پینے کے پانی میں’’سنکھیا ‘‘ کا خطرناک انکشاف

’’سنکھیا ‘‘ جسے عربی میں ’’سم الفار‘‘ فارسی میں ’’مرگ موش‘‘ اور انگلش میں (Arsenic) کہاجاتا ہے، ایک معدنی زہر، ایک زہریلا مادہ اور ایک بے ذائقہ کیمیائی جزو ہے، جو زیر زمین لوہے اور گندھک کے ساتھ ملا ہوا پایا جاتا ہے ، اس کی معمولی سی مقدار( یعنی ایک اونس کا سوواں حصہ جو تقریباً 284 ملی گرام بنتی ہے) بھی جلد اور دل کی بیماریوں، پھیپڑوں اور مثانے کے سرطان اور کینسر ، شوگر، ہیپاٹائٹس وغیرہ جیسے موذی اور خطرناک امراض کا باعث بن سکتی ہے ۔
 

image


2003 ء میں جب عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) کی ٹیم نے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے پانی کا ٹیسٹ کیا اور رپورٹ جاری کی تو یہ سن کر ہم چونک کر رہ گئے کہ پنجاب بھر کے اکثر و بیشتر علاقوں ٗ لاہور، ملتان، فیصل آباد، بہاول پور، گوجراں والا، سیال کوٹ، ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ اور قصور وغیرہ کے لوگ پانی نہیں اصل میں زہر پی رہے ہیں ۔ لاہور کے اکثر و بیشتر ہسپتالوں میں جو مریض لائے جاتے رہے اُن میں سے ’’سنکھیا‘‘ سے متاثر تقریباً سو فی صد لوگ ، جب کہ ملتان کے ہسپتالوں میں لائے جانے والے 94 فی صد لوگ جلد اور دل کی بیماریوں، پھیپڑوں اور مثانے کے سرطان اور کینسر ، شوگر، ہیپاٹائٹس وغیرہ جیسی موذی اور خطرناک بیماریوں میں مبتلاء تھے۔

جب کہ حالیہ تحقیق کے مطابق بد قسمتی سے وطن عزیز ملک پاکستان میں زیر زمین پانی میں اس زہریلے اور خطر ناک مادے کی انتہائی زیادہ مقدار میں آمیزش کا انکشاف ہوا ہے، جس کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں ٗحیدر آباد، وسطی سندھ ، بالائی سندھ، جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہائش پذیر پانچ سے چھ کروڑ افراد گزشتہ چند سالوں سے ’’سنکھیا ‘‘ملے زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں ۔

صوبہ خیبر پختون خواہ اورگلگت بلتستان سے لئے گئے پانی کے نمونوں میں ’’سنکھیا‘‘ کی مقدار خاصی حد تک کم تھی ، جب کہ صوبہ بلوچستان کے صرف دو مقامات پر زیر زمین پانی میں ’’سنکھیا‘‘ کی زیادہ مقدار نوٹ کی گئی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت W.H.O کی جانب سے ملک بھر میں حاصل کردہ زیر زمین پانی کے 12 سو نمونوں کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان میں یہ زہریلا مادہ ’’سنکھیا‘‘ وافر مقدار میں موجود ہے ، جس کے ایک طویل عرصے تک استعمال کیے جانے کے نتیجہ میں انتہائی خطر ناک اور جان لیوا بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ، جن میں جلد اور دل کی بیماریاں، پھیپڑوں اور مثانے کا سرطان اور کینسر، شوگر، ہیپاٹائٹس وغیرہ جیسی خطرناک اور مہلک بیماریاں شامل ہیں۔

سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں جاری ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2013ء سے لے کر 2015ء کے درمیانی دو سالوں میں12 سو مقامات سے حاصل ہونے والے زیر زمین پانی کے نمونوں کی بنیاد پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں پانی کے بیشتر کنوؤں میں ’’سنکھیا‘‘ کی مقدار عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) کے طے شدہ معیار سے پانچ گنا سے بھی زیادہ ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ دُنیا بھر میں 15 کروڑ افراد جب کہ پاکستان میں 70 فی صد افراد اسی ’’سنکھیا‘‘ ملے زیر زمین پانی پر انحصار کر رہے ہیں ، جس کے نتیجہ میں پاکستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی یعنی 6 کروڑ لوگ اس ’’سنکھیا‘‘ ملے زہر آلود پانی سے متاثر ہیں ۔

جب کہ ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کے بیشتر نمونوں میں ’’سنکھیا‘‘ کی مقدار 51 مائیکرو گرام فی لیٹر سے ہوکر 200 گرام فی لیٹر ہے، لیکن کئی نمونوں میں یہ مقدار 201 مائیکرو گرام فی لیٹر سے ہوکر 972 مائیکرو گرام فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پانی کے اِن نمونوں میں ’’سنکھیا‘‘ کی مقدار محفوظ عالمی حدود سے 5 تا 97 گنا زیادہ، جب کہ وطن عزیز ملک پاکستان کے مقرر کردہ معیارات کے تناظر میں محفوظ حد سے بڑھ کر انتہائی تشویش ناک طریقے سے 19 گنا تک زیادہ ہوچکی ہے ۔
 

image


عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) کی رپورٹ کے مطابق ایک لیٹر پانی میں ’’سنکھیا‘‘ کی مقدار زیادہ سے زیادہ 10 مائیکرو گرام تک ہونی چاہیے، جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ معیار کے مطابق یہ شرح ایک لیٹر پانی میں زیادہ سے زیادہ 50 مائیکرو گرام تک بھی قابل قبول ہے، لیکن بایں ہمہ اس وقت بدقسمتی سے پاکستان کے عوام گزشتہ کئی سالوں سے پینے کے لئے وہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ جس میں عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) کی جانب سے مقرر کردہ مقدار کے مطابق نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ مقدار سے بھی کہیں زیادہ ’’سنکھیا‘‘ جیسے زہر آلود مادے کی آمیزش موجود ہے۔

ماہرین کے مطابق 60 فی صد سے زائد بیماریاں ایسی ہیں جو پانی کی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں ، جس سے معاشرہ کا اکثر و بیشتر حصہ مختلف قسم کے عوارض اور امراض کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے اور ان بیماریوں پر اربوں کھربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کردیتا ہے ، حالاں کہ اگر ریاست اور حکومت چند لاکھ یا چند کروڑ روپے لگاکر اپنی عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کا اہتمام کردے تو اس سے ایک تو معاشرہ صحت مند رہے اور دوسرا اس سے اس قدر زائد دولت ضائع ہونے سے بچ جائے ۔

اس میں شک نہیں کہ پینے کا صاف پانی ہر انسان کی زندگی کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے ، اور بنیادی ضروریات کا پورا کرنا ہر ریاست کا فرض بنتا ہے ، اسی وجہ سے کامیاب اور ترقی یافتہ حکومتیں وہی کہلاتی ہیں جو اپنے عوام کے بنیادی اور ضروری مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتی ہیں اور عوام کو حکومت کے بارے میں کسی بھی قسم کے گلے شکوے کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتیں ، وہ حکومتیں اور ریاستیں کام یاب اور ترقی یافتہ نہیں کہلاتیں جو اپنے مظلوم اور قابل رحم عوام کے بنیادی مسائل اور اُن کی اوّلین ضروریات سے بھی منہ پھیر لیں اور اُنہیں اپنے ہی خلاف ہر قسم کی لب کشائی کرنے کا موقع فراہم کردیں۔

لہٰذا اس تناظر میں ہم حکومت پاکستان سے اِس بات کی پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کی بنیادی ضرورتوں بالخصوص پینے کے لئے صاف شفاف پانی کا انتظام کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی جانب سے مقرر کردہ معیار کے مطابق ایک لیٹر پانی میں ’’سنکھیا‘‘کی مقدار زیادہ سے زیادہ عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) کی رپورٹ کے مطابق اگر 10 مائیکرو گرام تک قرار نہیں دے سکتی تو کم از کم اپنی جانب سے مقرر کردہ 50 مائیکرو گرام تک ہی رہنے دے اُس سے زائد نہ ہونے دے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Up to 60 million people living in Pakistan's Indus Plain are at risk of being affected by high levels of arsenic in the region's groundwater supply, according to a new study in the journal Science Advances. An international team of scientists created a "hazard map" of locations at risk using water samples collected from almost 1,200 sites across the country, the majority of them from hand and motor pumps.