کچھ نہیں ہوگا!عوام کا فیصلہ تھا

کچھ نہیں ہوگا! بھئی کچھ نہیں ہوگا شرط لگالو! اگر ان کے خلاف کوئی ایکشن ہوجائے سابقہ تمام معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی مٹی ڈال دی جائے گی۔ بھائی! ساری عمر یہی دیکھتے اور سنتے گزر گئی ہے کہ لو بھئی اس دفعہ تو کورٹ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی بہت بڑا معاملہ ہے ملکی کی معیشت کی تباہی کا ایشو ہے۔عوامی ٹیکسز کا معاملہ ہے ملکی کی عزت نیلام ہونے کا ڈر ہے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن ہر دفعہ پہلے کی طرح ہی ہوتا ہے اور موجودہ معاملے کو دبانے کیلئے ایک نیا ’’کٹّا‘‘ کھول دیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو قتل کروانے سے لیکر ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے تک آج بھی دندناتے پھررہے ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا سوال کرنے والانہیں۔اسی طرح یہ لوگ بھی صاف بچ نکلیں گے کمیٹیاں بنیں گیں جوائنٹ ٹیمز بنیں گیں اور فیصلہ کوئی نہ ہوگا اور اگر ہوا تو عوامی امنگوں کا خون ہوگا میرٹ کی دھجیاں بھی منہ چھپاتی پھریں گی۔زرداری ،مزاری، خان، الطاف، رانے، میاں ، چوہدری، شاہ جی، سائیں سب کے سب قومی مجرم ہیں لیکن چونکہ ان کا اندرونی طور پر گٹھ جوڑ ہیں اس لئے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اب تو صرف سپریم کورٹ پر آس ٹکی ہے ۔ یہ الفاظ اور جذبات تھے ان لوگوں کے جو اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبریں پڑھ اور دیکھ کر فی البدیہہ اظہار کررہے تھے-

بات تو ان کی بجا اور مبنی بر حقائق ہی ہے کہ اگر کوئی مسجد سے جوتا چرالے، تنور سے روٹی اٹھالے ریڑھی سے پھل چرالے یہاں تک کہ کسی دکان سے دکاندار کی مرضی کے بغیر پانی کا گلاس بھی پی لے تووہ مجرم بن جاتا ہے اور اسے مارنا لعن طعن کرناہر ایک پرلازم ہوجاتا ہے اور رہی سہی کسر ہماری ’’شیر جواں‘‘پولیس کردیتی ہے فورا موقع پر پہنچتی ہے اور اسے پکڑ کر حوالہ حوالات کردیتی ہے اوربعض اوقات تو خانہ پری اور ویل ڈن کے حصول کی خاطر اس بے گناہ کو کسی ڈکیت یا بڑے مجرم کی تبادلے میں بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے ملک و قوم کو معاشی طور پر کنگال کردیا امن کے حوالے سے بے حال کردیا توانائی کے بحران سے ’’مالامال ‘‘کردیا صحت کے محکمے کو وبال کردیا تعلیم کا براحال کردیا اور اپنے آپ کو خوش حال کردیا ان کو آج تک کسی نے گرفتار کرنا نے درکنار چھوا تک نہیں۔
میں زیادہ پیچھے نہیں جاتا ماضی قریب میں بھی چند ایسے گھناؤنے معاملات اور مکروہ دھندوں میں ہماری نام نہاد اشرافیہ کھلے عام ملوث پائی جاتی ہے لیکن حسب معمول کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، آرمی پبلک سکول میں خون کی ہولی،فیکٹری میں آگ لگانے کا جرم،مساجد عبادتگاہوں اور امام بارگاہوں میں دہشت گردی،ملک دشمن سرگرمیوں میں شمولیت ، محب وطن شہریوں اور فوجیوں کی شہادت ،ضرب عضب کی مخالفت ہو کہ را سے دہشت گردی کی تربیت اور دوستی کی پینگیں،ایگزیکٹ کا سکینڈل ہو کہ ایان علی کی منی لانڈرنگ،یوسف رضا گیلانی کا ہار چوری کرنے کا شرم ناک فعل ہو کہ زرداری کی بڑھک، خواجگان کی ڈرامہ بازیاں ہوں کہ بلوچ لبریشن آرمی کا اعلان بغاوت کسی بھی ملوث فرد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی سوائے’’ بیچارے یوسف رضا گیلانی‘‘ کے ۔

ہمارے معاشرے میں اب یہ perception پروان چڑھتی جارہی ہے اور اس سے ہر سطح پربہت نقصان بھی ہورہا ہے کہ اس ملک میں طاقتور کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتااور اگرہوجائے تو کچھ عرصہ میں ہی اسے مکھن سے بال کی طرح نکال لیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں ہر شخص کیلئے قانون الگ الگ ہے ۔اشرافیہ امرا ،وزرا اورر طاقتور کی کیٹاگری الگ ہے یہ ہر جرم و فعل سے مستثنی لوگ ہیں۔ غریب غربا کی کیٹاگری الگ ہے لہذا یہ غلط تصور ختم ہوناچاہئے اور یہ غلط تصور اور چھاپ کو ختم کرنے کیلئے حکومت کے پاس بطور ٹرائل سانحہ ماڈل ٹاؤن ،ایان علی کیس، ایگزیکٹ سکینڈل، ایم کیو ایم کی را سے ملک دشمن کارروائیوں میں معاونت اور تربیت جیسے کیس اگر ’’بندے دے پتر‘‘ کی طرح حل کر لئے جائیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ60 فیصد معاملات خودبخود درست ہوجائیں گے۔تازہ ترین مثال پانامہ کیس کا فیصلہ ہے ۔یہ ایک مستحسن مثال ہے اور پاکستان کی تاریخ میں واقعی سنہری حروف سے لکھی جائیگی ۔ دونوں پارٹیاں خوش ہیں مدعی بھی خوش اور مدعا علیہ بھی شاد،گناہ گار کے گھر بھی شادیانے اور مظلوم کے ہاں بھی بھنگڑے۔ ملکی دولت کو ہڑپنے والے بھی بری الذمہ اور واپس دلانے کے خواہاں بھی بری الذمہ،نقصان ہوا تو کس کا؟ صرف اور صرف بے چاری بے وقوف عوام کا ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ دونوں کی امنگوں کا ترجمان لگتا ہے لیکن عوامی امنگوں اور امیدوں کا قاتل ۔ اس فیصلے نے تو کہاوت بھی غلط کردی کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ، مگر یہاں تو زبان خلق کوپرکاہ کی بھی حیثیت نہ دی گئی صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق آیا ہے حالانکہ اس کا فیصلہ عوام پہلے ہی دے چکی تھی کہ کوئی کمیٹی کوئی جے آئی ٹی بنے گی اور ہوا بھی وہی تو پھر اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت تھی یعنی کہ سپریم پاور کے پاس بھی قوت فیصلہ نہیں ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ شیشے کے ایک بکس میں ایک جوتا رکھ دیا جائے اور وہ جوتا سب کو نظر بھی آرہا ہوپھربھی یہ توقع کی جائے کہ بکس کھلنے پر نجانے کیا نکلے گا۔تمام باتوں سے قطع نظراس عوام کے ساتھ ہونا ایسا ہی چاہئے جو اپنے حقوق کی بات نہیں کرسکتی اپنے اچھے برے میں فرق نہیں کرسکتی ۔حکمرانوں کو ایسی ہی عوام پسند ہے اور عوام کوا یسے ہی حکمران ۔ تو پھر رونا کس بات کا ،ماتم کس چیز کا، افسوس کس امر پر ۔ویسے بھی یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اس تھیلی کو پھاڑنا ہوگا اور ان چٹے بٹوں کو بے وزن کرکے ان کی اوقات یاد کرانا ہوگی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کریگا کون ؟

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192459 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More