ماہ نامہ صبح بہاراں

ماہ نامہ صبح بہاراں ،دولتالہ ،راول پنڈی،جلد ۳،شمارہ۱۱،فروری ۲۰۱۷،صفحات:۷۰۔قیمت:۱۵۰روپے
تبصرہ نگار:ڈاکٹر غلام شبیررانا

 راول پنڈی کے نواح میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں دولتالہ کو ایک بہت بڑے ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے ۔ پو ٹھو ہار کے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں واقع دولتالہ کے پُرفضا دیہات میں ذوق سلیم سے متمتع متعدد ادیبوں کا قیام ہے اور یہیں سے رجحان ساز ادبی مجلہ ’’صبحِ بہاراں ‘‘گزشتہ چار برس سے شائع ہو رہا ہے ۔خزاں کے سیکڑوں مناظر اور سمے کے سم کے باوجود طلوع صبح بہاراں کی نوید لیے یہ مجلہ ہر ماہ پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے ۔اس مجلے کے قارئین کاحلقہ بہت وسیع ہے ۔پوری دنیا میں اس مجلے کی پذیرائی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔ اس مجلے کو اس علاقے کی ممتاز علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر خالد محمود کی سر پرستی حاصل ہے۔ صبح بہاراں کی مجلس ادارت صاحب زادہ غلام رضا شاکر ،صابر علی صابر ،اختر دولتالوی،کامران الیاس راجہ،نعیم ساگر،مصور حسین قریشی،شکور احسن،غزالہ جلیل راؤ اور قاسم علی قاسم پر مشتمل ہے ۔مجلسِ مشاورت میں شاہد لطیف ہاشمی ایڈووکیٹ ،یاسر اقبال مغل،رانا ابرار صدف،ڈاکٹر چمن سلطان،سید تنویر الحسن اور وقاص احمد شامل ہیں۔
 
صبح بہاراں کے اس شمارے میں حمد ،نعت اور دعا کے بعد پانچ مضامین،بائیس شعرا کی غزلیں ،پانچ افسانے،دو کتابوں پر تبصرے،قارئین کے پانچ خطوط اور ایک ادبی رپورٹ کو شامل کیا گیا ہے۔مجلے کے قلمی معاونین میں نئے اور کہنہ مشق سبھی لکھنے والے شامل ہیں ۔ان پر کشش ،مؤثر اور دل کش تخلیقی تحریروں کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ ان کے سحر میں کھو کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔مشتاق قاری کا جی چاہتا ہے کہ بار بار ان تخلیقات کا مطالعہ کرے اس کے باوجود اس کی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ یہاں ’’ آخری سفیر ‘‘ اور ’’بُھوک اورروٹی ‘‘ جیسی تحریروں کی مثال دی جا سکتی ہے جن کی اثر آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔مطالعہ کے دوران میں عالم شوق کی فراوانی قاری کو ہر بار ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہے ۔اس مقام پر نیا طور اور نئی برق ِ تجلی اسے حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔گلشنِ ادب میں ہر بار تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ ،بُور لدے چھتنار اور اثمار و اشجار کے مانند پُر کیف اشعار کی بہار دیکھ کر وہ جھوم اُٹھتا ہے اور اس کے دِل سے یہ صدا نکلتی ہے کہ یہ مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو ۔

صبح بہاراں کے اس شمارے میں شامل افسانوں میں معاشرتی زندگی کے حالات و واقعات اور نشیب و فراز کی باز گشت نہاں خانۂ دِل پر دستک دیتی ہے ۔اقبال ساجد، حمیرا نور،عابدہ سبین،غزالہ جلیل راؤ اور غلام ابن سلطان(ڈاکٹر غلام شبیررانا کا قلمی نام)نے اپنے مشاہدات،احساسات،تجربات،احساسات اور جذبات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔حصہ شاعری میں الفاظ و آ ہنگ کی معنی خیزی کو ممکنہ حد تک رفعت سے آ شنا کرنے میں تخلیق کاروں نے جس محنت ،لگن اور خلوص کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ان اشعار میں تخلیق کار کی ذاتی یاد ، آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے الم نصیب انسانوں کی فریاد اور اہلِ جور کی بے دادکی جس حقیقت پسندانہ انداز میں لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے وہ قاری کے قلب اور روح کو مسخر کر لیتی ہے ۔تخلیقِ ادب کے یہ ارفع معائر محض لمحاتی کیفیات کے عکاس نہیں بل کہ ان کی باز گشت صدیوں پر محیط ہو گی اور علم و ادب کی یہ داستان نسل در نسل دہرائی جاتی رہے گی۔صبح بہاراں نے کٹھن حالات میں بھی عطر بیزی کے جس لائق صد رشک و تحسین سلسلے کو فروغ دیا ہے وہ فیض کااہم ترین وسیلہ ہے ۔میری دعا ہے کہ افق ادب پر اس مجلے کی تابانیوں کا یہ سلسلہ سدا جاری رہے ۔

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 607136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.