کرپٹ پٹواری بمقابلہ وزیر اعلی پنجاب

دو افراد نے ضعیف العمر شخص کو سہارا دیا ہوا تھا اور عدالت میں لا رہے تھے ضعیف العمر شخص انتہائی لاغر کمزور تھا کہ اپنا وزن اٹھانا بھی محال تھا لیکن وہ عدالت میں پیشی پر آیا ہوا تھے مزید یہ کہ وہ گذشتہ پانچ سالوں سے بستر پر صاحب فراش تھے خود چلنا پھرنا تو درکنار حرکت کرنا بھی کار دشوار تھا حتی کہ کھانابھی خود سے تناول نہیں کرسکتے تھے تو ایسی حالت میں عدالت میں آنا یقیناًایسی کوئی مجبوری ہوگی کہ وہ اس ناقابل بیان حالت میں عدالت آئے معلوم ہوا کہ اپنے علاج معالجے کیلئے انہوں نے اپنا ذاتی ملکیتی پلاٹ جو کہ عرصہ ساٹھ سال سے انکے تصرف اور قبضے میں تھا وہ تین چار ماہ قبل فروخت کردیا تاکہ علاج کیلئے اخراجات کے انتظام ہوسکے۔ لیکن ان پر ان کی کھیوٹ میں موجود ایک کھیوٹ دار نے جو کہ ایک عادی درخواست باز اور بلیک میلر ہے نے سٹے آرڈر لے لیا اورجھوٹا استقرار حق کا دعوی دائر کردیا ہے اور اب اس دعوی کی پیروی کیلئے عدالت میں آنا پڑا۔حالانکہ وہ اوراس قماش کے لوگوں نے اپنا وطیرہ بنایا ہے کہ موضع کے پٹواری کے پاس اکثر وبیشتر براجمان ہوتے ہیں اور خریدوفروخت کی معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں جبکہ پٹواری بھی فطرتا اپنے پیشہ سے خیانت برتتے ہوئے ان لوگوں کو از خود معلومات مہیا کرتے ہیں تاکہ بلیک میلنگ سے حاصل ہونے والی رقوم میں سے حصہ لے سکیں-

راقم نے اس صورت حال کو واضح کرنے کیلئے کام کیا تو معلوم ہوا کہ اربن کے مواضعات میں پٹواری جو کہ عرصہ دراز سے ایک ہی موضع پر قابض ہیں انہوں نے ہر علاقہ میں اپنے حساب سے کھیوٹ دار بطور ٹاؤٹ اور درخواست باز چھوڑ رکھے ہیں جب ان پٹواریوں کے پاس کوئی خاتون، معمر شخص، یا کوئی سادہ لوح اور ان پڑھ سائل اپنے جائیداد کی خریدو فروخت کیلئے آتا ہے اور فرد نکلواتا ہے تو وہ اس سے اسی وقت جگا ٹیکس فیس کی مد میں وصول کرتا ہے حکومتی احکامات اوروزیر اعلی کی گڈگورننس اور ہدایات کو لات مارتے ہوئے اور جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے مقررہ فیس سے سینکڑوں گنا وصول کرتے ہیں نا دینے والہ اپنا ذاتی رقبہ بھی فروخت نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ایسے ایسے اعتراضات لگاتے ہیں کہ مہینے کم پڑجاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے ٹاؤٹ کو بطور کھیوٹ دار اس کے خلاف عدالت میں دعوی دائرکرنے کی تجاویز بھی مفت فراہم کرتے ہیں اور اس دوران اس رقبہ سے متعلق تمام امور ٹھپ کردیئے جاتے ہیں انتقال درج نہیں ہوتے ایسی صورت حال میں کوئی بھی ایسا شخص جس نے اپنا کاروبار کرنا ہے معاش تلاش کرنا ہے عدالتوں کے روایتی سست سسٹم سے بچنا چاہتا ہے تو وہ بادل نخواستہ با گیننگ کے بعد ان کی ڈیمانڈ پر رقم دیکر جاں خلاصی کراتے ہیں اور اگر کوئی سر پھرا ڈٹ جائے تو پھر عدالتی نظام کی سست روی اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے-

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ٹاؤٹ، بلیک میلر یا عادی درخواست باز کی اس کھیوٹ میں کاغذات کی حدتک تو دو چار مرلہ جگہ ہوتی ہے وہ بھی پٹواری کی منشا کے مطابق لیکن اس میں کہیں پر بھی اس کا رقبہ قبضہ یا ملکیتی جائیداد موجود نہیں ہوتی بس وہ اپنا خوامخواہ کا اختیار جتاتے ہیں اور عدالتی نظام کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ یہ جگہ ہماری ملکیت ہے جسے فلاں شخص نے فلاں کو فروخت کردیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے عدالت اس پرفورا سٹے صادرفرمادیتی ہے اور تین میں نہ تیرہ میں ہونے کے باوجود وہ شخص حقیقی مالک کو خواہ مخواہ کی ذہنی جسمانی اور مالی ٹینشن کا شکار بنادیتا ہے اور وہ مرتا کیانہ کرتا کے مصداق اس سارے ڈرامے سے جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔پٹواری جو کہ اس سارے معاملے میں ماسٹر مائنڈکا کردار ادا کررہا ہوتا ہے ہر طرف سے اس کی چاروں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں اور دھڑ چولہے میں ہوتا ہے وہ اپنے ریکارڈ میں درستگی بھی اس لئے نہیں کرتا کہ ایک ’معقول روزی‘ حاصل ہوتی ہے اور معذرت کے ساتھ عدالتیں تو یہ نہیں دیکھتی کہ جس نے دعوی کیا تھا وہ اس نے واپس کیوں لے لیا اور ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ اس نے عدالت کو اس کام کیلئے انگیج کیا اور جب چاہا اپنا دعوی اٹھالیا کیا عدالتوں کا کام یہی رہ گیا ہے کہ عادی درخواست بازوں کے فیصلوں پر کام کرے اور پھر اسے فیصل کرنے سے قبل ہی خارج کردے۔معزز عدلیہ کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ ناجائز کسی شخص کو ذہنی جسمانی اور مالی اذیت سے نہ گزارا جائے اس قماش کے لوگوں کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کی جانا ضروری ہے اور عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے مزید یہ کہ ایسے افراد کو ریکارڈ اپ ڈیٹ کرکے انہیں اس کھیوٹ سے بے دخل کردیا جائے یا دوسرے لفظوں میں بلیک لسٹ کردیاجائے تاکہ وہ اس قسم کے قبیح افعال دوبارہ سے انجام نہ دے سکیں اور عوام کو ریلیف اور سکون میسر آسکے۔ اس سلسلے میں تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز، ضلع لیول پر ڈپٹی کمشنرز اور ڈوپژن لیول پر کمشنر کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کی شکایات پر لسٹیں مرتب کرائیں اور انہیں ہمیشہ کیلئے بلیک لسٹ کیا جائے اور پٹواریوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ان کو اس حوالے سے کوئی بھی فرد جاری نہ کریں اور مرتکب پٹواری کو نکیل ڈالی جائے۔مذکورہ بالا واقعہ ایک نہیں ہے بلکہ بطور مثال پیش کیا گیا ہے اس قسم کے کئی واقعات روز پٹوارخانوں میں ہوتے ہیں اور غریب کمزور اور سادہ لوح عوام کی کھال الٹی چھری سے اتاری جارہی ہوتی ہے اور اب سب سے بڑا کردار وزیر اعلی پنجاب کا بنتا ہے جو کہ پٹوار کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اپنی رٹ کو منوانے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور عوام کی خیرخواہی اور دادرسی کے دعوے ٹھس ہوچکے ہیں پٹواری سرعام رشوت اور مٹھائی کا بازارگرم کئے ہوئے ہے لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔کہیں کوئی ایم این اے ان کا مرہون منت ہوتا ہے تو کہیں ایم پی اے کے کچن کا خرچ پٹوار خانے سے جارہا ہوتا ہے کوئی گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کی ذمہ داری پر عوام کو ذلیل کرنے کا پرمٹ لئے بیٹھا تو کوئی ڈیرے چلانے کے اخراجات کانگران ہے اس لئے وہ دھڑلے سے وزیراعلی کی رٹ کی دھجیاں اڑاتے دکھائی دیتے ہیں کیا پٹواری وزیر اعلی کیلئے ایک چیلنج نہیں بن گئے ہیں۔۔۔؟

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 190984 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More