مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے

جمعہ کی شام کام سے فارغ ہو کراک دوست کے گھر پہنچا تو موصوف یہ فرما کر کہ میں ذرا فریش ہو کر آتا ہوں غاٰئب ہو گئے۔ جب واپس آئے تو جینز اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔کافی حیرت ہوئی کہ جینز میں بھلا کوئی کیسے ریلیکس ہو سکتا ہے۔ مگر کیا کرتے کہ زندہ وجاویدمثال سامنے موجود تھی۔ چنانچہ اپنی اِس سوچ کو رد کرنا پڑا کہ چین تو صِرف شلوار قمیض میں ملتا ہے۔ یار دوست سمجھاتے ہیں کہ میاں لباس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور دقیانوسی باتیں مت سوچا کرو۔ مگر کیا کروں کہ جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے اپنی چیزیں اچھی لگنے لگی ہیں۔ اپنے بزرگ شدت سے یاد آنے لگے ہیں۔ پہلے تو ایسا نا تھا۔ پہلےوالی روشن خیالی جانے کہاں کھو گئی ۔ اگر ذہن پر زور ڈالوں تو شاید یہ سب کیا دھرا اُس دن کا لگتا ہے جب اِک دوست نے اِتحاد ایئرلائن کو "ایٹی ہیڈ" کہا - ساری رات اِس سوچ میں گزری کہ میاں اُن کی تو مجبوری ہے کہ وہ اِتحاد بول نہیں سکتے۔ تم نے کس خوشی میں اپنا اِتحاد خراب کر لیا۔ رات قریباً ٖڈھائی بجے تک جب سو نا سکا تو سوچا کہ چلو دو نفل ہی پڑھ لوں۔ اُس لمحے جانے کہاں سے اشفاق احمد صاحب کے زاویہ سے سیکھی یہ دُعا ذہن میں آ گئی اور گڑگڑا کر رب العالمین سے یہ اِلتجا کی کہ "یا رب العالمین! مجھے اِتنی عزت، اِتنی آذادی عطا فرمایئےکہ مجھے اپنی جیزیں پسند آنے لگیں"۔لو بھئی اب بھگتو۔ اچھی بھلی روشن خیالی کی زندگی گزر رہی تھی۔

اِک محفل میں یار دوستوں سے شکسپیئر کی کسی اچھی تصنیف کہ بارے پوچھا تو جن احباب کااداب سےدور کا واسطہ بھی نا تھا وہ بھی ہیملیٹ کی رَٹ لگا بیٹھے۔ اور جب اِبن خلدون کی تصنیف کے بارے پوچھا تو یکا یک چار سو خاموشی چھا گئی۔ قصور شاید ہمارا اتنا ہے بھی نہیں۔ بلکہ یہ ثمر تو اُس تعلیمی نظام کا ہے جو ہمیں اپنے ہیروز کی خبر نہیں دیتا۔ اُس پر طُرّہ یہ کہ روشن خیال یار دوست ہر وقت یہ راگ الاپتے ہیں کہ اگر یہ قوم اپنے ماضی کو یاد کرنے کے بجائے مستقبل پر دھیان دے تو کیا بڑے بڑے سا ئنسدان پیدا کرے گی۔ اِنا اللہ وااِنا اِلہ راجعون۔ ارے بھئی مستقبِل پر نظر رکھنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ ماضی کو بھول جایا جائے۔ تم دونوں پر نظر کیوں نہیں رکھتے۔

امام غزالی اپنی تصنیف "احیاالعلوم" میں فرماتے ہیں کہ محبت کی عینک لگائی ہو تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ اور اگر نفرت کی عینک لگائی ہو تو کوئی اچھائی نظر نہیں آتی۔ جب بھی اپنے ملک،اپنی جیزوں کو دیکھا تو نفرت کی عینک سے دیکھا اور ہر محفل میں گھل مل گیا، زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی۔ واہ رے یہ کیا دُعا سیکھ لی کہ ساری عینک ہی بدل گئی۔ اب ڈھونڈتا پھرتا ہوں، کہ کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو۔ یہ کیسا تعلیمی نظام ہے جس نے ہمیں سوچ کے یہ انداز عطا کیے ہیں کہ لوگ اب یہ کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ "معاف کیجیئے میری اُردو ذرا کمزور ہے" کبھی کسی غیرت مند قوم کو اپنی زبان کے بارے یہ کہتے سنا نہیں۔

1400 سال پہلے جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ طیّبہ پہنچے تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ٹوپی پہن کر اُس کے اوپر پگڑی پہننے کی تلقین کی کیوں کہ مشرکینِ مکّہ بغیر ٹوپی پگڑی باندھا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ایک الگ شناخت ہو، لہَذا یہ حُکم ہوا۔ یہ حُکم فتح مکّہ کے بعد منسوخ ہوا۔ مدینہ کے یہودی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھی کٹواتے تھے۔ چنانچہ حُکم ہوا کہ مسلمان داڑھی بڑھائیں اور مونچھیں کتروائیں۔ اور اصل روزہ تو ہمیشہ سے دسویں محرّم ہی کا تھا۔ یہ جو مسلمانوں کو حُکم ہوا کہ ساتھ یا نویں اور یا پھر دسویں کا روزہ ملا لیں تو یہ اِس وجہ سے تھا کہ مسلمان قوم کی اپنی ایک شناخت ہواور وہ دوسری اقوام سے الگ نظر آئیں۔ کتنی آسانی سےہم اپنی شناخت مٹاتے جا رہے ہیں
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔

قومیں غلامی کی راہ پر کس طرح چلتی ہیں اِس پر ابنِ خلدون کا مشاہدہ ملاحظہ فرمائیے۔ وہ اپنی کتاب "مقدمہ" کے حصہ اول ، فصل 23 میں "مفتوح قومیں فاتح قوم کا تمدن بڑی خوشی سے قبول کرتی ہیں" کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں۔ " مفتوح قوم کے لوگ فاتح قوم کی ہر ادا کو دِل سے چاہنے لگتے ہیں اور اُنھی کی مشابہت اختیار کرنے لگتے ہیں۔ مفتوح کے اس فعل کو اقتداء کہا جاتا ہے۔ اِس لیے تم دیکھو گے کہ مفتوح ، فاتح کے ہر فعل کی نقل کرتا ہے۔ کھانے پینے میں، پہننے اوڑھنے میں، رہنے سہنے میں"۔ ابنِ خلدون اِس اقتداء کی تشبیہہ یوں دیتے ہیں کہ "بیٹے باپوں کی ادائیں لے اڑتے ہیں"۔ مزید فرماتے ہیں کے اگر غور و فکر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو مفتوح قوم کے ہر فعل سے غلامی کی نشانی ٹپکتی ہے۔

یار احباب سمجھاتے ہیں کہ جمہوریت ایک سیلف کلینِنگ سسٹم ہے۔ اور آرمی کا کام نہیں کہ وہ ملک چلائے اور یوں بھی اُن کے پاس ملک چلانے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ گویا سیاستدانوں کے پاس تو یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ پون صدی ہونے کو ہے ، جمہوریت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہی نہیں۔ سوچتا ہوں اور بھی تو قومیں ہیں۔ اُنھیں تو جمہوریت راس آ گئی ، ہم کہاں غلطی کرتے ہیں؟ بڑے بڑے مفکروں نے اِس بات پر اظہارِخیال کیا ہے۔ ایک دقیانوسی رآئے پیش کرنے کی جسارت ہماری بھی سہی۔ رب العالمین نے یہ بات دِل میں (ذہن میں نہیں) ڈال دی کہ جمہوریت میں کچھ جیزیں ایسی ہیں جو رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ جیسےکہ عدل، انصاف وغیرہ لہّذا جب غیر مسلم قومیں جمہوریت کی طرف آتی ہیں تو وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی طرف آرہی ہوتی ہیں۔ مگر ہمیں تو اِک نظام آقائے نامدارﷺ نے پہلے ہی عطا کیا ہوا ہے۔ لہّذا جب ہم اُس نطام کو چھوڑ کر جمہوریت کی طرف جاتے ہیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے دور جا رہے ہوتے ہیں۔ تو معاملہ اب کچھ یوں ہے کہ ہمارا جمہوریت کی طرف جانا اور اُن کا جمہوریت کی طرف آنا دو متضاد فعل ہیں۔ ایک نبی اکرام ﷺ کی طرف آرہا ہے تو ایک اُن سے دور جا ر ہا ہے۔یہ دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ متضاد فعل کا ایک سا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ لہّذا غیروں کی تقلید بند کر کے اپنے اسلاف کی تعلیمات کی جانب رخ کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا رسول اللہ ﷺ آرمی چیف نہیں تھے؟ کیا تمام خلفائے راشدین نے فوج کی سپہ سالاری کے ساتھ حکومت نہیں کی؟ کیا صلاح الدین ایوبیؒ آرمی چیف نہیں تھے؟ اور محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شیر شاہ سوری کیا یہ سب فوج کے سپہ سالار اورحکومت چلانے والے نا تھے؟ تاریخ ہمارے بزرگوں کی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر جب اُٹھی غیر کیطرف اُٹھی۔
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے۔

مزید ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا گیا ہے غلام نہیں ۔لہّذا جب کوئی قوم غلامی کے رستوں پر چل پڑے تو وہ اِس راستے کی انتہا پر پہنچ کر فنا ہو جاتی ہے۔ لباس اور رہن سہن تو ہم اپنا ہی چکے اُن کا۔ اب اُن کی اچھائیاں کچھ ذیادہ ہی اچھی لگتی ہیں اور اُن کی برائیاں اب اتنی بری نہیں رہیں۔ البتہ اپنی برائیاں اب محدب عدسہ کے نیچے آ گئیں اور کچھ زیادہ ہی بری ہو گئیں۔ اور اپنی اچھائیوں نے تو گویا حجاب ہی کر لیا۔ لوگ یہ تذکرہ تو کرتے ہیں کہ ایسی قوم کا کیا بنے گا جہاں گلاس کو بھی کولر سے باندھ کر رکھنا پڑتا ہو۔ مگر یہ بات کہ کولر بھی کسی نے اپنے خرچے پر گھر کے باہر راہگیروں کے لیے فی سبیل اللہ لگا رکھا ہے کسی کو نطر نہیں آتی۔ اُنکے وزیراعظم کو تیز گاڑی چلانے پر جرمانہ ہو جائے تو واہ واہ اور اپنے کو عمر بھر کے لیے عدلیہ نااہل قرار دے دے تو بھی کوئی متاثر نہیں ہوتا۔

کیا میری قوم اِس سفر کی انتہا پر پہہنچے گی اور ابنِ خلدون کے مطابق فنا ہو جائے گی یہ سوال مجھےپریشان کرتا رہا۔ اور پھر یوں ہوا کہ غلامی کے اس سفر کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ آگئی اور اچانک ہی مشیتِ ایزدی سے دہشت گردی کا جن بوتل سے نکل پڑا۔ اور اِس جن نے غیروں کے دِلوں میں نفرت کی وہ آگ روشن کی کے اُنھوں نے ہمیں اپنی غلامی میں لینے سے ہی انکار کر دیا۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم تو بھاگم بھاگ اُن کی سمت جاتے ہیں اور وہ ہیں کہ ہمیں دھتکار دیتے ہیں۔ لہّذا اِس راستے کی وہ انتہا جہاں ابنِ خلدون کے مطابق قومیں جب پہنچتی ہیں تو فنا ہو جاتی ہیں، وہاں پہنچنا تو ممکن نہیں لگتا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کب ہم اپنی سوچوں سے غلامی کی چادر اُتار پھینکتے ہیں، کب ہم اپنی عینک بدلتے ہیں اور کب ہم اپنےپیاروں کی موت پر موم بتیاں جلانے کی بجائے دوبارہ سےفاتحہ پڑھنا شروع کرتےہیں۔ یا رب العالمین میری قوم کو اور مجھے اتنی عزت اور آزادی عطا فرمایئے کہ ہمیں اپنی ہی جیزیں پسند آیا کریں۔ آمین۔

Zeeshan Qureshi
About the Author: Zeeshan Qureshi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.