بتا اے زندگی!

اے زندگی!!

"چل بیٹی کلثوم! جلدی کر۔۔ بس نہ نکل جائے کہیں۔۔۔ "

بابا فضلو نےبھ اگتے ہوئے بمشکل یہ الفاظ ادا کئے، اور تقریباً ہانپتے ہوئے بستہ اپنے کندھے سے کلثوم کے کندھے پہ منتقل کیا۔

کلثوم کو اچانک کچھ یاد آیا، 'ابا میری فیس۔۔ ؟ کل آخری تاریخ ہے! '

بابا فضلو نے لمحہ بھر کچھ سوچا ۔۔۔ " فکر نہ کر بیٹی، بیگم صاب نے تنخواہ ایڈوانس دینے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔ بس تو پرچہ اچھے سے دینا بیٹا!
آگےاللہ مالک ہے۔

مسافروں سے کھچا کھچ بس اب قریب آ گئی تھی، کلثوم باپ کے جھریوں زدہ چہرے کو دیکھتے دیکھتے بس پر سوار ہو گئی۔۔۔۔۔

بابا فضلو انہی پیروں سے واپس پلٹا ۔۔۔ رفتار میں تیزی ، چہرے پہ پسینہ اور دل میں خوف لئے اب وہ واپس کوٹھی کی جانب دوڑا جا رہا تھا، گیٹ پر پہنچتے ہی سامنا کشمالہ بی بی سے ہوا، جو غضبناک نظروں سے اسی جانب دیکھ رہی تھی، دیکھتے ہی بولی۔۔۔

"کہاں مر گئے تھے، آج اگر مجھے کالج سے دیر ہوئی نا، تو پیسے تمہاری تنخواہ سے کٹیں گے، سمجھے؟!"

'تیسرا دن ہے آج، پتہ نہیں صبح صبح کہاں چلا جاتا ہے'! وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کی جانب بڑھی۔

ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ، بابا فضلو کی عرق آلود پیشانی کے پیچھے مضمحل دماغ نے کلثوم کی فیس، بیوی کی دمے کی دوائی، گھر کا راشن اور ناجانے کیا کیا سوچ ڈالا ۔

"اب جلدی کرو!" وہ بدستور برہم لہجے میں بولی۔

"جی بی بی۔" وہ مؤدبانہ لہجے میں بولا۔ " آئندہ دیر نہیں ہو گی، آپ بڑی بی بی سے شکایت نہ کرنا'

مستعدی سے گاڑی کا دروازہ کھولے، بابا فضلو نے لمحہ بھر کو بی بی کشمالہ کی جانب دیکھا جو اس کی درخواست ان سنی کر کے بیٹھتے بیٹھتے اپنا فیس بک کھول رہی تھی۔

اور آج کے دن کا پہلا سٹیٹس اپ ڈیٹ کچھ یوں تھا۔۔۔۔

Kashmala feeling blessed *angel face emoji*

"Going to college for exam guys.. !
pray for my success.. the weather is beautiful. Life is soo good .. ALHAMDULILLAH ."

YOU MAY ALSO LIKE: