‘ پتہ نہیں ھماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

ہمارے سورج پر اربوں سال سے دھماکے ھو رھے ھیں‘ یہ دھماکے روزانہ 120 ملین ٹن مادے کو ہیلیم گیس میں تبدیل کرتے ھیں‘ یہ ہیلیم گیس ایک سیکنڈ میں ھماری زمین کی پانچ لاکھ سال کی ضرورت کے برابر توانائی پیدا کرتی ھے‘ سورج زمین پر روزانہ ایک لاکھ 74 ہزار ٹیرا واٹ توانائی پھینکتا ھے‘ یہ توانائی ھماری ضرورت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ھوتی ھے‘ سورج یہ توانائی کیسے جنریٹ کرتا ھے؟ یہ توانائی ”فیوژن“کے ذریعے جنریٹ ھوتی ھے‘ فیوژن میں ہائیڈروجن گیس کے دو ایٹم ملتے ھیں‘ یہ دو ایٹم ہیلیم گیس بناتے ھیں اور اس سارے عمل میں ہزار ایٹم ھم کے برابر توانائی پیداھو جاتی ھے‘ ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے ری ایکشن کو فیوژن کہتے ھیں‘ سورج پر ان دونوں گیسز کا غلاف چڑھا ھے‘ یہ گیسیں 150ملین کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے زمین تک پہنچتی ھیں‘ آپ اگر سورج سے زمین تک اس عمل کا جائزہ لیں تو آپ توانائی کا شاندار کھیل دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ یہ کھیل زندگی کی بنیاد ھے‘ کائنات میں جس دن سورج بجھ جائے گا اس دن زندگی کا دیا بھی گل ھو جائے گا‘ ھم انسان معاشرتی زندگی کےلئے توانائی کے محتاج ھیں‘ ھم توانائی کا بڑا حصہ تیل اور گی؟سے حاصل کرتے ھیں لیکن یہ تمام ذرائع مل کر بھی سورج کی توانائی کا ایک فیصد نہیں بنتے چنانچہ سائنس دان پچھلے بیس برس سے سورج کو فوکس کر رھے ھیں‘ یہ گیس اور پٹرول کی محتاجی سے نکلنے کےلئے زمین پر سورج جیسا لیکن محدود اور کنٹرولڈ فیوژن کرنا چاہتے ھیں‘ یہ اس کےلئے فیوژن ری ایکٹر بنارھے ھیں‘ یہ پراجیکٹ چین میں زیر تعمیر ھے اور دنیا کے آٹھ بڑے ممالک فیوژن ری ایکٹر کےلئے چین کی مدد کر رھے ھیں‘ فیوژن ری ایکٹر کےلئے ہیلیم گیس درکار ھے‘ یہ گیس ھماری فضا میں انتہائی کم ھے‘ سائنس دان کم یابی کی وجہ سے اسے ”نوبل گیس“ کہتے ھیں‘ ھم اگر اپنی فضا کو نچوڑیں تو ھم اس سے بمشکل 15 ٹن ہیلیم گیس حاصل کر سکیں گے‘ چاندہماری زمین کے قرب و جوار میں واحد مقام ھے جس پر 50 لاکھ ٹن ہیلیم گیس موجود ھے‘ چین نے جون 2014ءمیں چاند سے ہیلیم گیس لانے کا فیصلہ کر لیا‘ چینی سائنس دان دن رات اس پراجیکٹ پر کام کر رھے ھیں‘ یہ لوگ جس دن کامیاب ھو جائیں گے اس دن چین کی توانائی کی تمام ضرورتیں پوری زندگی کےلئے پوری ھو جائیں گی‘ یہ منصوبہ پہیئے‘ بجلی کی ایجاد‘ ریڈیو سگنلز اور کمپیوٹر کی ایجاد سے بڑا بریک تھرو ھو گا‘ انسان کو اس کے بعد توانائی کےلئے کسی ذریعے کی ضرورت نہیں رھے گی‘ ھم بلب سے جہاز تک دنیا کی ہر چیز فیوژن توانائی سے چلائیں گے‘یہ چین ھے‘ آپ اب جاپان کی طرف آئیے‘ جاپان کی کمپنی Shimizu کارپوریشن نے چاند کے خط استوا پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ بیلٹ سورج کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی اور یہ بجلی شعاع بن کر زمینی سٹیشن پر اترے گی‘ یہ بیلٹ ”لونر رنگ“ کہلائے گی‘ یہ جاپان کو روزانہ 13 ہزار ٹیراواٹ بجلی دے گی‘ امریکا اس وقت 4100 ٹیراواٹ بجلی پیدا کررہا ھے گویا جاپان صرف ایک منصوبے کے ذریعے امریکا کی کل پیداوار سے تین گنا زیادہ بجلی حاصل کرے گا‘ یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ھو گی‘ یہ ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں پھیلائے گی اور اس کےلئے خام مواد بھی درکار نہیں ھوگا۔ یہ کیا ھے؟ یہ انسان کی صرف ایک ضرورت یعنی بجلی پر ھونے والی ریسرچ ھے اور یہ ریسرچ چیخ کر بتا رھی ھے‘ ھم سے چند ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہم جیسے انسان چاند اور سورج سے اتنی بجلی حاصل کریں گے جو 245 ممالک پر پھیلی اس دنیا کے سات ارب لوگوں کے بلب‘ چولہے‘ اے سی‘ ہیٹر اور گاڑیاں چلا ئے گی‘آپ ان دونوں منصوبوں کو سائیڈ پر رکھ دیں اور ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجئے‘ دنیا میں 2000ءتک گیس اور پٹرول گاڑیاں چلانے کا واحد ذریعہ ھوتا تھا لیکن آج دنیا میں ہائی برڈ گاڑیاں بھی ھیں اور یورپ‘ امریکا اور آسٹریلیا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی دھڑا دھڑ بن رھی ھیں‘ یہ گاڑیاں انجن کے بغیر چلتی ھیں‘ آپ بیٹری ری چارج کرتے ھیں اور پانچ سو کلو میٹر سفر طے کرلیتے ھیں‘ دنیا میں سولر انرجی سے اڑنے والے جہاز بھی بن چکے ھیں‘ دنیا 2020ءتک ”سولر فلائیٹس“ کے مزے لوٹے گی‘ دنیا بھر کے سائنس دان ”کرشماتی ادویات“ بھی ایجاد کر رھے ہیں‘ آپ بچوں کو ویکسین دیں گے اور بچے زندگی بھر کے لئے متعدی امراض سے محفوظ ھو جائیں گے‘ آپ چھوٹے بڑے تمام امراض کےلئے ایک ھی گولی کھائیں گے اور گلے کی خرابی سے قبض تک آپ کے تمام امراض دور ھو جائیں گے‘ امریکا میں ایسی شرٹس بھی بن چکی ھیں جنہیں دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی‘آپ شرٹ کو جھاڑیں اور پہن لیں‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے کپڑے بھی ایجاد ھو چکے ھیں‘ آپ جب چاھیں‘ جہاں چاھیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ تبدیل کر لیں‘ میں نے پچھلے دنوں آسٹریلیا کا ویزہ لگوایا‘ مجھے ویزے کےلئے پاسپورٹ سفارتخانے بھجوانا پڑا اور نہ ھی انٹرویو دینا پڑا‘ کاغذات کوریئر کے ذریعے بھجوائے اور ای میل پر ویزہ آ گیا‘ میں نے ویزے کا پرنٹ لے لیا‘ آپ ترکی کا ویزہ بھی ”آن لائن“ حاصل کر سکتے ھیں‘ دنیا بھر کی کرنسی پلاسٹک کے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ میں سما چکی ھے‘ آپ دنیا کے کسی کونے میں اپنا کارڈ ”سوائپ“ کریں اور خریداری کر لیں‘ دنیا کے تمام بڑے بینک ”آن لائن“ ھیں‘ آپ انٹرنیٹ کے ذریعے رقم جمع بھی کرا سکتے ھیں‘ نکال بھی سکتے ھیں اور ٹرانسفر بھی کر سکتے ھیں‘ آپ کا موبائل دو برسوں میں آپ کا شناختی کارڈ بھی بن جائے گا‘ پاسپورٹ بھی‘ ڈرائیونگ لائسنس بھی‘ بینک بھی‘ کریڈٹ کارڈ بھی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کا بل بھی‘ پراپرٹی کا ریکارڈ بھی‘ ہیلتھ کارڈ بھی اور انشورنس پالیسی بھی۔ آپ اپنا موبائل فون مشینوں کی سکرینوں سے ٹکراتے جائیں گے اور آگے بڑھتے جائیں گے‘ آپ دو برس میں ”سم لیس“ فون بھی استعمال کریں گے‘ آپ کوکسی ملک میں ”سم“ نہیں بدلنا پڑے گی‘ آپ کا فون نمبر دنیا بھر میں ”لوکل پیکج“ پر کام کرے گا‘ آپ کو ”رومنگ چارجز“ نہیں پڑیں گے‘ گوگل پوری دنیا کےلئے ”ایک وائی فائی“ پر کام کر رہا ھے‘ فضا میں بڑے بڑے غبارے فکس ھو رھے ھیں‘ غباروں میں انٹرنیٹ کی مشینیں لگی ھیں‘ یہ مشینیں پوری دنیا کو وائی فائی سے جوڑ دیں گی‘ دنیا بھر کےلئے ”وارننگ سسٹم“ بھی بن رہا ھے‘ یہ سسٹم آپ کو ایک سال پہلے بارش‘ سیلاب‘ زلزلے‘ آتش زدگی‘ وباﺅں اور آندھی طوفان کی اطلاع دے دے گا‘ یہ آپ کو یہ بھی بتائے گا دنیا کے کس کونے میں کب‘ کس چیز کی قلت ھو گی‘ دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ سسٹم کے ذریعے وقت سے پہلے اپنا بندوبست کر لیں گے‘ دنیا بڑی تیزی سے ”ڈی این اے“ کو شناختی نشان بھی بناتی جا رھی ھے‘ آپ کون ھیں‘ کہاں کے رھنے والے ھیں اور آپ کس پیشے سے منسلک ھیں‘ ان تمام سوالوں کا جواب آپ کے خون کا ایک قطرہ دے گا‘ دنیا میں سچائی کی مشینیں بھی دھڑا دھڑ بن رھی ھیں‘ ھم جب بھی جھوٹ بولیں گے‘ یہ مشین ھمارے پسینے کی بو سے اس کا اندازہ لگا لے گی اور سائنس دان ایک ایسا واسطہ بھی تلاش کر رھے ھیں جو روشنی کی رفتار سے تیز ھے اور انسان جس پر سفرکر کے سیکنڈ میں ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر لے گا‘ انسان نے جس دن یہ واسطہ تلاش کر لیا یہ اس دن کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاﺅں میں اتر جائے گا‘ یہ وہاں کھلی آنکھوں سے لمحہ بہ لمحہ پھیلتی کائنات کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ کیا ھے؟ہ علم ھے اور دنیا اس علم سے جی بھر کر فائدہ اٹھارھی ھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذرے ذرے میں اسباب کے لاکھوں خزانے چھپا دیئے ہیں‘ یہ تمام اسباب اہل ایمان کی امانت ھیں لیکن اہل ایمان نے یہ اسباب چین‘ جاپان‘ کوریا‘ آسٹریلیا‘ یورپ اور امریکا کے حوالے کر کے اپنے لئے سستی‘ جہالت اور نالائقی چن لی‘ دنیا آج بجلی کےلئے چاند اور سورج پر تاریں بچھا رھی ھے‘ یہ ”گلوبل وائی فائی“ کے ذریعے پوری دنیا کو جوڑ رھی ھے لیکن ھم اہل ایمان پولیو کی ویکسین کو حرام قرار دے رھے ھیں‘ ھم دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کی گردنیں اڑا رھے ھیں اور ھم مسجدوں میں بم پھاڑ رھے ھیں‘ دنیا ”فیوژن ری ایکٹر“ کےلئے ایک دوسرے کی مدد کر رھی ھے لیکن ھم لوگ رمضان کے چاند پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر پا رھے اور دنیا کرہ ارض پر پھیلے سات ارب انسانوں کو ”ون یونٹ“ میں پرونے کی کوشش کر رھی ھے لیکن ھم نے محلے میں تین تین مسالک کی مسجدیں بنا رکھی ہیں‘ ھم کب جاگیں گے‘ ھم اسباب کی اس دنیا میں اپنا حصہ کب ڈالیں گے‘ ھم دنیا کو کب بتائیں گے ھم مسلمان بھی ذہین ھیں‘ ھم مسلمان بھی عالم ھیں‘ ھم مسلمان بھی آئن سٹائن ھو سکتے ھیں اور ھم مسلمان صرف بجلی استعمال نہیں کرتے‘ ھم بجلی بنا بھی سکتے ھیں لیکن اس کےلئے آنکھیں کھولنا ضروری ھے اور ھم مسلمان آنکھیں کھولنے کےلئے تیار نہیں ھیں‘ پتہ نہیں ھماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 298502 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More