راحیل شریف کا راستہ

وفاق یاصوبوں میں عہدیدارکوئی بھی بن سکتا ہے مگر ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی طرح اپنے عہد کاقابل فخرحصہ ہر کوئی نہیں بنتا ، چیف جسٹس (ر)افتخارچودھری کی طرح کئی لوگ اعلیٰ عہدوں سے سبکدوشی کے بعد گمنام ہوجاتے ہیں۔نوازشریف کی طرح کچھ افراد کومنصب ''قیمت ''،ممنون حسین کی طرح کچھ کو اچھی قسمت یاپھر اچھی'' خدمت'' اورڈاکٹرعبدالقدیرخان کی طرح کچھ کو ان کی محنت اور'' قابلیت'' سے ملتا ہے۔جو محنت اورقابلیت سے ترقی کاسفر طے کرتے ہیں انہیں غرورچکناچورنہیں کرتا،جو زندگی بھرسفارش یاپیراشوٹ سے ''جمپ ''لگاتے ہیں انہیں ہروقت سازش کاڈرلگارہتا ہے ،جس طرح ان دنوں ہمارے حکمران نامعلوم سازش سے ڈر رہے ہیں۔انہیں اپنے اقتدارکیخلاف ہونیوالی سازشوں کاتوعلم ہے مگر سازش کرنیوالے کسی کردارکانام ان کی زبان پرنہیں آتا۔حکمران خاندان کواپنے خلاف عدالتی ٹرائل میں توٹھوس شواہدچاہئیں مگردوسروں کامیڈیا ٹرائل کرتے وقت شواہد پیش کرناانہیں پسند نہیں ۔ان'' معصوم ''حکمرانوں کیخلاف ہربارکوئی نہ کوئی سازش ہوجاتی ہے ۔ اقتدار احترام کاضامن نہیں ہوتا،احترام سے محروم مقام انسان کیلئے بوجھ بن جاتا ہے۔پاناما پیپرز منظرعام پرآنے کے بعد حکمران خاندان بارے جس قسم کے طنزیہ اورتوہین آمیز تبصرے ہورہے ہیں وہ کوئی عزت دار انسان برداشت نہیں کرسکتا،شریف خاندان نے حکومت اورعزت میں سے حکومت کاانتخاب کیاجبکہ حکومت تو'' بلبلے'' کی مانند نازک ہوتی ہے یہ تو ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتی ہے۔بھارت کے ساتھ1965ء کی جنگ کے فاتح جنرل(ر)ایوب خان کی عزت پرحملے شروع ہوئے توانہوں نے فوراً حکومت چھوڑدی تھی کیونکہ حکومت بار بار مل سکتی ہے مگرعزت صرف ایک بارملتی ہے ۔عزت اورشہرت کسی منصب کی محتاج نہیں ہوتی مگر شہرت کے شر سے بچنا ضروری ہے ۔داناانسان اپنے افکاراور کردارسے باوقاربنتا ہے۔انسان کی عزت میں دوام اوراستحکام قدرت کاانعام ہے۔عہدحاضرکاحکمران ہویاعا م انسان اس کی عزت بہت نازک ہوتی ہے ۔انسان سے اس کامنصب یااس کی عزت کس وقت چھن جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔عزت کے معاملے میں انسانوں کے معیار بدل گئے ہیں،شہرت اورعزت میں زمین آسمان کافرق ہے،ویناملک جیسی خاتون بھی کہتی ہے ''اوپروالے نے بہت عزت دی ہوئی ہے''۔ہم لوگ فوراً دوسروں کی شخصیت اورعادات کے منصف تو بن جاتے ہیں مگرانصاف نہیں کرتے۔انسانوں کاایک دوسرے کے ساتھ تعصب یقینا تشددسے زیادہ مہلک اورخطرناک ہوتا ہے ۔شہرت کوتوپلیدیزید کے پاس بھی تھی مگر لازوال عزت اورعظمت شہزادہ کونین حضرت حسین ؑ اوران کے سرفروش حامیوں کونصیب ہوئی ۔ جنرل (ر)راحیل شریف کو ان کی قابلیت اورکمٹمنٹ کی بنیادپرپاک فوج کااعلیٰ ترین منصب دیاگیااورانہیں اندرون وبیرون ملک بہت عزت اورشہرت ملی مگر منصب سے سبکدوشی کے بعد وہ ایک اورمنصب کی محبت میں سعودیہ چلے گئے،کاش وہ نہ جاتے اوراپنے ملک میں اپنامستقبل اورکوئی تعمیری کردارتلاش کرتے ۔متنازعہ فیصلے انسانوں اورقوموں کے درمیان فاصلے بھی پیداکردیتے ہیں ۔جنرل (ر)راحیل شریف نے و ہ کیا جوانہیں مناسب لگا،یقینا انہوں نے اپنے بااعتمادافراد سے مشاورت کی ہوگی یاہوسکتا انہوں نے عجلت میں فیصلہ کرلیا ہو۔بہر کیف ان کے متنازعہ فیصلے نے ان کے اورپاکستانیوں کے درمیان فاصلے پیداکردیے ہیں تاہم ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ،اگروہ واپس لوٹ آتے ہیں تویہ فاصلہ سمٹ جائے گا۔

جنرل (ر)راحیل شریف کوایکسٹینشن نہیں ملی یاخود انہوں نے ایکسٹینشن نہیں لی کیونکہ اس دوران نہیں اسلامی اتحاد کی فوج کاسپہ سالارمقرر کئے جانے کی پیشکش کردی یاکرادی گئی تھی۔ پاکستان میں ان کی عزت اورشہرت حکمرانوں کیلئے ناقابل برداشت اورکسی حدتک ان کی حکومت اورسیاست کیلئے خطرہ تھی لہٰذاء جنرل (ر)راحیل شریف کا وطن سے باہرچلے جانا اوراسلامی اتحادی فوج کی کمانڈسنبھالنا حکمرانوں کے حق میں تھا۔حکمران اوران کے حامی وفاقی وصوبائی وزراء جے آئی ٹی کی طرح جنرل (ر)راحیل شریف کی شخصیت کوبھی متنازعہ بنانے کی منظم کوشش کرتے رہے ہیں۔جنرل (ر)راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کی قیادت کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے ایک این اوسی کی ضرورت تھی اس پربھی خاصی پوائنٹ سکورنگ کی گئی ۔ جنرل (ر)راحیل شریف این اوسی کیلئے حکمرانوں کے رحم وکرم پرتھے ،اس ضمن میں ارباب اقتدار کی طرف سے دانستہ یہ تاثر قائم کیاگیا تھا۔جنرل (ر)راحیل شریف منتخب حکومت کی باضابطہ اجازت سے حجازمقدس چلے گئے تو حکمرانوں نے سکھ کاسانس لیا۔ان دنوں جنرل (ر)راحیل شریف کانام دوبارہ زیربحث آ رہا ہے۔ان کی وطن واپسی کی اطلاعات زیرگردش ہیں ،میں سمجھتاہوں انہیں اپنے وطن واپس آجاناچاہئے کیونکہ اس نازک وقت میں پاکستان اورپاکستانیوں کوان کی زیادہ ضرورت ہے ۔ کوئی اپناگھر جلتا چھوڑ کردوسروں کی آگ بجھانے نہیں جاتا ۔کیا پاکستان میں پائیدارامن بحال ہوگیا ہے ،پاکستان آج بھی حالت جنگ میں ہے کیا مادروطن کوحالت جنگ میں چھوڑکرجنرل (ر)راحیل شریف کوسعودیہ جاناچاہئے تھے ۔کیاان کی پاکستان اورپاکستانیوں کے ساتھ کمٹمنٹ ان کے منصب کی مدت پوراہونے تک تھی ،کیا ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی حفاظت اورپاکستانیوں کی خدمت کے سلسلہ میں ان کاکردارختم ہوگیا ہے ،ہرگز نہیں ۔آج پاکستان اورپاکستانیوں کوجنرل (ر)راحیل شریف کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ان پاکستانیوں کاکیا قصور جوجنرل (ر)راحیل شریف کواپنانجات دہندہ سمجھ بیٹھے تھے ۔میں سمجھتاہوں جنرل (ر)راحیل شریف کوریٹائرمنٹ کے بعد مقررہ مدت ختم ہونے پرقومی سیاست میں اپنافعال کرداراداکرناچاہئے کیونکہ انہیں جومحبت ،عزت ،شہرت ملی اوران پرجس طرح بھرپوراعتمادکااظہارکیا گیا وہ انہیں دوسرو ں سے ممتازکرتا ہے۔پاکستان ہمارا محبوب ملک ہے اوربدقسمتی سے اس ملک پر عوام کے اعتماد سے محروم لوگ راج کرتے ہیں ۔پاکستانیوں کوکئی دہائیوں بعد جنرل (ر)راحیل شریف کی صورت میں کوئی اعتماد کے قابل لگا ہے ۔وہ وردی میں ملک وقوم کی حفاظت کرتے رہے ہیں اب انہیں بغیروردی اپنے ہم وطنوں کی خدمت اورقومی چوروں سے ان کی حفاظت کرناہوگی ۔پاکستانیوں کوباوفا،باصفا اوربااعتماد قیادت کی ضرورت ہے جواپنی کمٹمنٹ اورقابلیت سے ان کی کایا پلٹ دے۔جنرل (ر)راحیل شریف میں وہ قابلیت ،اہلیت اورصلاحیت موجود ہے لہٰذاء ہماراملک اورمعاشرہ ایک زیرک اورنڈر لیڈر کے ضیاع کامتحمل نہیں ہوسکتا۔جنرل (ر)راحیل شریف نے جوراستہ منتخب کیا وہ انہیں اپنے وطن اور ہم وطنوں سے دورلے گیا،اگروہ چاہیں تویہ راستہ انہیں اپنوں کے پاس واپس بھی لے آئے گا ۔ انہیں پاک فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے سعودیہ سمیت اسلامی ملکوں میں جواحترام دیاجاتا تھایقینا انہیں وہاں اب وہ احترام نہیں ملے گالیکن پاکستان میں بغیروردی اب بھی انہیں بھرپورعزت اوروالہانہ محبت ملے گی۔جومقام اوراحترام انہیں پاکستان میں اورپاکستانیوں سے ملتا رہا ہے اورآئندہ بھی ملے گاوہ کسی اورمعاشرے یاریاست میں نہیں مل سکتا ۔جنرل (ر)راحیل شریف کامستقبل پاکستان میں ہے ،انہیں وطن واپسی کیلئے سنجیدگی سے سوچناہوگا۔اگروہ دوبرس تک انتظار کے بعد ایک نظریاتی سیاسی جماعت کی بنیادرکھیں تویقینا لاکھوں ریٹائرڈ فوجی آفسیرزاوراہلکار وں سمیت نیک شہرت کے حامل سنجیدہ وطن پرست لوگ ان کی قیادت میں پاکستان کی تعمیروترقی اورمضبوطی کیلئے اپنا فعال کرداراداکریں گے۔ اپنے ہم وطنوں کااعتماد اورپیارملناکوئی معمولی بات نہیں ،جنرل (ر)راحیل شریف جوکام سپہ سالار کی حیثیت سے نہیں کرسکتے تھے وہ منتخب وزیراعظم کے طورپرباآسانی کرسکتے ہیں۔پاکستانیوں نے'' ٹریڈرز'' کوآزمالیا اب انہیں ایک سچے لیڈر کی ضرورت ہے ۔

مووآن پاکستان کے مرکزی چیئرمین محمدکامران میاں جوجنرل(ر) راحیل شریف کی ایکسٹینشن کے حق میں بات کرنے کی پاداش میں منتقم مزاج حکمرانوں کے انتقام کانشانہ بنے ،انہیں محض بینرز لگانے پر گرفتارکرلیا گیاتھا ،یقیناوہ بھی جنرل (ر)راحیل شریف کے فیصلے سے مایوس اورپریشان ہوئے ہوں گے۔محمدکامران میاں کی گرفتاری سے پاکستانیوں کویہ پیغام دینامقصود تھا کہ آئندہ کوئی کسی سپہ سالار سے اظہار محبت یاپاک فوج سے یوں اعلانیہ اظہاریکجہتی نہ کرے۔جنرل (ر)راحیل شریف سے والہانہ محبت کرنیوالے پاکستانیوں کی تعدادکروڑوں میں ہے۔مووآن پاکستان کے چیئرمین محمدکامران میاں کوتورہائی مل گئی مگرعوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشیددستی کیخلاف مقدمات پرمقدمات درج کئے جارہے ہیں ،وہ دوچارمقدمات میں ضمانت پررہاہوتے ہیں توا نہیں مزید تین چارمقدمات میں دوبارہ گرفتارکرلیا جاتا ہے ۔جیل میں ان سے کسی کوملنے کی اجازت نہیں ،سپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق کی طرف سے پروڈیکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود انہیں اجلاس میں شریک نہیں ہونے دیا گیا ۔کیا کسانوں کے کھیت کھلیانوں کیلئے بندپانی کھلوانا ریاست یاحکومت کیخلاف اعلان بغاوت ہے جوان کے ساتھ کلبھوشن یادیوسے بدترسلوک کیا جارہا ہے ۔جمشید دستی کے دست راست اورمعتمد ناصرچوہان ایڈووکیٹ نے راقم سمیت کالم نگاروں کوجومعلومات دیں وہ سن کر مجھے پرویز مشرف کادورآمریت یادآگیا جواس نام نہاد عہدجمہوریت سے ہزارگنابہتر تھا ۔مووآن پاکستان کے چیئرمین محمدکامران میاں ہوں یاعوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشیددستی یہ عام لوگ مگرعوام میں سے ہیں لہٰذا ء انہیں تختہ مشق بنایا جاسکتا ہے لیکن اسلام آبادمیں پاکستان تحریک انصاف کے ''اشتہاری'' چیئرمین عمران خان کوگرفتارکرتے ہوئے حکمرانوں کے پرجلتے ہیں۔پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان کی طرح عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی ایوانوں اورمیدانوں میں حکمرانوں پر تنقید اوراحتجاج کرتے ہیں مگر ان پرکوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔عمران خان ،شیخ رشید،محمدکامرا ن میاں اورجمشید دستی اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ ہیں مگر ان کے ساتھ حکمرانوں کارویہ مختلف ہے۔ حکمران جمشید دستی کونشان عبرت بنانے کے درپے ہیں۔جمشید دستی کوکال کوٹھڑی میں بندکرکے حکمرانوں کاغصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اسلئے ان کی ملاقات بھی بندکردی گئی۔ عوامی راج پارٹی کے ترجمان ناصرچوہان ایڈووکیٹ کی طرف میڈیا نمائندوں کو دی گئی معلومات کے مطابق جاویدہاشمی اور شاہ محمودقریشی سمیت قومی سطح کے کئی سیاستدان جمشید دستی سے ملنے کیلئے ملتان جیل آئے مگر انہیں ملنے نہیں دیاگیا۔ضمیر کے قیدی جمشید دستی کوجیل میں اخبار ملتا ہے اورنہ ان کی بیرک کاپنکھا چلتا ہے۔جمشید دستی کوادویات تک نہیں پہنچائی جارہیں۔جمشید دستی کی عید قید میں گزرے گی۔عوامی راج پارٹی کے اہم اورسرکردہ رہنماؤں کیخلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے۔حکومت نے قاتل ریمنڈڈیوس کوتوچھوڑدیا تھا مگر جمشیددستی دہشت گردی کی دفعات کے تحت قید میں ہیں ۔ جمشید دستی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں صدر مملکت کی تقریر کے دوران احتجاج کیا تھا مگراحتجاج کرنیوالے تواوربھی بہت تھے توپھرصرف جمشیددستی کوکیوں گرفتارکیا گیا ،اسلئے کہ وہ عوامی راج پارٹی کے تنہا پارلیمنٹرین ہیں،دوسرے احتجاجی ارکان پارلیمنٹ کاتعلق پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ قائداعظمؒ سے ہے ۔عام آدمی اورعام عوام کانمائندہ ہوناجمشید دستی کاواحدجرم ہے،منتقم مزاج حکمران جمشید دستی کی آواز کوجس قدرزورسے دبا رہے ہیں قومی سیاست کے آسمان پراس کانام اس قدر روشن اورتابندہ ہورہا ہے،ناصر چوہان ایڈووکیٹ سے پرعزم، باضمیر اورباکردارنوجوان جمشید دستی کابیش قیمت سرمایہ اورعوامی راج پارٹی کاہراول دستہ ہیں ۔کیا عدالت عظمیٰ جمشید دستی کیخلاف حکومت کے بدترین انتقامی ہتھکنڈوں کاسوموٹو ایکشن نہیں لے سکتی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.