بری صحبت برا انجام

کاشف تم کل غیر حاضر کیوں رہے؟ سر میرے والد صاحب بیمار تھے کل مجھے ان کی دکان پر جانا تھا۔ لیکن کسی نے اطلاع نہیں دی ۔ سر میرا ارادہ تھا کہ میں جلدی کام سے فارغ ہو کر اسکول پہنچ جاؤں گا لیکن دکان پر کام بہت تھا ۔ چلو آج بیٹھ جاؤ آئندہ بغیر اطلاع کیے چھٹی نہ کرنا۔ جی بہتر یہ کہتے ہوئے کاشف اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔

کاشف انس کی آواز سنتے ہی کاشف کے قدم رک گئے۔ ہاں انس سناؤ کیسے ہو ؟ میں ٹھیک ہوں آپ سناؤ مجھے تو آج آپ کی فکر رہی کل ٹیچر نے کچھ کہا تو نہیں ۔ کہنا کیا تھا بس وہ آپ والا بہانا لگایا ۔ بھئی کون سا ! ارے وہی جو آپ نے کہا تھا کہ اسکول سے چھٹی کر لو اور ضروری کام کا بہانا لگا دینا ۔ بتاؤ یہ بہانا کیسا رہا۔ اسن نے شوخیہ انداذ میں پوچھا۔ بہت خوب ! کاشف نے اپنا ہاتھ زور سے انس کے ہاتھ پر مارا اور دونوں کھلکھلاتے ہوئے گراؤند کی طرف بڑھ گئے۔

کاشف ایک غریب باپ کا بیٹا تھا ۔ ان کی بازار کے کنارے ایک چھوٹی سی سبزی کی دکان تہی جس سے ان کی گھر کا گزر بسر با مشکل ہوتا تہا ۔ لیکن کاشف کے والد اپنے بیٹے کی تعلیم کے حوالے سے بہت سنجیدہ تھے ۔ کبھی بھی تعلیمی خرچ کے حوالے سے کاشف کو کو شکایت کا موقع نہیں دیا تہا لیکن کاشف کے دوست کچھ اچھے نہیں تھے ۔ وہ کاشف کو بھی کھیل کود اور دوسری مشغولیات میں الجھائے رکھتے تھے آہستہ آہستہ کاشف میں بھی بری عادتیں پیدا ہونے لگیں ۔ اب اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا ۔ پڑھائی سے بچنے کیلئے وہ طرح طرح کے بہانے بناتا یہاں تک کہ وہ جھوٹ بولنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا آج بھی جب ٹیچر نے چھٹی کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے ضروری کام کا جھوٹا بہانا لگا دیا ۔

ہیلو اسلام علیکم! کاشف کے ابو فون اٹینڈ کرتے ہوئے بولے۔ و علیکم السلام ! میں کاشف کے اسکول سے اس کا ٹیچر زبیر بات کر رہا ہوں ۔ جی زبیر صاحب خیریت سے ہیں ؟ ہاں ! الحمد ﷲ خیریت سے ہوں ۔ جی فرمائیں کیسے یاد کرنا ہوا ۔ کاشف کے ابو نے ان سے پوچھا۔ میں نے کاشف کی پڑھائی کے حوالے سے بات کرنی تھی۔ ماشاء اﷲ ! آپ پہلے بھی شفقت فرماتے ہیں جی فرمائیں کاشف پڑھائی میں کیسا جارہا ہے؟ میں کچھ دنوں سے اس کی پڑھائی سے مطمئن نہیں ہوں ۔ کل بھی اس نے بغیر اطلاع کے چھٹی کی ہے ۔ ہیں! کل وہ غیر حاضر ہوا ۔ حالانکہ وہ میرے سامنے ہی یونیفارم پہن کر اسکول کے لئے باہر نکلا تھا ۔ آپ کا شکریہ کہ اس صورت حال سے آگاہ کیا ۔ ابھی تو وہ کسی کام کیلئے گھر سے باہر گیا ہے ۔ واپس آتے ہی میں اس کی خبر لیتا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے کاشف کے ابو نے غصہ سے فون بند کر دیا ۔

اسکول کی اسمبلی ختم ہوتے ہی سب بچے اپنی اپنی کلاس میں پہنچ چکے تھے ۔ کاشف بھی سر جھکائے ایک طرف کو بیٹھا تھا ۔ کہ اچانک سر عادل کلاس میں داخل ہوتے دکھائی دیے ۔ کاشف ان کی آوازگونجی ادھر آؤ۔ اور وہ بوجھل قدموں سے عادل صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ مجھے تمہاری حرکت پر انتہائی افسوس ہوا۔ میں تمہارے غریب باپ کی وجہ سے تمہاری تعلیم کا سب سے بڑھ کر خیال رکھتا تھا۔ لیکن تم نے مجھے اور اپنے گھر والوں کو بہت دھوکہ دیا ۔ اور جھوٹ بول کر میرے سے اپنا اعتماد اٹھا لیا ہے۔ سر میں آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔ آپ مجھے آخری مرتبہ معاف فرما دیں ۔ میں کبھی بھی برے لڑکوں سے دوستی نہیں لگاؤں گا ۔ اور میں اپنی حرکت پر شرمندہ ہوں سر ۔ مجھے معاف فرما دیں ۔ سر پلیز سر یہ کہتے ہوئے کاشف سر عادل کے قدموں میں گر تا چلا گیا۔ سچ ہے کہ بروں کی دوستی انسان کو برا بنا دیتی ہے ۔ تو اچھے بچو! دیکھا آپ نے کاشف کو بری دوستی کے نتیجے میں کتنی ندامت کا سامنا کرنا پڑا؟؟․

Hafiz Usman Yousuf
About the Author: Hafiz Usman Yousuf Read More Articles by Hafiz Usman Yousuf: 11 Articles with 21119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.