عادات کے غلام

ایک کسان روز اپنے گدھے پر دور سے زرخیز مٹی اپنے کھیتوں کیلئے لے کر آتا تھا. دوپہر میں درمیان راستے میں ایک درخت کے پاس گدھے کو باندھ کر سو جاتا اور کچھ دیر آرام کرلیتا تھا.

ایک دن کسان اپنے ساتھ رسی لے جانا بھول گیا. دوپہر کو آرام کے وقت یہ پریشانی بن گئی کے آرام کرے گا تو گدھا کہیں بھاگ جائے گا, اور آرام نہ کیا تو تھکن سے برا حال ہوجانا. اسی پریشانی میں تھا کہ ایک دانشمند وہاں سے گزرا. کسان کو پریشان دیکھا تو پوچھا کیا مسئلہ ہے.؟

کسان نے اپنا مسئلہ بتایا, دانشمند نے اسے کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں. تم گدھے کو باندھنے کی جھوٹ موٹ اداکاری کرلو. یہ کہیں نہیں جائے گا. کسان نے ایسا ہی کیا. اور اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سو کر اٹھا تو گدھا وہیں کھڑا تھا.

اب کسان اسے لے کر جانے لگا, لیکن گدھا ہل کر نہ دیا, بہت کوشش کی مارا, لیکن گدھا کھڑا رہا. اتفاق سے وہی دانشمند دوبارہ گزرا, پوچھا کیا مسئلہ ہے. کسان نے کہا اب یہ جانے کو تیار نہیں. دانشمند مسکرایا اور کہا, اب اسے کھولنے کی اداکاری تو کرلو پہلے. کسان نے ایسا ہی کیا, اور گدھا چل پڑھا.

یہ گدھا اپنی عادت کا غلام تھا. ایسے ہی ہم اپنی زندگی کو کچھ عادات کے کھونٹوں سے باندھ دیتے ہیں. یہ نادیدہ رسیاں وقت کے ساتھ اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں. کہ ہم تبدیلی سے خوف کھاتے ہیں. زندگی کے جمود کو توڑنے کیلئے بہت سی نادیدہ رسیاں توڑنی ہوتی ہیں. ورنہ وقت گزرنے کے بعد جب ہم جان پاتے ہیں, کہ یہ نادیدہ حصار صرف ہمھاری تبدیلی سے بچنے کے خوف نے بنایا تھا, تو بہت پچھتاوا ہوتا ہے-

YOU MAY ALSO LIKE: