دن منانے کے باوجود مزدور کی حالت کیوں نہیں بدلتی؟

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال مزدوروں کا دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتاہے لیکن جب تک عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ٗ اس وقت تک مزدور کی حالت نہیں بدل سکتی ۔ ایک دن میں بائیک کی ٹوٹی ہوئی چین ٹھیک کروانے کے لیے ایک دکان پر گیا تو وہاں میکینک موجود نہیں ٗ دس بارہ سال کا لڑکا موجود تھا جس کے کپڑے تیل کی آلودگی سے آدھے سے زیادہ سیاہ ہوچکے تھے ۔ اس نے چین کو ٹھیک کرنا شروع کیا ۔ میں نے پوچھا بیٹاتمہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے ۔ اس نے اردگرد دیکھااور کہا کسی کو نہ بتائیے گامجھے روزانہ کے صرف 30 روپے ملتے ہیں ۔ میں نے کہا اتنے کم پیسوں پر تم سارا دن کیوں اپنی جان مارتے رہتے ہو ۔تم سکول کیوں نہیں جاتے ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے کہا میں جب بچوں کو سکول کا خوبصورت یونیفارم پہن کر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں سکول جاؤں اور پڑھوں۔ لیکن صاحب جی ہمارے نصیب میں یہ سب کچھ نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا تمہارے والد کیا کرتے ہیں ۔اس نے بتایا وہ چھابڑی فروش ہیں اور ریڑھی پر پھل فروخت کرتے ہیں۔ابھی سورج نہیں نکلتا کہ وہ نیند سے بیدار ہوکر منڈی جاتے ہیں پھر رات گئے تک بازار میں پھل بیچتے ہیں۔اتنا وقت مزدوری کرنے کے باوجود اتنے پیسے نہیں بچتے کہ گھر کا خرچ پورا ہو ۔ میں نے پوچھا تم جس گھر میں رہتے ہو کیا وہ تمہارا اپناہے ۔اس نے کہا باؤ جی ۔ اتنے خوش قسمت ہم کہاں۔ ایک چھوٹا سا کمرہ جس کے اندر ہی باتھ روم ہے ٗچار ہزار روپے کرایے پر لیا ہواگیا جس میں ہم سب رہتے ہیں ۔وہ کمرہ اس قدر چھوٹا اور تاریک ہے کہ دن کے اجالے میں بھی بجلی کا بلب جلانا پڑتا ہے تب ہمیں ایک دوسرے کاچہرہ نظر آتاہے جب بجلی چلی جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہی قبرمیں ہیں۔ گرمی کے موسم میں ساری رات ہاتھ والے پنکھے سے خودکو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک اورنوجوان میرے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا ہے ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم کیا کرتے ہو۔ اس نے بتایا کہ بچپن سے ہی میرے والد نے مجھے ایک موٹر میکنک کے پاس بیٹھا دیا تھا جہاں چھوٹے کی حیثیت سے کام کرتے کرتے اب میں جوان ہوچکا ہوں اور خود گاڑی ٹھیک کرلیتا ہوں لیکن میری پہلی تنخواہ 20 روپے روزانہ تھی اور اب چھ ہزار روپے مہینہ ملتا ہے۔ والد رکشہ چلاتے ہیں گھر کا کوئی فرد بھی پڑھالکھا نہیں ہے بس روٹی کمانے کے چکرمیں ہی پورا خاندان صبح سے رات تک محنت مزدوری کرتا رہتا ہے ۔ پھر بھی ہمارے لیے وہ دن قیامت جیسا ہوتاہے جب گھر میں بجلی کا بل آتا ہے ۔ صرف پنکھے چلتے ہیں جن کا بل چار پانچ ہزار سے کم نہیں آتا ۔ گھر میں جو پیسے ہم نے اچھے برے وقت کے لیے بچا کر رکھے ہوتے ہیں وہ ہر مہینے بجلی کا بل نکال کر لے جاتاہے ۔اب آگ برساتی گرمی میں بجلی کے بغیر کیسے زندہ رہا جاسکتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ چند دن پہلے میری پھوپھو فوت ہوگئی ۔ پھوپھو کی موت کا صدمہ اپنی جگہ تھا لیکن جب قبر کھدوانے کے لیے قبرستان پہنچے تو گورکن نے یہ کہہ کر ہمارے ہوش اڑا دیئے کہ قبر کی جگہ پندرہ ہزار روپے لوں ورنہ ہمارے پاس جگہ ختم ہوچکی ہے ۔ ہم سارا خاندان مل کر بھی پندرہ ہزار کا انتظام نہ کرسکے ایک مخیر شخص نے کفن اور قبر کے پیسے اداکیے تب پھوپھوکی میت کو قبر میں جاکر دفن کیا۔ میرا چاچو بائیک کو پنکچر لگاتا ہے دوسرے چاچو کی چھوٹی سی دکان ہے سب اپنی اپنی جگہ بہت مشکل سے گزارا کررہے ہیں ۔مرنے والی پھوپھو کو گردوں کی بیماری تھی ڈاکٹر علاج کے لیے پیسے مانگ رہے تھے جو ہمارے پاس موجودنہیں تھے اس لیے علاج کے بغیرہی پھوپھونے تڑپ تڑپ کر جان دے دی ۔اس لڑکے نے بتایا کہ میرے چچا کو ریڑھ کی ہڈی میں دکان پر بیٹھ بیٹھ کر تکلیف ہوگئی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندہ لاش بنا پھرتا ہے ۔ہم سب دیکھنے کے باوجود اس کا علاج کروانے سے قاصر ہیں۔ یہ صرف دو خاندانوں کی داستان ہے ۔ یہ کہانی ان حالات و واقعات کی عکاسی کرتی ہے جس ماحول میں پاکستان کی 80 فیصد آبادی رہتی ہے ۔ اسلام آباد میں ایک جج کے گھر جس بچی آسیہ کے ہاتھ اور جسم کو جلا دیا گیا تھا وہ بھی عبرت کی ایک مثال ہے جسے والدین نے صرف 20 ہزار میں فروخت کردیا تھا اور یہ قیمت ایک زندہ انسان کی ہے جسے انصاف فراہم کرنے والے گھرانے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔مزدورں کے دن جتنے چاہے منا لیے جائیں ٗ جتنے چاہیں یوم مئی کے جلسے نکال لیے جائیں اور پراثر تقریریں بھی کرلی جائیں جب تک معاشی خوشحالی اور معاشرتی رویے تبدیل نہیں ہوتے اس وقت تک حالات تبدیل نہیں ہوسکتے ۔ پاکستان کے پرائیویٹ سکولوں میں آج کے دورمیں ( جہاں بجلی کا ماہانہ بل پانچ سے چھ ہزار آرہا ہے )ایک سکول ٹیچر کو دو سے تین ہزار روپے پر ملازم رکھا جارہاہے ۔ پٹرول پمپوں پر کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں بھی بمشکل آٹھ ہزار ہی دی جارہی ہے۔ اس کے باوجود کہ امام مسجد معاشرے کا سب سے اعلی ترین انسان ہوتاہے لیکن لاہور شہرمیں بھی ایسی مساجد موجود ہیں جہاں آٹھ سے دس ہزار روپے امام مسجداور حافظ قرآن کو دیئے جارہے ہیں دینی مدرسوں کے اساتذہ کی تنخواہ بھی بمشکل سات سے آٹھ ہزار ہی ہوتی ہے ۔حکومت نے کم سے کم تنخواہ چودہ ہزار مقرر تو کررکھی ہے لیکن لیبر انسپکٹروں کو کبھی یہ جاننے کی فرصت نہیں ملی کہ آدھے سے زیادہ پاکستان انتہائی کم تنخواہ پرکیوں کام کررہاہے کیا یہ حالات سو سال پہلے شگاگو کے مزدوروں سے مختلف ہیں ۔ پاکستانی حکمران باتیں بہت کرتے ہیں لیکن عمل یکسر مختلف ہوتا ہے اس کے باوجود کہ شہباز شریف متحرک ترین عوامی لیڈر ہیں لیکن یہ بھی پنجاب میں جبری مشقت اور حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ ہر سطح پر رائج کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں ۔یوم مئی زندہ باد پاکستان پائندہ باد

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.