سرکاری عہدے .. توہین اوردو گز کی زمین

متعلقہ شخصیت نے سرگرم صاحب سے پھر سوال کیاکہ صاحب آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے تو جواب میں کہہ دیا کہ نویں کلاس میں دو سال گزار چکا ہوں جبکہ دسویں کلاس میں بھی تین سال گزار ے ہیں-سوال کرنے والا حیران و پریشان رہ گیا کہ کیسے نامور اور قابل شخص سے واسطہ پڑا ہے اور اس قابل شخص کیساتھ پریس کلب کتنی زیادتی کررہا ہے ابھی وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کہ یکدم... ایک اور صاحب نے شعبہ صحافت میں آنیوالے صاحب کو کہہ دیا کہ آپ کے ساتھ یقینی زیادتی ہورہی ہے آپ کو تو ڈاکٹر ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی پانچ سال گزارتے ہیں تربیت میں اور پھر ڈاکٹر بن جاتے ہیں- یہ سن کر وہ صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ میری توہین ہر جگہ ہورہی ہیں-

شعبہ صحافت میں نئے آنیوالے ایک صاحب سے ان کے قریبی دوست نے پوچھا کہ .. بھائی آپ گذشتہ دو سالوں سے فیلڈ میں بہت سرگرم نظر آرہے ہو -ہر جگہ کوریج کیلئے پہنچ جاتے ہو - کیا آپ کو صحافیوں کی تنظیموں سمیت پریس کلب کی ممبرشپ مل گئی ہیں- تو جواب میں سرگرم صاحب نے جواب دیا کہ پریس کلب میں سارے جاہل بیٹھے ہیں انہیں پتہ نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص کو کسی طرح ٹریٹ کرنا ہے کس طرح ان اسے بات کرنی ہے پریس کلب میں بیٹھے ہوئے میری قابلیت سے ڈرتے ہیں اس لئے مجھے ممبر شپ نہیں دے رہے-اب تو مجھے وہاں پر جاتے ہوئے بھی اپنی توہین کا احساس ہوتاہے-

متعلقہ شخصیت نے سرگرم صاحب سے پھر سوال کیاکہ صاحب آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے تو جواب میں کہہ دیا کہ نویں کلاس میں دو سال گزار چکا ہوں جبکہ دسویں کلاس میں بھی تین سال گزار ے ہیں-سوال کرنے والا حیران و پریشان رہ گیا کہ کیسے نامور اور قابل شخص سے واسطہ پڑا ہے اور اس قابل شخص کیساتھ پریس کلب کتنی زیادتی کررہا ہے ابھی وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کہ یکدم... ایک اور صاحب نے شعبہ صحافت میں آنیوالے صاحب کو کہہ دیا کہ آپ کے ساتھ یقینی زیادتی ہورہی ہے آپ کو تو ڈاکٹر ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی پانچ سال گزارتے ہیں تربیت میں اور پھر ڈاکٹر بن جاتے ہیں- یہ سن کر وہ صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ میری توہین ہر جگہ ہورہی ہیں-

یہ تو ایک واقعہ ہی ہے جس میں ہمارے ارد گرد چند لوگوں کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن اس لمبی تمہید اور واقعے کا مقصد ایک سرکاری بینک کے صدر کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھیجا جانیوالا خط ہے اس موصوف کو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے طلب کیا تھااور طلبی کے بعد صاحب نے لیٹر لکھ دیا جس میں یہ کہا گیا کہ میری توہین کی گئی ہیں کیونکہ پانچ گھنٹے انتظار کروایا گیا اور مجھ سے سخت لہجے میں بات کی گئی اور سوالات کئے گئے -اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ تین سو دو کے مجرم ہیں- یہ ایک سرکاری بینک کے سربراہ کی جانب سے لکھا جانیوالا خط ہے جسے بیشتر اخبارات میں ذرائع کے حوالے سے شائع کیا گیا ہے یہ ان صاحب کا بیان ہے جسے لاکھوں روپے تنخواہوں کی مد میں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ مل رہا ہے لاکھوں کی مراعات اس کے علاوہ ہیں -

اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بھائی میرے آپ میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو انتظار کو اپنی توہین سمجھتے ہیں سوالات کواپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں کبھی آپ نے اپنے سرکاری بینک کے باہر پنشن کے انتظار میں کھڑے ان ہزاروں افراد کو دیکھا ہے جو ساری عمر ملازمت کرتے ہیں اور جب وہ پنشن لینے آتے ہیں تو ان کیساتھ کیسا رویہ اپنایا جاتا ہے- کبھی آپ نے اپنے بینک کے باہر بل جمع کرانے والے افراد کی قطاریں دیکھی ہیں جن کیساتھ آپ کے بینک کا عملہ کتنی بدتمیزی سے پیش آتا ہے حالانکہ انہیں تنخواہ بھی اسی کام کی ملتی ہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی انجام دینگے -کبھی آپ نے اپنے بینک کے اے ٹی ایمز کی حالت زار دیکھی ہیں تین تین ماہ تک اے ٹی ایمز خراب رہتی ہیں مگربینک کے سامنے نصب ان اے ٹی ایمز کو ٹھیک کرنا آپ لوگ اپنی توہین سمجھتے ہو تنخواہیں تو اسی بھوکی ننگی عوام کے ٹیکسوں سے لیتے ہیں مگر اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتے-سرکاری بینک کے سربراہ کے خط سے لگ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوام کو جواب دہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی " جی حضوری" کرکے اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں-
اگر کسی نے آپ نے سخت لہجے میں بات کردی یا سوال کردئیے تو اس میں توہین کا پہلو کہا ں سے نکلتا ہے کبھی آپ نے اپنے بینک کے سیکورٹی پر تعینات گارڈز کا رویہ بزرگ خواتین کیساتھ دیکھا ہے -اس بینک میں جانیوالا ہر شخص اپنے آپ کو عادی مجرم سمجھنے لگتا ہے -سیکورٹی گارڈ کی جامہ تلاشی کے نام پر ہونیوالی بدتمیزی پر کوئی آدمی تو نہیں روتا نہ کوئی شکایت کرتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اس کے واویلا کرنے پر بھی کوئی پوچھے گا نہیں اور کچھ ہونے والا بھی نہیں- البتہ اس کیلئے مزید مسائل پیدا ہونگے اور غریب پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک پر خاموش ہی رہتا ہے-

ویسے صاحب یہ ان جیسے لوگوں کا پیسہ ہے جو اپنی بے عزتی پر بھی خاموش رہتے ہیں کیا ٹیکس گزاروں کے پیسوں پر عیاشی کرنے والوں کی عزت نفس ہوتی ہیں اور ان لوگوں کی عزت نفس نہیں ہوتی جو ٹیکس ادا کرتے ہیں-یہ کچھ سوالات ہیں جو سرکاری بینک کی سربراہی کرنے والے موصوف کو اپنے آپ سے کرنے چاہئیے ویسے بھی شعبہ صحافت میں ایک تکینک یا گر جسے ہر صحافی کو یاد کروایا جاتا ہے کہ بطور صحافی یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئیے کہ " خبر اور پیشاب" کہیں پر بھی اور کسی بھی وقت آسکتی ہے - اس لئے صاحب آپ سے گزارش ہے کہ یہاں عہدے کسی بھی وقت ملتے اور چھینے جاتے ہیں- ویسے بھی عزت عہدوں میں نہیں یہ صرف اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے - تو صاحب ڈرئیے اس وقت سے جب اسی جہان میں سارے عہدے نہیں ہونگے پھر پتہ لگ جائیگا اور ہاں جب اس جہاں سے جانے کا وقت شروع ہوتا ہے تو پھر عہدے رہ جاتے اور دو گز کی زمین بھی نصیب والوں کو ملتی ہیں ورنہ تو یہاں پر ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کے عہدے بڑے بڑے تھے لیکن جب ان کا بلاوا آگیا تو پھر ان کے جسم بھی نہ رہے اور صرف نمائشی طور پر دو گزکی قبر میں تابوت رکھ دئیے گئے اس وقت نہ تو انہیں توہین کا احساس ہوا نہ ان کے بچوں کو توہین محسوس ہوئی.سو صاحب .. قبر کے اندھیروں کو یاد رکھیں وہاں عہدے نہیں چلتے نہ ہی توہین محسوس ہوتی ہیں-
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413854 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More