کچھ روشنی باقی تو ہے!

وہ انتظار گاہ میں آنے والے ہر بیمار سے پرچی لیتا اسے مطلوبہ وارڈ میں پہنچاتا اور ایکس رے یا باقی تمام مراحل میں مدد کرنے کہ بعد اسے رخصت کر کے کسی نئے مریض کی مدد کرنے میں جت جاتا. ہم بھی ایکس رے کروانے گئے تو انہوں نے ہماری بھر پور رہنمائی کی. اسکے ہاتھ میں جمع پرچیاں دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ ہسپتال کہ عملے میں سے کوئی ہے. ہم اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اتنے میں ایک عورت آئی اور اسکے کان میں کچھ کیا جسے سنتے ہی وہ وہاں پرچیاں عورت کے ہاتھ میں دے کر کچھ سمجھاتے ہوئے چلے گئے. لوگ زیادہ تھے اور روزے کی وجہ سے انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا. خواتین کی بے شمار عادات میں سے سر فہرست زیادہ بولنا ہے چنانچہ ہم بھی خاتون سے باتوں میں لگ گئے. باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ وہ دیر سے آئے ہیں اور مذکورہ شخص ہسپتال کہ عملے میں سے نہیں بلکہ اسکا سگا بھائی ہے جو اپنے چوبیس سالہ بیٹی جسے دل کا عارضہ ہے کو لے کر کل رات سے ہسپتال میں ہے. جونہی بیٹی کی حالت بہتر ہوتی ہے تو میں پاس بیٹھ جاتی ہوں اور یہ باقی مریضوں کی خدمت میں جت جاتا ہے. ابھی بیٹی کی طبیعت اچانک سے خراب ہو گئی اور اسے آئی سی یو لے جانے کیلئے گئے ہیں. میں نے پوچھا بیٹی کی ماں ساتھ نہیں آئیں؟ کہنے لگی شادی کے ایک سال بعد ہی انکی کینسر سے موت ہوگئی یہی ایک بیٹی ہے بھائی نے اسکے بعد شادی ہی نہیں کی اور ساری توجہ بیٹی کی تربیت اور مخلوق خدا کی خدمت میں صرف کرتے ہیں. گھر، گلی محلے، مسجد، ہسپتال جہاں بھی ہوں بس دوسروں کی مدد کے موقعے تلاشتے ہیں. ہمارے معاشرے میں ایک عام تصور پایا جاتا ہے جو بھی شخص اپنا وقت یوں لوگوں کیلئے مختص کرے وہ یا تو بےروزگار ہے اور یا جنونی ہے اسلئیے اگلا سوال داغا گیا کہ انکل کرتے کیا ہیں. جواب ملا مالاکنڈ یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کہ پروفیسر ہیں. اور میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا معاشرے میں اب بھی ایسے دردمند لوگ موجود ہیں جِنکی زندگی میں لوگوں کیلئے اس قدر جگہ اس درجہ اہمیت ہے.
اپنی منزل پہ پہنچ جانا، کھڑے رہنا بھی
کتنا مشکل ہے بڑا ہو کہ بڑے رہنا بھی!

یہی لوگ ہیں جو نہایت خاموشی اور خلوص کیساتھ معاشرتی اقدار کے بکھرے ٹکڑوں کو اپنی محبت اور کوشش سے یکجا کر کے معاشرے کی تعمیر نو کرتے ہیں یہ لوگ دعا کیلئے نہ بھی کہیں تب بھی انکے حق میں ہاتھ دعا کیلئے اٹھ جاتے ہیں.

واقعہ تو چھوٹا سا ہی ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے ہمارے معاشرے میں اب بھی اچھائی زیادہ ہے. برائی ہزار پھیلی سہی لیکن بھلائی کی طاقت آج بھی اس پر غالب ہے. اور ہم آج بھی اپنے محسنوں کو پہچانتے اور انکی قدر کرتے ہیں.
سنا ہے کوئلے کی کان سے ہیرا نکلتا ہے
چلو تاریک راتوں سے کوئی سورج نکالیں ہم!

Sidra Subhan
About the Author: Sidra Subhan Read More Articles by Sidra Subhan: 18 Articles with 18963 views *Hafiz-E-Quraan

*Columnist at Daily Mashriq (نگار زیست)

*PhD scholar in Chemistry
School of Chemistry and Chemical Engineering,
Key Laborator
.. View More