام کو خمیرہ گاؤ زبان کی ایک ڈبیہ اور ساتھ عرق گلاب اور شربت شفا کی ایک بو تل دی اور ان ادویات کا معاوضہ محض ایک چوّنی وصول کی ۔اِس کے بعد اﷲ دتہ حجام بوجھل قدموں سے اپنے گھر پہنچا او ر درو دیواراور گھر کے مکینوں پرایک نگاہ ڈالی ا ور دستِ دعا اُٹھائے پھر ہاتھ لہرا کر سب کو اس ا نداز میں سلام کیاکہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ یہ اُس کا سلامِ آخر ہے ۔عشا کی نماز سے فارغ ہو کر اُس نے سب عزیزوں کو اپنے پاس بلایا اور کچھ ہدایات دیں ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کا دمِ آخریں بر سرِ راہ ہے اور اب وہ وقت آپہنچا ہے جب اﷲ ہی اﷲ کرنا لازم ہے ۔ اپنے وقتِ مرگ کے انتظامات اورتعزیت کے لیے پہنچنے والے سوگواروں کے قیام و طعام کے بارے میں اس نے واضح کر دیا کہ اس سلسلے میں کسی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔یہ سب انتظامات وہی ہستی کرے گی جس کی قدرت سے نظام ہستی پیہم چل رہا ہے۔اس کے بعداﷲ دتہ حجام نے اپنے سب عزیزوں کو اﷲ حافظ کہا اور کلمہ ٔ طیبہ کا وِرد شرع کر دیا ۔ اس اثنأ میں اچانک اُس کی آنکھیں مُند گئیں اور اُس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔اُس کا چہرہ پُر سکون تھا اور اُس کے لبوں پر ہمیشہ کی طرح مُسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔ اپنی وفات سے چند ماہ پہلے اﷲ دتہ حجام نے اپنے معمتد ساتھیوں کو جھنگ رنگ کے مشہور شاعر محمد شیر افضل جعفری کا یہ شعرسنایاتھا :
میری موت تے ہوسیں جنج ورگی
سُنجی زندگی چُپ چپیتی اے
جھنگ شہر کو دریائے چناب کے سیلاب سے بچانے والے حفاظتی بند کے قریب واقع جھنگ سے سر گودھا جانے والی شاہراہ کے نزدیک واقع ا ﷲ دتہ حجام کے کچے گھروندے کی نواحی بستی منشیاں والا کے مکین اور اس کے عقیدت مند مرزا محمد رمضان فیض جو پاکستان بری فوج میں خدمات پر مامور ہے ہیں ۔وہ اکثر اس مردِ خود آگاہ کی کشف و کرامت اور فیضانِ نظر کے چشم دید واقعات بیان کرتے ہیں۔ جب اﷲ دتہ حجام نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھا تو مرزا محمد رمضان فیض بھی وہاں موجود تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ اﷲ دتہ حجام توحید ورسالت کا پروانہ اور اسلام کا شیدائی تھا۔اس متقی ،خدا ترس اور پارسا بزرگ نے دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص ،وفا ،ایثار اور دردمندی کا جورشتہ استوار کیا اسی کو سدا علاج گردش ِ لیل و نہار سمجھا ۔انسانیت کے اس بے لوث خادم اور مظلوم و مجبور مخلوق کے مونس و غم گسار کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا ۔اﷲ دتہ حجام کے جنازے میں جھنگ اور گرد و نواح کے قصبات سے ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اﷲ دتہ حجام کا کھنڈر نما کچا گھروندا جو طوفانِ نوحؑ کی باقیات بن چکا تھا اس کی چاروں اطراف میں دریاں بچھ گئیں ، سائے کے لیے تمام راستوں پر بڑے بڑے خیمے نصب کیے گئے اور قناتیں لگا دی گئیں ۔ تشنہ لب مہمانوں کی پیاس بجھانے کے لیے جگہ جگہ خنک آب ِ شیریں کی سبیلیں لگ گئیں ۔ہزاروں سوگواروں کے قیام و طعام کا ایسا اعلا انتظام اس علاقے میں نہ کسی نے پہلے دیکھا تھا نہ ہی سنا تھا۔ یہ معما نہ تو کسی کی سمجھ میں آیا اور نہ ہی مرحوم کا کوئی عزیز یہ گتھی سلجھا سکا کہ عجزو انکسار ، استغنا ،قناعت اور فقر و مستی کے اس پیکر کا گھر جہاں کی بے سروسامانی کسی سے پوشیدہ نہ تھی ۔ گزشتہ شب جس جگہ خشک نانِ جویں اور گھڑے کا گرم سادہ پانی تک دستیاب نہ تھاوہاں یکا یک انواع و اقسام کے کھانے ،ٹھنڈا پانی،بڑی تعداد میں فرشی برقی پنکھے اور قیام و طعام کے اس قدر معیار ی انتظامات کی ذمہ داری کس شخصیت نے سنبھال رکھی ہے ۔ روحانیت ،معرفت، ما بعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی میں گہری دلچسپی رکھنے والے مشہور ماہر تعلیم اور ماہرِ نفسیات حاجی حافظ محمد حیات نے بر ملا کہا کہ انھوں نے سمتِ غیب سے قدموں کی چاپ سُنی ہے اوریہ سب انتظامات قدرتِ کاملہ کا اعجاز ہے۔ جب اﷲ دتہ حجام نے کوہِ نِداکی صداپر ساتواں در کھول کر دُور بہت ہی دُوراپنی بستی بسانے کاقصد کر لیا اس وقت مرزا محمد رمضان فیض نے اپنے اس بزرگ کی خدمت میں آنسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کیا۔ شریف خان، احمد یار ملک ،ملک عمر حیات، حاجی حافظ محمد حیات، سید عامر حسن گیلانی، گدا حسین افضل ، شفیع ہمدم،مرزا محمد رمضان فیض او ر علاقے کے متعدد واقفِ حال مکینوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ کھانوں اور پانی کا ذائقہ اس عالمِ آب و گِل کے کھانوں کے ذائقہ سے کہیں بہتر اور منفرد تھا ۔سب کا یہی گمان تھا کہ یہ سب کچھ خلد بریں سے ہو رہا ہے اور یہ اس بے نیاز اورعظیم ہستی کا سجایا ہوا خوانِ نعمت ہے جو ہم نیاز مندوں کو من و سلوٰی سے نوازتا ہے ۔ اس مو قع پر ایسے فرشتہ صورت نورانی چہروں والے لوگ بھی موجود تھے جنھیں اس علاقے میں پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔یہی خاموش طبع اور پاکیزہ کردار والے اجنبی جن کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر س رہی تھیں، اور زبان پر کلمۂ شہادت کا وِرد جاری تھا غسل اورکفن کے کاموں میں مصرو ف تھے۔ سفید لباس میں ملبوس گور کن بھی نا مانوس اور اجنبی تھے جو نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی رو پہلی کدالوں سے اﷲ دتہ حجام کی قبر کی کھدائی کے بعد نمازِ جنازہ ادا کر کے پلک جھپکتے میں نہ جانے کِس سمت چلے گئے۔اﷲ دتہ حجام کی لحد کی خاکِ مرقد سے عنبر فشانی جاری تھی۔
سرخ گُلاب کے پھولوں کی پتیوں سے سفیدکفن ڈھک گیا تھا ۔ اس قدیم اور تاریخی شہر میں اتنا بڑا جنازہ پہلے کسی نے نہ دیکھا تھا ۔لحد تیار تھی نامور ماہر تعلیم اور ممتاز عالمِ دین حافظ ارشاد احمد نے سوگوار حاضرین سے مخاطب ہو کر گلو گیر لہجے میں کہا :’’دُکھی انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والا آنے والا حجام اﷲ دتہ اب ہمیشہ کے لیے اِس دنیا سے جانے والا ہے ۔میں یہ بات پُوری دیانت داری سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب اِس دنیا میں غریبوں سے درد کا رشتہ نبھانے والا ،یتیموں ،مسکینوں اور غریبوں کا درد بانٹ کر سد ا مُسکرانے والا عظیم انسان حجام اﷲ دتہ جیسا آنے والا اب کبھی نہیں آئے گا ۔ایسے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حافظ ارشاد احمد نے اردو زبان کے جدید لہجے کے شاعر اسلم کولسری کے یہ اشعار پڑھے تو جنازے میں شامل لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے:
سوچ سوالی کر جاتے ہیں
صبحیں کالی کر جاتے ہیں
اسلم ؔ چھوڑ کے جانے والے
آنکھیں خالی کر جاتے ہیں ‘‘
سب حاضرین احساسِ زیاں کے ماتم طلب صدمے سے نڈھال تھے ۔ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی ۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں اور اس فانی دنیا میں عزیزوں کی دائمی مفارقت کے صدمے ہمیشہ سو ہانِ روح ثابت ہوئے ہیں۔عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والوں کے پس ماندگان اُن کی جدائی پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔اِ س بات کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکاکہ وہ لوگ جن کی زندگی روشی کا مینار ہوتی ہے اور جن کی موجودگی ہمارے لیے خضرِ راہ ہوتی ہے اور جنھیں ہم دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں،جب وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے داغ ِ مفارقت دے جاتے ہیں اُن کا متبادل کہاں سے تلاش کیا جائے ۔اﷲ دتہ حجام جیسے لوگ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔حیات و ممات کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی اب تک کوئی نہیں کر سکا ۔جب میں اپنے اِرد گِرد کا ماحو ل دیکھتا ہوں تو مجھے اﷲ دتہ حجام کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔اُس نے دردمندوں ،مظلوموں اور ضعیفوں کی جس بے لوث انداز میں خدمت کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی شخص ایسا دکھائی نہیں دیتا جسے اﷲ دتہ حجام جیسا کہا جا سکے۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
کر بلا حیدری جھنگ کے مغربی گوشے کی زمین میں انسانی ہمدری اور شرافت کا یہ آسمان آسودہ ٔخاک ہے ۔اﷲ دتہ حجام کے ایک عقیدت مند غلام محمد نے اُس کی آخری آرام گاہ کو شایانِ شان انداز میں تعمیر کرایا اور اُ س پر لوح ِمزار بھی نصب کرائی ۔یہ مزار آج بھی مرجع ِخلائق ہے ۔
لوح ِ مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 601218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.