اسلام آباد میں ایک اہم کشمیر کانفرنس کا انعقاد

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک اہم گول میز کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام ایک عالمی شہرت یافتہ کشمیری شخصیت ڈاکٹر سید نزیر گیلانی کی سربراہی میں قائم جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس' نے کیا ۔اس کانفرنس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی کئی نمایاں شخصیات نے اپنے اپنے اظہار خیال میں کشمیری عوام کے جذبات اور خواہشات کی ترجمانی کی اور ایسے کئی امور پر بھی بات کی گئی جن پر بات کرنا اکثر حلقے،شخصیات اپنے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ JKCHRکی طرف سے مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سنگین صورتحال سے متعلق ایک دستاویز پہلے ہی شرکاء کو دی گئی تھی۔

اس دستاویز میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آرمڈ فورسز کی طرف سے مردوں،خواتین،نوجوانوں اور بچوں پر ڈھائے جانے والے بہیمانہ مظالم پریورپ،امریکہ ،مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں پرامن طور پر رہنے والے متنازعہ ریاست کشمیر کے باشندوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔31مارچ1959تک ہندوستان کے باشندوں کو ریاست جموں وکشمیر میں داخلے کے لئے انٹری پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی لیکن کشمیری مسلمانوں کی پانچ نسلوں کو ہندوستان نے کشمیر میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا،جو مہاجر ہو کر پاکستان اور آزاد کشمیر میں رہ رہے ہیں۔'بی جے پی ' حکومت کشمیر کے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے کشمیر میں ہندوئوں کی بڑے پیمانے پر مداخلت کے ساتھ فوجی طاقت کو یکجا کر رہا ہیبھارتی ہندو جموں و کشمیر کی ریاست کو بھارت کی یونین کے ساتھ ضم کرنے کے لئے ایک پروجیکٹ کے طور پر امرناتھ یاترا کو استعمال کر رہے ہیں۔امر ناتھ یاترا میں تیس ہزار بھارتی فوجی تعینات کئے جاتے ہیں اور گزشتہ بیس سال کے دوران ان یاتریوں کی تعداد چند ہزار سے پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ہے ،جو1980ء میں چند ہزار تھی،1997میں ایک لاکھ بیس ہزار اور2015میں پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔کشمیر میں امرناتھ غار کا دورہ کر نے والے ہندو ئوں کی تعدادمیں یہ اضافہ غیر معمولی ہے اور ہندوسقوم پرست کشمیر پر اپنی عددی طاقت منوانے کے لئے امر ناتھ یاترا کا استعمال کر رہے ہیں۔اس کے برعکس کشمیری مسلمان پناہ گزینوں کی حفاظت اور وقار سے اپنے گھروں کی واپسی سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد اپریل 1948 کے باوجود بھارت کی طرف سے ریاست چھوڑ کر جانے پر مجبور کشمیری مسلمانوں کو واپس نہیں آنے دیا جاتا۔

بھارت کی وزارت داخلہ، انٹیلی جنس اور پولیس کی طرف سے کشمیریوں کی مراحمتی تحریک کے خلاف2002ء کی طرح سپیشل آپریشن گروپ کو دوبارہ قائم اور فعال کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے ایک 15نکاتی منصوبے پر کام جاری ہے۔ریاست کشمیر میں ہندو مہاراجہ کے دور میں پہلی مرتبہ 1931کو12ستمبر سے 5اکتوبر تک مسلسل 24دن کرفیو لگایا گیا جبکہ گزشتہ سال بھارت کی طرف سے 8جولائی سے11نومبر تک 127دن مسلسل کرفیو نافذرہا ۔20اپریل 2017 بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ گولیوں کا استعمال کشمیری مظاہرین سے نمٹنے کا واحد ذریعہ ہے اور یہ کہ محبت اور جنگ میںسب کچھ جائز ہے۔کشمیری نوجوانوں کی بھارتی فورسز کے خلاف پتھرائو کی مہم کے دوران بھارتی فوج نے ایک27سالہ نوجوان فاروق احمد ڈار کو فوجی جیپ کے سامنے باندھا تاکہ فوجیوں پر پتھرائو نہ کیا جا سکے۔یوں بھارت فوج مقبوضہ کشمیر میں عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر رہی ہے۔'بی جے پی' کے وزیر انڈسٹری چندر پرکاش گنگا، نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ بھارت کشمیر کے عوام کے ساتھ ایک جنگ میں مصروف ہے۔یوں اسلام آباد گول میز کانفرنس کو اس بارے بھی غور کرنا چاہئے کہ کشمیری عوام اس صورتحال میں اپنے دفاع کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے رکن ملک، مسئلہ کشمیر کے فریق کے طور پر اورUNCIP کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری عوام کی زندگی،عزت و مال کی حفاظت اور حق خود ارادیت کے حصول میں پیش رفت کے لئے کوشش کرے۔ جس طرح1896میں انسانی بنیادوں پر کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لئے پنجاب میں کشمیر کمیٹی قائم کی گئی ،اسی طرز پہ ایک ایسوسی ایشن کے قیام کی ضرورت ہے ۔19 جنوری 2017 کو برطانوی ہاس آف کامنز میں کشمیر پر ایک جامع بحث ہوئی اور برطانوی دارلعوام نے متفقہ طور پر تجویز کیا کہ کشمیر میں تشدد اور کنٹرول لائین پر بھارتی موقف سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اوربرطانوی حکومت پر زور دیا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے تا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دفعات کے مطابق میں کشمیریوں کواپنے مستقبل کا تعین کرنے کے کشمیریوں کی مستقبل میں حکمرانی کے لئے ایک طویل مدتی حل قائم کیا جا سکے۔اس بارے میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فروری 2016 میں کشمیری نوجوانوں کو قتل کرنے پر انعامی رقم میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق عسکریت پسند کشمیری نوجوان کو ہلاک کرنے کا انعام دس لاکھ سے بڑھا کرساڑھے بارہ لاکھ کیا گیا ہے اور اسی طرح کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے چار درجے بنا کر انعامی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے۔

جنگی جرائم کی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو جنگی جرائم، انسانیت، اور نسل کشی کے خلاف جرائم پر مقدمہ چلانے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں،انسانیت کے خلاف جرائم کے معاملات انٹر نیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر کی تحقیقات کے لئے ، بنیادی مہارت سے پیش کئے جا سکتے ہیں۔بھارتی جیلوں میں قید کشمیریوں کی حالت زار، بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کے واقعات،کشمیریوں سے غیر انسانی اور توہین پر مبنی سلوک،تشدد،جبری طور پر لاپتہ کرنے،ہزاروں کی تعداد میںکشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گن کی فائرنگ سے اندھا کرنے،ہزاروں نوجوانوں کو فائرنگ سے قتل کرنے کی صورتحال گزشتہ 24سال سے مسلسل طور پر درپیش ہے اور اب بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں میں بھارتی آرمڈ فورسز کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کو باقاعدہ طور'اپ ڈیٹ' کیا جائے۔

JKCHR نے کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور مسئلہ کشمیر کے موضوعات اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، دولت مشترکہ سیکرٹریٹ، او آئی سی، دیگر بین الاقوامی فورمز اور کشمیر پر اور کو حتمی شکل دینے میں اقوام متحدہ کے مباحثوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔' اسلام آباد کشمیر گول میز کانفرنس' کے موضوعات ، نتائج اور سفارشات کو عالمی اداروں اور ممالک میں پیش کیا جائے گا تا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیر میں ریفرنڈم منعقد کیا جائے۔

اسلام آباد میں گول میز کشمیرکانفرنس دو سیشنز میں تقریبا پانچ گھنٹے جاری رہی۔کانفرنس میںJKCHRکے سربراہ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان اکیلا جبکہ ہم چھ ہیں،وادی کشمیر،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان،پاکستان اور بیرون ملک مقیم مہاجرین،حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ۔انہوں نے کہا کہ جو ظلم ہندوستان کشمیر میں کر رہا ہے وہ اسرائیل نے بھی اختیار نہیں کئے،جیساکہ ہندوستانی فوج کا عام شہریوں کو انسانی ڈھال(ہیومن شیلڈ) کے طور پر استعمال کرنا۔ہندوستان کے کشمیریوں کے خلاف مظالم اب انسانیت کے خلاف مظالم اور ''وار کرائمز'' کے طور پر سامنے آئے ہیں۔آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتیں دنیا کو یہ باور کرائیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی آرمڈ فورسز کے انسانیت کے خلاف اور وار کرائمز پر مبنی مظالم کی غیر معمولی صورتحال میں یورپ اور امریکہ ،مشرق وسطی میں مقیم کشمیریوں کی طرف سے ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ڈاکٹر نزیر گیلانی نے دریافت کیا کہ اس صورتحال میںکشمیریوں کو پاس کیا سیلف ڈیفنس ہے؟اقوام متحدہ کی قرار دادوں نے ہمیں کچھ نہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے اور پاکستان نے ہی یہ خلاء پر کرنا ہے۔اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کوway outکریں۔ہندوستان نے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کے خلاف سیاست،فوج اورعدلیہ کو کمبائن کرتے ہوئے ان کے خلاف متحرک کیا ہے۔ہندوستان کے عہدیدار کشمیریوں کے خلاف مزید سختی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کے ان بھیانک مظالم کے خلاف پاکستان اس سال ستمبر میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کے مسئلے پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کرتے ہوئے پرزور طور پرکشمیر کی صورتحال کا معاملہ اٹھائے،دنیا کو بتایا جائے کہ ہندوستان اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ہندوستان کی عدلیہ بھی فوج اور سرکاری عہدیداران کی طرح کشمیریوں کے خلاف مظالم کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔کشمیری مظاہرین پر ہندوستانی فورسز کی فائرنگ پر سرینگر بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن پر ہندوستانی عدالتوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ پہلے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ کشمیری پتھرائو نہیں کریں گے۔12ستمبر2017کو منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سید نزیر گیلانی نے کہا کہ ہم،پار والی حریت بھی مزاکرات کے حوالے سے بڑی غلطی کر رہے ہیں،حق خود اردایت پر کیا بات چیت،اور کیا وہ علاقائی ہو گی؟ظالم ڈوگرہ مہاراجہ نے 24ستمبر سے5اکتوبر تک مسلسل کرفیو لگایا تھا جبکہ اب ہندوستان نے مسلسل127دن مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگایا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم کی صورتحال میں انٹر نیشنل کرمنل کورٹ کی جورسڈیکشن بنتی ہے۔سید نزیر گیلانی نے کہا کہ اب مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

حریت کانفرنس پاکستان و آزاد کشمیر شاخ میں گیلانی گروپ کے کنوینئرغلام محمد صفی نے کہا کہ کشمیریوں کا حق خود ارادیت مسلمہ ہے ،کشمیری عوام نے ہندوستان کو مسترد کیا ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ عالمی برادری کو یہ احساس دلایا جائے کہ کشمیریوں پر ہندوستانی مظالم صرف اس لئے ڈھائے جا رہے ہیں کہ کشمیری حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں۔ہندوستانی فوج کہیں بھی جوابدہ نہیں ہیں اور انہیں کشمیریوں کو مارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو ظلم و تشدد سے بچائے، اگر ریاست خود شہریوں کے خلاف ظلم و تشدد کرے تو عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ مداخلت کرے۔غلام محمد صفی نے کہا کہ کشمیری ہندوستانی شہری نہیں ہیں،وہ مقبوضہ خطہ کے لوگ ہیں،اقوام متحدہ نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے۔ ترکی کے صدر اردگان نے کہا کہ کشمیریوں پر مزید ظلم نہ کیا جائے اور ترکی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ترک صدر اردگان نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔''او آئی سی'' ،کمشنر ہیومن رائٹس نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے،اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بنتی ہے۔

آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان نے کہا کہ حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد مینںکشمیریوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔کشمیریوں کی جدوجہد دہشت گردی نہیں ہے،7لا کھ ہندوستانی فوج کشمیریوں کے خلاف تشدد،قتل،گھروں،جائیدادوں کو تباہ کرنے کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔یہ باہمی معاملہ نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں۔''او آئی سی'' ہر سال قراردادیں منظور کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کرتی ہے۔کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم انسانیت کے خلاف جرائم اور '' وار کرائمز'' ہیں۔مغرب کو معلوم ہے کہ بھارت کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔بھارت تین چار دہائیوں سے ہم سے بے ایمانی کر رہا ہے،پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مزاکرات بے فائدہ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث کی جائے۔صدر مسعود خان نے کہا کہ روائیتی و غیر روائیتی ہتھیاروں کے باوجود انڈیا ہمیں شکست نہیں دے سکتا تاہم کیمیونیکیشن کے شعنبے میں بھارت نے ہمیں ہرایا ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کشمیریوں کی آواز اٹھانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ اگر کشمیری نکلتے رہیں گے تو مسئلہ زندہ رہے گا۔

آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار انور خان نے حکومت آزادکشمیر پر تنقید کی اور کہا کہ بیس کیمپ کے حکمرانوں کے پاس تحریک آزادی کے لیے وقت ہی نہیں ہے، صدر مسعود خان اچھی انگریزی تو بولتے ہیں لیکن تحریک کی وکالت کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کو زندگی رکھنے میں صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کی قربانیاں سر فہرست ہیں، ان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔صدر مسعود خان ایک سنجیدہ سفارتکار ہیں لیکن ان کی بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کشمیر کو عالمی سطح پر بھر پور اٹھانے کی ضرورت ہے، مسعود خان کو سوچنا چاہیے کہ آج دنیا انسانی حقوق کو نہیں دیکھتی بلکہ ذاتی مفادات کو دیکھا جاتاہے، وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے پاس انڈیا کے بزنس ٹائیکون سجن جندل سے ملنے کے لئے وقت ہے لیکن کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف سیز فائر لائن کو مستقل سرحد بنانا چاہتے تھے لیکن میں بطور صدر آزاد کشمیرسب سے پہلے ان کے سامنے کھڑا ہو ا،.آزادکشمیر کے حکمرانوں کے پاس گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف بولنے کا وقت نہیں ، مسئلہ کشمیر کو تقریروں سے حل نہیں ہو گا۔آزادکشمیر کے حکمران جب یہ فیصلہ کر لیں گے حکومت بچانے کے لیے مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا تو پھر پاکستان کے کسی حکمران کو ہمت نہیں ہو گی کہ وہ آزادکشمیر کے حکمرانوں کو بلیک میل کریں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے اندر جو ہم آہنگی اور محبت ہے وہ کسی اور جگہ نہیں، یہ بات دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان کی پالیسی کے علاوہ طرز برتائو کا بھی شکوہ کیا۔

لبریشن لیگ کے سربراہ جسٹس (ر) مجید ملک نے الحاق کو کشمیر کی آزادی میں رکاوٹ قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ کہ دنیا آزادی کی حمایت کرتی ہے، کشمیری آزادی کی بات کرنے سے اس لیے کترا رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں ۔ پاکستان کو کشمیریوں پر اعتبار کرنے کی ضرورت ہے، ابھی تک پاکستان کی طرف کشمیریوں پراعتماد نظر نہیں آیا۔انہوں نے کہا ہے کہ دنیا آزادی کے خلاف نہیں ہے جس قوم نے بھی آزادی کی جنگ لڑی ہے اسے آزادی حاصل بھی ہے جس طرح سوڈان، تیمور، بنگلہ دیش سمیت جن ممالک کو آزادی ملی ہے ان کا ایجنڈا الحاق نہیں بلکہ آزادی تھا۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کشمیر کا بہترین وکیل ہے اور روز اول سے ہی کشمیریوں کی آزادی کے حق میں ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ دنیا جس طرح کشمیریوں کا کیس ان کی زبان سے سننا چاہتی ہے یا اس کا موثر طریقے سے ہو سکتا ہے وہ پاکستانی نہیں بلکہ کشمیری خود بیان کر سکتے ہیں۔ جس طرح مودی نے کہا کہ کشمیری ہمارے ساتھ تھے اور رہیں گے، اسی طرح مرتے بھی رہیں گے، کشمیر کے حوالے سے اگر ہماری پالیسی اور رویہ بہتر ہوتا تو ہندوستان یہ بات اس انداز سے نہ کرتا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگیں بھی لڑی اور جہاد بھی کیا جیتے بھی اور ہارے بھی، جیت ان لوگوں کی ہوئی جنھوں نے قربانیاں دیں، ہم لوگ ہارے اس طرح کہ ہم نے اپنے ہاتھ نیچے کر لئے۔ہندوستان ستر سال سے ہماری مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکراتا رہا اور ہم ہمیشہ پیشکش ہی کرتے رہے۔ساری دنیا اور ہمارا سب سے بہترین دوست چین بھی کہتا ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان اور ہندوستان نے حل کرنا ہے، انہوں نے اس کو زمین کا مسئلہ بنا رکھا ہے،مشرف کشمیر کو تقسیم کرتے رک گیا، جیسے ابھی نوازشریف گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے جا رہے تھے اور خود پانامہ کے مسئلے میں الجھ گئے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائے گی کشمیریوں کو ضرور آزادی ملے گی لیکن اس کے لیے پاکستان کو کشمیر پالیسی پر فوکس کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ صدر آزادکشمیر بہترین سفارتکار بھی رہ چکے ہیں کشمیر کاز اچھی طرح واقف ہیں، وہ اگر چاہتے تو برطانیہ اور امریکہ میں کشمیر پر بات کر سکتے تھے لیکن دورہ برطانیہ کے دوران گیلری تک محدود رہے جبکہ انہیں چاہیے تھا کہ ان کے دفتر خارجہ جا کر بات کرتے۔ آزادی کے نام پر اگر دنیا کا کوئی ملک مدد نہیں کرے گا تو مخالفت بھی نہیں کرے گا۔بھارت کا طاقت ور اور بڑا ملک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کشمیر کے حوالے سے ہمارا کیس اتنا مضبوط ہے کہ کسی فورم پر بھی بھارت قانونی طور پر یہ کیس نہیں جیت سکتا لیکن ہمارا مسئلہ لفظ الحاق کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے۔

جماعت اسلامی آزادکشمیر کے رہنما نور الباری نے کہا کہ آزادکشمیر کی حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنا تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکی انہوں نے ڈاکٹر نذیر گیلانی سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ آپ برطانیہ کو پیغام دینے سے قبل وزارت خارجہ، وزیراعظم پاکستان، کشمیر کمیٹی سمیت حریت کانفرنس آزادکشمیر کو پیغام دیں کہ جس طرح ستر سال گزرنے کے باوجود تقریروں اور قراردادوں سے کچھ نہیں ہو سکا،تحریک آزادی کشمیر کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری بنیادی طور پر عسکریت پسند نہیں تھے لیکن اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں اس بات کا ادراک پوری دنیا کو ہو چکا ہے، پاکستان ہمارا وکیل ہے لیکن وہ ایک کمزور وکیل بن گیا ہے۔سابق چیف جسٹس آزادکشمیر سیدمنظور گیلانی نے کہا کہ آزادکشمیر کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کے لیے 47 کی پوزیشن پر لے کر جانے کی ضرورت ہے جو ناممکن نظر آتا ہے.. ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کے حکمرانوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ہماری پہچان کیا ہے، ہمیں یہ سب سے پہلے بتایا جائے۔ لبریشن فرنٹ کے نمائندے فریق ڈار،اشرف چغتائی(برطانیہ)میر واعظ گروپ حریت کے کنوینئر فیض نقشبندی،شبیر احمد شاہ کے نمائندے محمود احمد ساغر،سابق سفارت کار عارف کمال،سابق سیکرٹری آزادکشمیر حکومت اکرم سہیل ،عظیم دت،مقصود جعفری،سابق ضلع قاضی و رجسٹرار شریعت کورٹ قاضی محمد بشیر،پروفیسر جمیل کھٹانہ ،کشمیر پر کام کرنے والی ایک این جی او سے وابستہ شائستہ صفی،ہمایوں زمان مرزا اور دیگر چند شخصیات نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔

میں نے مختصر طور پر مہیا وقت میں کہا کہ دنیا میں کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کے مسئلے کے بجائے پاکستان اور بھارت کے تنازعہ کے طور پر نمایاں ہے،کشمیریوں پر ظلم و ستم کو بھی دو ملکوں کی باہمی لڑائی سمجھا جاتا ہے۔بھارت کشمیر سے متعلق فیصلہ کن اقدامات کر رہا ہے لہذا ہمیں بھی فیصلہ کن سوچ اور اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے پریشر کو ایک سطح تک لیجا سکتے ہیں تاہم مسئلہ کشمیر کے حل کے فیصلہ کن اقدامات میں پاکستان اور عالمی طاقتوں کا کردار اہم ہے۔پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر سرگرم سفارتی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پھر ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے دنیا کو موثر طور پر آگاہ کرنا نہایت اہم ہے۔پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مشاورت اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی،عسکری،سفارتی اور میڈیا کے تمام شعبوں سے متعلق پاکستان کی سیاسی ،سفارتی اوراخلاقی مدد غیر سیاسی بنیادوں پر استوار ہے۔پاکستان کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کا تیسرا فریق تو کہتا ہے لیکن کشمیریوں کو فریق ہونے کا ابتدائی درجہ بھی نہیں دیا جا رہا۔یورپ ،امریکہ،مشرق وسطی،پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو ایک موثر پلیٹ فارم کے ذریعے متحرک کئے جانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں قائم آزادی کے سیاسی پلیٹ فارم کی عالمی سطح پہ توسیع کی جانی چاہئے۔دنیا میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے پہلے اپنا ' ہوم ورک' مکمل کرنا ضروری ہے۔پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بہتری لانے سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو موثر طور پر تقویت پہنچائی جا سکتی ہے۔عالمی برادری کی طرف سے کشمیر پر پاکستان کی بات کو پذیرائی نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں بار بار مسئلہ کشمیر پر '' کمپرومائیز'' کرتا چلا آیا ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611417 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More