کانچ اورآنچ

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ اورپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے درمیان حالیہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، پی ٹی آئی کے امیر''ترین'' پارلیمنٹرین جہانگیر ترین بھی شریک گفتگوتھے۔ان کے درمیان قومی ایشوز پربات ہوئی مگر کچھ لوگ ان باتوں میں سے اپنا اپنا مطلب نکال اوراسے سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔عالمی اسٹیبلشمنٹ اس بار بھی پاکستان میں اپنے مفادات کیلئے ان وفادار عناصر کوجتوانے کے درپے ہے جواس کے'' سہولت کار ''ہیں۔میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری کے درمیان ''یاری''کے نتیجہ میں وزیراعظم آرام سے اپنی باری پوری کریں گے جبکہ وفاق میں اگلی باری آصف علی زرداری کی ہوگی ،اس سمجھوتہ میں امریکہ ضامن ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ''ایک چال انسان چلتا ہے اورایک چال میں چلتا ہوں''،جس وقت اﷲ تعالیٰ کوئی چال چلتا ہے تووہاں انسان کی ایک نہیں چلتی۔دنیا کے کروڑوں شیطان متحدہوکربھی ایک ''رحمن''کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔کہاجارہا ہے عمران خان ''سہولت کار''نہیں بنے اسلئے انہیں ابھی باری نہیں ملے گی ۔دیکھتے ہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس بار عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مذموم عزائم کوکس طرح ناکام بناتی ہے ورنہ پھروہ لوگ اقتدارمیں آجائیں گے جوپاکستان کی داخلی خودمختاری ،اس کے اقتداراعلیٰ اورقومی مفادات کیلئے خطرہ ہیں۔میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری نے ماضی میں پرویز مشرف سے نجات کیلئے اتحادبنایا تھاآج وہ احتساب اور عمران خان سے ''بچاؤ''کیلئے متحد ہیں۔حکمران پارٹیوں کے قائدین کی دوستی اوردشمنی کاپاکستان اورپاکستانیوں کے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ۔پاکستان کادشمن بھارت ان کادشمن نہیں لیکن پاکستان کے ''دوست'' ان کے نزدیک دشمن ہیں۔اگر منتخب حکمران بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے منت سماجت کرسکتے ہیں تواپنے ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ڈائیلاگ کیوں نہیں کرتے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ بیک وقت کئی محاذوں پرسربکف ہیں۔منتخب قیادت کی بھارتی بربریت پرمسلسل زبان بندی کے باوجودجنرل قمرجاوید باجوہ دشمن ملک کو ہرسطح پربھرپورجواب دے رہے ہیں۔جس طرح وزیراعظم اوروفاقی وزراء عمران خان کوہدف تنقیدبناتے ہیں اُس طرح بھارت کی بربریت پردوٹوک انداز سے بات کیوں نہیں کرتے۔وزیرخارجہ سے محروم پاکستان کیا سفارت کاری کرے گا،میاں نوازشریف کوچاربرسوں میں اپناکوئی منتخب پارلیمنٹرین وزیرخارجہ کے منصب کیلئے موزوں نہیں لگا۔پاک فوج کی زیرک اورنیک نیت قیادت کی دوررس سفارت کاری کے نتیجہ میں آج پاکستان، چین ،روس اورترکی ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر ساتھ ساتھ کھڑے ہیں ۔پاک فوج کی دعوت پرمختلف ملکوں کی فوجی ٹیموں کی پاکستان آمد سے بھارت کاپاکستان کوتنہا کرنے کاپروپیگنڈا دم توڑگیاہے۔پاکستان کوتنہا کرتے کرتے بھارت خودبری طرح پسپاء اوررسواہوجاتاہے۔

عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اورافغانستان سے ملحقہ صوبہ خیبرپختونخوامیں ان کی جماعت برسر اقتدار ہے۔افغانستان کے ساتھ ملحقہ ہونے کے سبب صوبہ خیبرپختونخوا کوامن وامان برقراررکھنے کیلئے کافی چیلنجز درپیش ہیں اوراس مقصد کیلئے جنرل قمرجاوید باجوہ اور عمران خان کے درمیان حالیہ ملاقات اہم پیشرفت ہے۔اب بھی وقت ہے کپتان عمران خان سیاست کوکرکٹ سمجھنا چھوڑدیں۔عمران خان کاضرورت سے زیادہ بولنا انہیں نقصان پہنچارہا ہے،ملک میں تبدیلی کیلئے انہیں خودکوبدلناہوگا۔عوام نے متبادل سیاسی قیادت کے طورپرعمران خان سے امیدیں وابستہ کی ہیں لہٰذاء وہ سیاست کوسیاسی اندازسے کریں۔عمران خان کواپنے مدمقابل سیاستدانوں کوہرانے کیلئے ان کی طرح داؤ پیچ آزماناہوں گے ورنہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کاسیاسی مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا۔سوفیصد تونہیں کیا جاسکتا تاہم خیبرپختونخواکی پولیس اورشعبہ صحت سمیت دوسرے صوبائی اداروں میں کافی حدتک مثبت تبدیلی آئی ہے۔آئی جی خیبرپختونخواکی حیثیت سے ناصرخان درانی کاسنہری دورہمیشہ یادرہے گا،اگرانسان کی نیت میں صداقت اورکچھ کرنے کی تڑپ ہوتوقدرت کی غیبی مددسے کایا پلٹ جاتی ہے اورانسان کیلئے راستے ہموارہوتے چلے جاتے ہیں۔ناصرخان درانی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد تھے اسلئے خیبرپختونخوامیں پولیس کلچر کی تبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیر ہوا۔پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل کرنے کی آڑ میں وردی بدل دی گئی بلکہ کالی مگر گریس فل وردی پرشب خون ماردیا گیا۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرانے جاتے جاتے پنجاب میں پولیس کلچر کاکچرابنادیا،وہ چاہتے ہیں ان کے ماتحت انہیں کسی نہ کسی بہانے یادرکھیں۔سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کولوگ ان کی نیک نامی اور دوررس اصلاحات کے سبب یادکرتے ہیں جبکہ مشتاق سکھیرا کو ان کی بدترین ناکامی کی بنیادپریادکیاجائے گا۔ مشتاق سکھیرا اپنے پیشروآئی جی حاجی حبیب الرحمن کے ماتحت کام کرنے کے باوجودان سے کچھ سیکھنے میں ناکام رہے۔حکمرانوں کی طرح مشتاق سکھیرانے بھی اپنی مدت پوری کرنے کیلئے ہر جائز ناجائز ہتھکنڈا آزمایا۔ نیا یونیفارم پہن کرپولیس اہلکار جس کرب کااظہار کرتے اوراپنے آئی جی مشتاق سکھیراکوجوجس طرح یادکرتے ہیں میں وہ ''کلمات''سپردقرطاس نہیں کرسکتا۔اب بھی وقت ہے پرانی وردی کوبرقراررکھنا اوراسے ٹرسٹ وردی بناناہوگا ورنہ پولیس اہلکاروں کامورال مزید گرجائے گا۔پنجاب پولیس کانیایونیفارم عوام کوپسندآیا اورنہ پولیس آفیسرزاوراہلکاروں نے اپنے یونیفارم پر اطمینان کااظہارکیا ہے۔

ملک میں آئندہ انتخابات کااعلان نہیں ہوا مگر سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے اندازمیں وفاق اورصوبوں میں حکومت بنانے کیلئے سیاسی جوڑتوڑشروع کردیا ہے ۔حکمران جماعت کے ''اشتہارات''انتخابی مہم کاحصہ ہیں اوران پرحکمران بھائیوں کی تصاویرکاچھپناناگزیر ہے۔پاکستان کے انتخابی نظام کی ناکامی دیکھئے بعض اشتہاری مفرور بھی جیت جاتے ہیں۔پاکستان میں چوری کاسامان خریدنے اورمعمولی فراڈکرنیوالے کوپولیس فوراً گرفتارکرتی ہے مگرقومی چوروں اوراسمبلیوں میں آنے کیلئے جعلی ڈگریاں استعمال کرنیوالے جعلسازوں کو پارٹی ٹکٹ ''فروخت''کرنیوالے رہبر نمارہزنوں پرکوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ہمارے سیاسی پنڈت حکمران جماعت اور پیپلزپارٹی کے درمیان حالیہ جملے بازی اورسیاسی حملے بازی کوفرینڈلی فائرنگ سے تعبیر کررہے ہیں۔چارسال تک ایک دوسرے کی کمر کھجانے اورایک دوسرے کواحتساب سے بچانے کے بعدان کی محاذآرائی ناقابل فہم ہے۔پاناما لیک نے حکمران جماعت کی'' گرمی ''کوپیپلزپارٹی کیلئے'' نرمی'' میں تبدیل کردیا۔واقعی ایک چوردوسرے چورکااحتساب نہیں کرسکتا ۔ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پررہائی ،شرجیل میمن کاوطن واپس آنے کے بعدآزادی سے شہرقائدؒ میں دندنانا اوراداروں کوللکارنا جبکہ ایان علی کی بیرون ملک پرواز ہمارے ریاستی نظام کوناکام ڈکلیئر کرنے کیلئے کافی ہے ۔

کانچ کے گھر پرکوئی آنچ آئے ، کوئی مقیم کسی ''ڈیزاسٹر ''کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ حکمرانوں پرتعجب ہے جوکانچ کے گھرمیں بیٹھ کردوسروں پرخشت باری کرتے اوراُنہیں جواباً پتھراؤ کیلئے اُکساتے ہیں۔جوبدعنوان ہیں وہ بدزبان نہ ہوں یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ہماری سیاسی اشرافیہ کوبدعنوانی کے ساتھ ساتھ بدزبانی کاہنر بھی خوب آتا ہے۔ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ حسد اور آمریت کی راہ ہموارکرتے ہیں اورپھرفوجی آمروں کو مختلف سماجی برا ئیوں اورقومی بحرانوں کامحرک بناکرپیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں فوجی آمروں کی نسبت منتخب حکمرانوں نے ملک وقوم کو بدانتظامی،بدعنوانی اوربدزبانی کے سواکچھ نہیں دیا۔سیاستدان ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ کابھانڈا پھوڑتے ہیں اورجس وقت احتساب ہونے لگتا ہے تویہ لوگ ایک دوسرے کوبچانے کیلئے بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے فوجی حکمرانوں نے بھی احتساب کے نام پر سیاسی پارٹیوں کے اندر نقب لگائی اورقومی چوروں کی طرف سے سیاسی حمایت ملنے پرانہیں کلین چٹ دے دی۔آج جولوگ میاں نوازشریف کاہراول دستہ ہیں وہ کل تک پرویز مشرف پرجان چھڑکتے تھے۔دانیال''عزیز ''پرویز مشرف سے زیادہ اب میاں نوازشریف کو''عزیز ''ہیں۔امیرمقام کاقومی سیاست میں'' مقام ''ان کی سیاسی بصیرت یااستقامت نہیں بلکہ یقینا ان کی'' امارت''کا انعام ہے ۔پرویز مشرف نے اپنے دورآمریت میں امیرمقام کوجو''مقام'' دیا وہ توسمجھ آتا ہے مگرمیاں نوازشریف کے نام نہاد جمہوری دورمیں امیر مقام کوضرورت سے زیادہ ''مقام'' ملنا ناقابل فہم ہے۔زاہدحامد کوپرویز مشرف کے دورمیں وفاقی وزارت ملی توآج وہ میاں نوازشریف کی کابینہ میں بھی بیٹھتے ہیں۔پھربھی بدترین جمہوریت کوآمریت سے بہترقراردیاجاتا ہے۔پاکستان میں ''اصولی''نہیں ''وصولی''کی سیاست کادوردورہ ہے۔ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں کو سیاسی خدمات نہیں بلکہ قیادت کی ''خدمت''پرخصوصی''مقام''نصیب ہوا ۔ ہمارے کئی سیاستدانوں کی کامیابی کے پیچھے ان کی'' خواتین '' کی'' خدمات'' ہیں۔

اپنے اپنے پارٹی سربراہان کاطواف اورانہیں راضی کرنے کیلئے دوسری پارٹیوں کی قیادت پرکیچڑاچھالنااچھی رسم نہیں۔شخصیت پرستی درحقیقت بت پرستی سے زیادہ بدتر ہے۔موروثی سیاست اورشخصیت پرست کلچر نے قومی سیاست کوکچرے کاڈھیربنادیا ہے ،عہدحاضر کاہرسیاستدان دوسروں کوپھٹیچر کہتا ہے توپھران میں سے کون ہے جوپھٹیچر نہیں۔ جہاں سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کے مزاج میں جمہوریت نہ ہووہاں جمہوریت کامستقبل روشن نہیں ہوسکتا ۔''ایک توچوری اوپر سے سینہ زوری'' کامحاورہ توسب نے سنا ہوگا،آج ایک نیا محاورہ ''ایک توبدعنوانی اوپرسے بدزبانی '' آپ کی خدمت میں پیش ہے ،بدعنوان شخص بدزبان نہ ہویہ کس طرح ہوسکتا ہے۔وفاقی وصوبائی وزراء حکومت کیخلاف سازشوں کاشورمچارہے ہیں مگران کی زبان پرکسی سازشی کانام تک نہیں آتا۔ دوچاروفاقی وزراء توخوداپنے سیاسی آقاؤں کی سیاست کیلئے قبرکھودرہے ہیں۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارسمجھدار نہیں ہوتے ۔کسی دانا نے کہا تھا ،''جوسب کودوست ہوتا ہے وہ کسی کادوست نہیں ہوتا''۔

پاکستان کے اندراورباہرکیا ہورہا ہے حکمرانوں کواس سے کوئی سروکار نہیں۔بھارت میں مودی سرکارنے کبھی پاکستان پروارکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔نریندرمودی نے اپنے پارٹ ٹوڈونلڈ ٹرمپ کی مددسے نوازحکومت کو تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں پروفیسرحافظ محمدسعید کو نظربندی پر مجبور کردیا۔ پروفیسر حافظ محمدسعیدمسلسل کئی روزسے قیدمیں ہیں جبکہ کئی سوارب کی کرپشن میں نام آنے کے باوجود ڈاکٹرعاصم کوآزاد کردیاگیا۔جموں وکشمیر کی آزادی کیلئے سرگرم قیادت پروفیسرحافظ محمدسعیدکی نظربندی سے مایوس اورپریشان ہے۔ حکومت نے اپنے اس ماورائے آئین اقدام کواقوام متحدہ سے جوڑدیا۔اگربھارت اقوام متحدہ کی ایک نہیں سنتا اوراس کی قراردادوں کااحترام نہیں کرتا توپاکستان نے کیوں اقوام متحدہ کی ڈکٹیشن پرپروفیسرحافظ محمدسعیدکوناحق قید کیا۔ پاناما لیک سے ملک غیرمحفوظ ہوگیا مگراس کے معاملے پرفیصلے کومحفوظ کرلیا گیا ہے۔اس ملک میں خاص وعام محفوظ نہیں مگر پاناما لیک کافیصلہ ضرورمحفوظ ہے۔اب نیوزلیک کی طرف آتے ہیں،سنا ہے ایک عرب ملک کے بادشاہ کی مداخلت سے نیوز لیک کامعاملہ دبادیا گیا ہے جبکہ دوسرے عرب ملک قطر کاشہزادہ اپنے دومکتوب بھجوانے کے باوجود پاناما لیک کے معاملے کوسلجھانے یادبانے میں ناکام رہا ہے۔حکمران خود یاان کے ''ارب ''خطرے میں ہوں تو''عرب''انہیں بچانے آجاتے ہیں ۔ حکمران جلاوطن ہوں یاوطن میں ہوں ،ان کے'' سرور''اور'' قصرسرور '' کوکسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتاجبکہ عام پاکستانیوں سے سکون ا ورسرورچھین لیا گیا ہے۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 125914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.