مدارس کا گرتا معیار: ایک لمحۂ فکریہ

بلاشبہ عصر حاضر میں ترقی کا معیار علم وفن ہے، نہ کہ کثرت تعداد اور جس قوم کی تعلیم جتنی بلند ہے وہ اتنی ہی ترقی یافتہ ہے۔یہ بھی مسلم ہے کہ انسانی دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا واحد ذریعہ علم ہے ۔صد حیف کہ کم نصیبی سے مسلمان اسی میدان میں پیچھے ہیں جس کے نتیجے میں آج یہ تأثر دیا جارہاہے کہ اسلام ان پڑھوں اور جاہلوں کا مذہب ہے۔ اس مقدس علم سے بے اعتنائی، دوری اور تباہ کن عیش پسندی نے ہمیں اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اب مغرب میں ہمارا اس طرح مذاق اڑایاجارہا ہے۔’’ کسی خیالی بازار میں ایک صاحب انسان کا دماغ خریدنے گئے۔ دکان پر ہر مذہب کے ماننے والوں کے دماغ رکھے ہوئے تھے، قیمت دریافت کرنے پر انھیں دکان دار نے بتایا کہ ایک یہودی کے دماغ کی قیمت ایک ڈالر، عیسائی دماغ کی چار ڈالر اور مسلمان کے دماغ کی قیمت سولہ ڈالر ہے۔ خریدار حیرت سے بول پڑا ۔بڑی عجیب بات ہے، یہودی( جو اس وقت دنیا میں اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہیں ان) کا دماغ سب سے سستا اور مسلمانوں کا اتنا مہنگا ؟ دکان دار نے جواب دیا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔مسلمانوں نے الجبرا کی ایجاد کے بعد اپنے دماغ کو خرچ ہی کب کیا ہے؟ ان کے دماغ کا سارا مغز محفوظ ہے‘‘﴿سال نامہ روشنی ۲۰۱۵ ء ؍۱۴۳۷ھ ص ۱۴۵ ﴾۔

صاف ظاہر ہے کہ اس واقعہ سے مسلمانوں کو جاہل بتانا مقصود ہے ۔ حالاں کہ اسلام اور جہالت میں کوئی تال میل نہیں کہ وہ اس کو مٹانے آیاتھا ۔کیا تاریخ گواہ نہیں کہ جب پیغمبر اسلام نے آوازحق بلند فرمائی تھی تو اس وقت پورے عرب میں صرف بہتر (۷۲) افراد پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے ؟ لیکن ۲۳؍ سالہ دور نبوت ہی میں لاکھ سے زائد اشخاص زیور علم سے آراستہ ہوچکے تھے۔ اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا تعلیمی انقلاب برپا کرنے والے پیغمبر کی قوم جاہل، اجہل اور علم سے نابلد کہی جارہی ہے جو یقینا بڑے دکھ کی بات ہے۔جب کہ سچائی یہ ہے کہ اسی قوم کے دینی ومذہبی ادارے، مدارس اسلامیہ اورخانقاہیں، تعلیم انسانیت کے حسین کار خانے اور قومی محبت ویگانگت کے میٹھے سر چشمے ہیں۔ مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں:’’تم لوگ مکاتب و مدارس کا تحفظ کرو اور انھیں پھلنے پھولنے دو، یہی تمہاری مذہبی زندگی کے سرچشمے اور ملی اجتماعات کے مراکز ہیں ‘‘﴿نقوش فکر﴾۔

اس لیے کہ ماضی میں یہاں نہ صرف دینی اور مذہبی تعلیم دی جاتی تھی بلکہ انسان کو مکمل انسانیت سے آراستہ کرکے ملک کا بہترین شہری اور بلا تفریق مذہب وملت ، قوم کا سچا اور وفادار خادم بھی بنایا جاتا تھا تب ان علمی پنگھٹوں سے تشنہ کام ہونے والے صرف مولوی، مولانا ، عالم اور مفتی ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر میدان کے شہ سوار انھیں تعلیم گاہوں سے مل جاتے تھے ۔ عدالتوں کے قاضی، اضلاع کے حکام، شہروں کے کوتوال، عمارتیں تعمیر کرنے والے معمار اور نقشے بنانے والے انجینئیرسب انھیں مدارس کے فارغ التحصیل ہوا کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں حکومتوں کے وزرا بھی فرزندان مدارس ہی ہوتے تھے۔تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار جیسی لازوال شاہکار عمارتوں کے نقشے بنانے والے اور انھیں تعمیر کرنے والے مدارس ہی سے پڑھ کر نکلے تھے ۔حد تو یہ کہ غیر مسلم برادران بھی اس عظیم لاثانی گہوارۂ علم وادب سے مستغنی نہ رہ سکے، کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ ملک کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد اور معمار آئین وقانون ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکرنے انھیں مدرسوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام سابق صدر جمہوریہ سمیت بے شمار نام ور ہندو مسلم افراد واشخاص نے اسی مبارک پنگھٹ کا پانی پی کر مثالی کارنامے انجام دیے اور ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں ثبت ہوگئے۔ ان مدارس کے قیام سے پہلے اپنے ملک ہندوستان کی علمی اعتبار سے کوئی حیثیت وشناخت نہ تھی، پورا ملک جہالت کی تاریکیوں میں غرق تھا ۔ بے علمی ہی کی وجہ سے چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم تھا، مدارس ہی نے سب سے پہلے جہالت کے خلاف احتجاجی آواز بلند کی اورجہالت کی بیخ کنی کے لیے ہرممکن تدبیر استعمال کر نے میں اپنی پوری توانائی جھونک دی جس کا اثر یہ ہوا کہ یہاں کی خاک سے سید آل رسول مارہروی ،عبد القادر بدایونی، ملا محمود جون پوری، محب اﷲ بہاری، شاہ ولی اﷲ دہلوی، فضل حق خیر آبادی، امام احمد رضاخان بریلوی جیسے نام ور اور باکمال افراد پیدا ہوئے جنھوں نے دین وملت اور مذہب ومسلک کی عظیم ترین خدمات سر انجام دیتے ہوئے ملک ووطن کی تعمیر وترقی میں قابل تقلید اور محیر العقول کار نانے انجام دیے۔ جنگ آزادی کے باب میں ان مدارس کے سپوتوں کے خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جنھوں نے انگریزوں کے مقابلے میں ملک ووطن کے نام پر جان تک کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی کوئی دریغ نہیں کیا ، اس لیے جب بھی ملک کی فلاح وبہبودی اور عروج وارتقا کی تاریخ لکھی جائے گی وہ تاریخ مدارس اور فرزندان مدارس کی بے لوث خدما ت کا تذکرہ کیے بغیر ہرگز تکمیل آشنا نہ ہوسکے گی، مگر افسوس صد افسوس کہ آج مدارس اسلامیہ سوالات کے کٹگھرے میں کھڑے ہیں ہر چہار جانب سے ان پر یلغار ہوری ہے۔ ان کے حالات ہیں بھی واقعی نا گفتہ بہ کیوں کہ ان سے آج نہ تو ایسے افراد پیدا ہورہے ہیں جو ہر میدان کے مردان کار ہوں اور نہ ایسے خدام جو قوم وملت اور ملک ووطن کی تعمیر وترقی میں کوئی مثالی کردار ادا کرسکیں۔ اور یہ سب کے سب نتیجہ ہے مسلمانوں کے علمی انحطاط اور پس ماندگی کا، علمی زوال وانحطاط کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے کچھ پر یہاں قدرے روشنی ڈالی جارہی ہے ۔

مسلمانوں کا علمی انحطاط اور اسباب و علاج: اس پر روشنی ڈالتے ہوئے محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی تحریر فرماتے ہیں : ’’دو چیزوں میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں، موت اور مسلمانوں کا علمی زوال ، اور ان دونوں میں بڑی یگانگت بھی پائی جاتی ہے۔علم ہے تو زندگی ہے علم نہیں تو زندگی نہیں ، موت ہے‘‘۔ حضرت نے علمی زوال کے کچھ اسباب ووجوہ بھی شمار فرمائے مثلاً (۱)انتظامیہ کا مذہب و علم سے نابلد ہونا (۲) اساتذہ کا درس وتدریس میں لاپرواہی کرنا(۳) درسگاہوں میں چند منٹ پڑھا کر باقی اوقات غیر درسی گفتگو میں ضائع کر دینا گویا ان کے خیال میں فریضۂ درس سے سبک دوشی کے لیے درس گاہ میں بیٹھنا ہی کافی ہے (۴) مدارس کا غیر تعلیمی ماحول، طلبہ کی تن آسانی، عیش پسندی، محنت سے گریز اور تقریر سے حد درجہ دلچسپی علمی زوال کے اہم اسباب ہیں۔ان میں علاقائی، لسانی ،نسلی اور مشربی عصبیت جڑ پکڑتی جارہی ہے اور قومی اتحاد کی قدریں پامال ہورہی ہیں۔ کیا انھیں نہیں معلوم کہ قدرت نے ان پر قرآن وسنت کی دعوت وتبلیغ کے ساتھ اس کی بھی پوری ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ قومی وحدت کو پارہ پارہ ہونے سے بچانے کے لیے پوری توانائی صرف کردیں ۔ مگر یہاں اہل مدارس خود ہی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالاں کہ بے شمار قرآنی آیات اور نبوی ارشادات سے بھائی چارگی، اتحاد واتفاق اور آپسی الفت وانسیت کا درس ملتا ہے ،پھر یہ کہ عصبیت، بھید بھاؤ، اونچ نیچ اور ذات پات میں بٹوارے سے نفرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

آج مدارس کا المیہ یہ ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ افراد کو سند یافتہ بنانے پر ہی زور دیاجاتاہے جنھیں یہ شعورتک نہیں ہوتا کہ علمی میدان میں کس طرح قدم بڑھانا ہے ۔ مذہبی سیاست کا مقابلہ کس حکمت عملی سے کرنا ہے، مخالف حالات سے کس طرح نمٹناہے ۔مدارس اور کارکنان بچو ں کے اخلاق وکردار اور عادات و اطوار بنانے اور سنوارنے میں خاطر خواہ کامیاب تبھی ہوں گے جب دینی ومذہبی رنگ سے ان کا انگ انگ خود رنگین ہو۔ یوں ہی مدارس کے زمام صدارت ونظامت جہال وفساق کے ہاتھوں سونپنا مدارس کے علمی زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ جس طرح خود پیاسا شخص پانی والوں کی مدد نہیں کرسکتا اسی طرح بے علم اور مذہبی اخلاق وکردار سے عاری اراکین، علمی اور اسلامی شخصیات کی قدروں کی محافظت کیوں کر کرسکتے ہیں؟ بلکہ انہیں تو نائبان رسول اور مہمانان نبی کو نوکر اور خادم سمجھنے ہی میں لطف آتاہے۔
(۱)علاج: ادارے کا اپنے مشن میں کامیاب اور میدان تعلیم وتعلم میں عروج وارتقا سے ہم کنار ہونے کے لیے اراکین کا دیندار اور علم دوست ہونا بنیادی اور ناگزیر امر ہے اور علماے کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ارباب دولت واقتدار اور اصحاب صدارت و نظامت سے دب کر ان کی غیر شرعی باتوں میں ہاں میں ہاں ہرگز نہ ملائیں اور نہ ہی ان کے پیچھے چلیں کیوں کہ جس طرح امام کا مقتدی کی اقتدا کرنا ،نماز کو فاسد کردیتاہے بالکل اسی طرح اہل علم کا عوام کے پیچھے چلنا دین کی روح کو پژمردہ کردیتاہے۔
(۲)علاج: بچے قوم وملت کی امانت ہیں، یہ عمر ان کے بننے بگڑنے دونوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے مدرسہ کے اساتذہ اور عمائدین پر ان بچوں کی خاص ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ معمولی سی لاپرواہی بہت بڑے نقصان کا سبب بن جائے۔ لہذا بچوں کی ہر نقل وحرکت پر نظر رکھتے ہوئے انھیں کھرا سونا بنانے کے جذبہ سے پوری بیدار مغزی کا ثبوت پیش کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ نقالی بچوں کی فطرت ہوتی ہے وہ اپنے بڑوں کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں ویساہی کرنے لگتے ہیں، اس لیے ارباب مدارس کا اپنے کردار وعمل کو پاکیزہ رکھنا بھی ضروری ہے ۔
(۳) علاج: دور جدید کے عصر ی علوم وفنون ،کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی سے متعلق بھی ضروری معلومات سے واقف کرایا جائے ۔کیوں کہ اگرکوئی عالم دین عصری ضروریات کی شد بد رکھتا ہے، انگریزی زبان وادب سے واقف ہے اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ چلانا جانتا ہے تو اس کا علمی استدلال اور عام خلق کے نزدیک اس کا شخصی وقار بلند اورپر اثر ہوجائے گا۔

اس کے علاوہ اساتذہ کو چاہئیے کہ طلبا کو موجودہ حالا ت سے واقف کرائیں اور بتائیں کہ انتظامیہ اور عوام سے کس طرح تعلقات رکھنا چاہیئے اور کن حالات میں کس طرح کی حکمت عملی کو اپناناچاہئیے۔ تاکہ عوام کے درمیان اس خاردار وادی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی فارغین کو حالات کا صحیح اندازہ ہوجائے اور وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوکر نکلیں۔ پھر یہ کہ کسی بھی چیز کاصرف ایک رخ دیکھ کر دل برداشتہ ہوجاناکسی طرح بھی دانش مندی نہیں کیوں کہ انسان اس طرح صحیح نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہتاہے۔

اخیر میں طلبہ ا ور ان کے سرپرستوں سے اپیل اور ذمہ داران مدارس سے پر زور مطالبہ ہے کہ مدارس کی روح کو باقی رکھتے ہوئے جس طرح بھی جاذبیت لاسکتے ہیں ضرور لائیں، تاکہ اس کشش کے سہارے ہی دین اسلام کا بھلا ہو اور نسل نو میں دینی علوم کے حوالے سے بیداری کی لہر پیدا ہو۔طلبہ مقرر، شاعر ، اناؤنسر بننے کے بجاے نائب رسول بنیں، ٹھوس علمی لیاقت اور عملی استقامت پیدا کریں کیوں کہ جو صحیح معنی میں نائب رسول بن جاتاہے وہ مقرر، شاعر، اناؤنسر سب بن جاتا ہے مگر اس کے لیے محنت، پابندی مطالعہ،تضیع اوقات سے گریز اور بحث ومباحثہ بہت ضروری ہے۔

Noor Alam
About the Author: Noor Alam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.