شکوہ و التجاء

انسان جب ہر طرح سے مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے تو اپنے رب کی نعمتوں اور رحمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے نا اعوذبااللہ اپنے حالات کا شکوہ کرنے لگتا ہے علامہ محمد اقبال نے شکوہ جوابِ شکوہ میں اپنے رب سے شکوہ کیا اور پھر اس کا جواب لکھ کر قوم کو احساس دلایا کہ اگر کوئی بھی انسان شکوے کی حد سے گزر بھی جائے تو بھی اگر اس پر کسی مصیبت کا وبال ہے تو اس کی وجہ اس کے اپنے اعمال ہیں رب کبھی بھی اپنے بندوں کا برا نہیں چاہتا بے شک وہ ستر ماوں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے میں کہنا چاہوں گا
گرو ٹھوکریں کھا کر تو کہو کے رضا ہے میری
کبھی یہ بھی سوچا ہے اس میں کیا خطا ہے تیری
ساگرحیدرعباسی

نہیں میں اقبال جو شکوہ سرِ بازار لاتا ۔ مگر حالات سے مجبور ہوں اب رہا نہیں جاتا

جب تک سوال پیدا نہ ہو اس کا جواب بھی نہیں بنتا جواب کے لیے سوال کا ہونا ضروری ہوتا ہے سوال یہ ہے کیا ہم مسلمان ہیں کیا ہمارا دین ہمارا ایمان مضبوط ہے کیا ہم اپنے رب کے شکر گزار ہیں اگر ہیں تو کس حال میں نہیں ہیں تو کس حال میں جب کے ہر حال میں رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

لوگوں کے مابین قسمت کے گلے شکوے اور مایوسیوں کو جنم لیتا ہوا دیکھا تو پہلے ان کے سوالوں کو اپنی تحریر شکوہ و التجاء میں شامل کیا اور پھر اس کا جوابِ شکوہ و التجاء بھی لکھا

شکوہ و التجاء
یہ تیرے میرے بھیچ کا معاملہ ہے اے خدا
میں کہتا ہوں تو سن میں سنتا ہوں تو بتا
کہیں بھی میری بات پر بجا نہیں شکوہ
اسی لیے میں نے ساتھ کی ہے التجاء
نااعوذباللہ مجھے نہیں کوئی شکوہِ تکلیف
اگر چہ امتِ محمد کے غم میں ہوں مبتلا
ہم پر یہ تہمت ہے ہم مسلمان نہیں رہے
دل گمراہ ہیں اس قدر کے ایمان نہیں رہے
سینے میں دلوں کے قرآن نہیں رہے
ہوں غمزدہ ہمارے پُرسانِ حال نہیں رہے
غربت کو پھرتے دیکھتا ہے میرے دیس میں ننگے پاوں
جلتی دھوپ اور تپتے صحرا ہیں مگر صائبان نہیں رہے
اُٹھتی ہیں بہت سی بے بس ہتھیلیاں تیری جانب مگر
بدل جاہیں گی تقدیریں لوگوں میں یہ امکان نہیں رہے
اُجڑے ہوئے چمن میں انتظارِ بہار کب تک
کیا بے فیض نہ ہوں گی بارشیں اگر گلستان نہ رہے
ہوں آزمائشیں لاکھ مگر میسر کوئی راہ بھی تو ہو
ممکن ہے بھٹکتے بھٹکتے انسان انسان نہ رہے
ہوں امتحان لاکھ مگر حوصلے بھی تو عطا کر
میں اب یہ بھی نہیں کہتا کے کوئی امتحان نہ رہے
تیرا ہی سہارا ہے کیوں تو مہربان نہیں ہوتا ؟
تیری رحمتوں کا جب کہ کوئی شمار نہیں ہوتا
ہے رازق تو پھر بھی ہیں رزق کی بھیک میں دربدر
تو کیوں ایسے لوگوں کا دلدار نہیں ہو تا
ایسا بھی نہیں کہ تجھ سے فریاد نہیں ہم کرتے
غموں کا پہاڑ پھر بھی سر سے کیوں پار نہیں ہوتا
دل میں دھڑکن گر باقی ہے تو تیرا نام بھی تو ہے
مومن ہے تیرا بندہ گر تو گنہگار بھی تو ہے
تیرے ہاتھوں میں ہیں ہدایات و کرامات کے کرشمے
انسان ہمیشہ سے تیری ہدایت کا طلبگار ہی تو ہے
تو اگر چاہے تو زمانے میں بے ایمانی نہ رہے
مل جائے گر تیری ہدایت تو کوئی لفظ بے معنی نہ رہے
تو کر دے گر دلوں کو اپنی ہدایت سے منور
تو کوئی بھی دل ایمان سے خالی نہ رہے
تو مہربان گر ہو جائے تو راستے بدل سکتے ہیں
تو خفا ہی رہے اگر تو ہم کیا کر سکتے ہیں
نہیں میں اقبال جو شکوہ سرِ بازار لاتا
مگر حالات سے مجبور ہوں اب رہا نہیں جاتا
میرا بھی غم اقبال کے غم سے جُدا تو نہیں ہے
اس کا بھی رب تو ہی تھا میرا بھی رب تو ہی ہے
دلِ نادم سے نکلتی ہوئی ندا کو سن لو
اُمتِ محمد کے غموں کی داستاں کو سن لے
لب خاموش ہیں تو گھٹتی ہوئی آہ کو سن لے
درد کے ماروں کہ ضبط کی صدا کو سن لے
تیرے کرم کے سوا یارب ہم کچھ بھی نہیں
گرے ہیں تیرے در پر آ کر یا خُدا سن لے
ایک ایک کر کہ گر تیرے وفادار نہ رہے
جنت کا وعدہ کس لیے جب دلدار نہ رہے
غم انگیز ہے افسانہ غمخوار نہ رہے
جہاں میں کہیں ہمارے غمگُسار نہ رہے
اب بھی تیرے نام پہ قربان ہونے کو تیار ہیں بہت
مٹ جاہیں ایک پل میں ایسے وفادار ہیں بہت
مساجد بنانے کی توفیق تو دے دی تو نے ہمیں
ہداہیتیں بھی فرما دے کہ نمازی بھی مل جاہیں
اے رب برسا اپنی رحمتیں اُجڑے گلستانوں پر
اور کتنے عذاب اُتارے گا بیچارے مسلمانوں پر
یا رب گنہگاروں کو صیح راستہ دکھلا دے
تجھ سے ہی ہے امیدِ کرم تھوڑا کرم فرمادے
منافق ہیں گر تو مٹا دے ان کی ہستی کو
ہیں گر قابلِ معافی تو نہ دے اتنی سزا ان کو
تیری نظرِ کرم گر اب بھی نہ ہم پر آئی
بڑھتی ہی چلی جائے گی پھر جہاں میں رسوائی
مسلمانوں پر امتحان کے بوجھ کو کم کر دے
غمزدوں کی جھولیاں خوشیوں سے بھر دے

پھر نہ یہ تہمت لگے ہم پر ہم مسلمان نہیٰں رہے
نہ دل ہونے دے گمراہ کے ایمان نہیں رہے
دلوں میں نُور بھر دے کوئی پشیمان نہیں رہے
رحمتیں اب تو برسا دے کہ ہم قابلِ امتحان نہیں رہے
شاعر ساگر حیدر عباسی

زمانے کے سبھی سوالوں کو شکوہ و التجاء میں لپیٹ کر میں نے اس کا جواب بھی تحریر کیا تقدیر کو خراب کہنے والے قسمت کو بُرا کہنے والے اور شکوے شکایتیں کرنے والوں کی اس معاشرے میں کمی نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایمان کا اثر بھی اس معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے میری تحریر شکوہ و التجاء جوابِ شکوہ و التجاء ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جن میں ایمان کی طاقت کمزور ہو چکی ہے دنیا کی فانی زندگی سے دل لگا بیٹھے ہیں اور آخرت کی فکر سے آزاد ہو گئے ہیں آئندہ ہفتے میں اس تحریر کا جواب بھی لکھ کر پوسٹ کروں گا
جاتے جاتے میں آج کے مسلمانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کے !!

قُربتِ خدا بھی ضروری ہے دُعا کے لیے
یونہی ہتھیلیاں نہ اُٹھاؤ آسمان کی طرف خدا کے لیے
توحید کے بعد لازم ہیں کچھ اور بھی فرائض
صرف کلمہ کافی نہیں ہے صائبِ ایمان کے لیے
اللہ حافظ ( شاعر ساگرحیدرعباسی)

sagar haider abbasi
About the Author: sagar haider abbasi Read More Articles by sagar haider abbasi: 7 Articles with 10465 views Sagar haider Abbasi
From Karachi Pakistan
.. View More