کفیل احمدعلوی:عالم،مصنف،صحافی،شاعراورمیرے استاذ

 تمام تر یک سوئی،خلوت نشینی اور آس پاس کے ہنگاموں سے بے نیاز ہوکر علم و قلم اورشعر و ادب کی خدمت میں مصروف رہنے والے مولاناکفیل احمد علوی (1937-2017) نے اپنے بیش بہاتجربات اوررجال سازی کی صلاحیتوں کی بدولت سیکڑوں نوجوانوں کی علمی و قلمی تربیت میں بھی اہم ترین رول ادا کیا ، وہ ایک مخلص ترین استاذ تھے اور سادہ ترین انسان،شیخ الہند اکیڈمی میں طالب علمی (2011-12)کے دوران دوسال مسلسل میں نے انھیں قریب سے دیکھا ،ان سے استفادہ کیا اور بہت کچھ سیکھا،ان کی اپنی ہی دنیا تھی،گردوپیش کے ہاؤہوسے بے نیازوہ اپنے آپ میں مگن رہتے، بغل میں ایک چھوٹاسا بیگ دبائے پابندی سے شیخ الہنداکیڈمی آتے،صحافت و تحریر کے حوالے سے طلبہ کی رہنمائی کرتے،صبح سے شام تک مختلف مرحلوں میں چائے کادورچلتااورتعلیمی وقت کے اختتام کے ساتھ ہی وہ اپنے گھر کوروانہ ہوجاتے ،کم و بیش پچاس سال انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبوں میں استاذ،نگراں یا ذمے دارکی حیثیت سے گزارے،مگر وہ کسی بھی قسم کی انتظامی یا غیر انتظامی سیاست سے یکسر الگ رہے،اسی کی دہائی میں احاطۂ دارالعلوم میں جو سونامی آئی تھی،اس کے وہ چشم دید گواہ تھے؛بلکہ کئی بار انھوں نے مجھے اس دورکے بعض دلچسپ واقعات بھی سنائے؛لیکن اس پورے ایپی سوڈ میں وہ کسی بھی قسم کے تنازع سے دور ہی رہے،ان کی نگاہ معاملہ شناس اوردل دماغ بیدارتھے؛ اس لیے وہ جھوٹی عقیدت ومحبت کے پردے میں کسی کاآلۂ کار یاکسی استحصالی میکانزم کاحصہ بننے سے محفوظ ہی رہے،وہ ایک ذہین ترین آدمی تھے ، جب بات چلتی تو وہ تاریخ کے بعض دلچسپ اورپوشیدہ حقائق و واقعات کی مختلف پرتوں کو بڑی باریکی کے ساتھ کھولتے،وہ شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی کے آخری دورکے شاگردوں میں سے تھے اوران کا علم مستحضر تھا،جب کبھی کسی علمی موضوع پر بحث چھڑتی ، تو بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ اس کے محتویات پر گفتگو فرماتے۔ـ

ان کے والد مولاناجلیل احمد کیرانوی دارالعلوم کے استاذِ حدیث تھے،سوان کی پوری تعلیم ازابتداتاانتہا وہیں ہوئی،اس کے بعد تازندگی دارالعلوم ہی میں تدریسی ،تصنیفی،صحافتی خدمات انجام دیں۔ان کا اصل میدانِ عمل تحریروتصنیف اور شعر وشاعری تھا،1950ء سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا اور ’’تجلی‘‘ ،ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ اور’’ چراغِ حرم‘‘ جیسے رسائل میں چھپنے لگے ،اس کے بعدمختلف ادوارمیں ان کے قلم سے ’’تقریرِبخاری‘‘،’’اسلام مدینہ سے مدائن تک‘‘،’’اعجازِ نبوی ‘‘اور ’’راہِ حق کے مسافر‘‘ جیسی کتابیں منظرِعام پر آئیں،انھوں نے متعدد عربی کتابوں کے اردو ترجمے بھی کیے،نئی انتظامیہ کے تحت جب پندرہ روزہ’’ آئینۂ دارالعلوم ‘‘نامی اخباری جریدے کا اجرا عمل میں آیا،تواس کی ادارت انھیں سونپی گئی اور اپریل 2009ء تک انھوں نے اس پرچے کی بخوبی ادارت کی،اس دوران ملکی و عالمی حالات پر انھوں نے بیش قیمت شذرات تحریر فرمائے،جب روزنامہ سہاراشروع ہوا،توابتدامیں ایک عرصے تک اس میں کالم لکھا،پھران کی بے نیازطبیعت آڑے آگئی اور یہ سلسلہ رک گیا،اخباروالے مضمون کامطالبہ کرتے اوروہ انھیں ٹالتے رہتے۔وہ عموماً سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھاکرتے تھے اور ان کی تحریروں میں جہاں فکری بصیرت کا عنصر بدرجۂ اتم پایاجاتا تھا،وہیں فنی اعتبار سے بہترین نثر کی تمام تر خصوصیات ان کی تحریروں میں ملتی تھیں،وہ حالات کا تجزیہ موضوع کے تمام تر پہلوؤں پر حاوی ہوکر کیا کرتے تھے اور ان کے طریقۂ استنتاج سے معلوم ہوتا تھا کہ بلاشبہ وہ ایک دیدہ ور اورزمانہ شناس صحافی ہیں،’’آئینۂ دارالعلوم‘‘میں کم وبیش پچیس سال تک مسلسل لکھے گئے ان کے اداریے اور مضامین اس قابل ہیں کہ انھیں جمع کرکے شائع کیا جائے ،یہ ایک اہم کام ہوگا اور مولانا کو بہترین خراجِ عقیدت بھی!

کفیل صاحب طلبہ کی تربیت بڑے خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے تھے ، اپنے شاگردوں کی کامیابی پربہت خوش ہوتے اور اس کا اظہار بھی کرتے،ان کے زیر تربیت کوئی طالب علم اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا،تودوسروں کے لیے اسے نمونہ قراردیتے،کسی طالب علم کاکوئی مراسلہ یا مضمون کسی اخبار میں شائع ہوتا،توبے پناہ خوش ہوتے،خود بھی کئی بار پڑھتے اور دوسروں کوبھی پڑھنے کے لیے دیتے،ہمارے ایک ساتھی تھے،جن کو پڑھنے لکھنے کے علاوہ دوسری بہت ساری مصروفیات بھی درپیش رہتی تھیں،انھیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ کفیل صاحب اپنے شاگردوں کی تحریراخبارمیں چھپنے سے بہت خوش ہوتے ہیں، سووہ اپنی عادت کے مطابق کلاس سے ہفتہ پندرہ دن غیر حاضر رہتے ،پھر جب آتے اور انھیں مولانا کی ڈانٹ پڑنے والی ہوتی ،توکلاس میں داخل ہوتے ہی وہ فوراً کسی اخبار میں شائع شدہ اپناایک مراسلہ ان کے سامنے پیش کردیتے ،اتنا دیکھتے ہی ان کا غصہ کافور ہوجاتا اور اس بندے کاجرم معاف ۔اکیڈمی میں قیام کے دوران ہی میں نے پاکستان کے معروف ادیب ،صحافی و شاعر آغاشورش کاشمیری مرحوم کی مختلف تصانیف سے مضامین کاایک انتخاب مرتب کیااور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی،توکفیل صاحب نے خوب حوصلہ افزائی کی اور کتاب پرتحسین آمیزتشجیعی کلمات بھی تحریر فرمائے،اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبندکی صحافتی خدمات پراپناتحقیقی پروجیکٹ (جو دارالعلوم دیوبندکا صحافتی منظرنامہ کے نام سے شائع ہوا)میں نے انہی کی رہنمائی میں مکمل کیا،شروع سے آخرتک مجھے ان کی نگرانی حاصل رہی؛بلکہ انھوں نے پورے مقالے کوتقریباً حرف بحرف پڑھا،حسبِ ضرورت ترمیم و اصلاح کی اوربھرپورحوصلہ افزائی فرمائی،وہ چاہتے تھے کہ یہ کتاب شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہو؛لیکن مختلف اسباب کی بناپر یہ ممکن نہ ہوسکا۔

1984ء میں دارالعلوم دیوبند کے اولین فاضل اور عظیم مجاہد آزادی شیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی سے منسوب ایک علمی ،تحقیقی وتربیتی ادارے شیخ الہند اکیڈمی کاآغاز کیاگیا،جس کی سربراہی ممتازعالم دین ،مصنف ومفکر مولاناسعید احمد اکبرآبادی کوسونپی گئی؛لیکن اس ادارے کو مولانا کی سرپرستی زیادہ دنوں تک حاصل نہ رہ سکی اور چند ماہ بعدہی 1985ء میں مولانااکبرآبادی وفات پاگئے،ان کے بعد اکیڈمی کانگرانِ عام معروف مصنف ومؤرخ قاضی اطہرمبارک پوری کومقرر کیاگیا اور وہ تاحیات اس کی نگرانی فرماتے رہے،جولائی 1996ء میں قاضی صاحب بھی رحلت فرماگئے ،اس کے بعدشیخ الہند اکیڈمی کا ڈائریکٹرمولاناکفیل احمدعلوی کومقررکیاگیااور تب سے لے کر تادمِ واپسیں انھوں نے یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے نبھائی ،1997ء میں مولاناہی کے زیرِ نگرانی نئے فضلاکی صحافتی وتحریری تربیت کاڈپلوماسطح کاایک کورس شروع کیاگیا، جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے،اس میں تدریس وتربیت کی تمام تر ذمے داری کفیل صاحب اور معروف صحافی عادل صدیقی کے سپردرہی،بیچ میں (2004-6) مشہورمحقق ومصنف مولانا عبدالحفیظ رحمانی بھی اکیڈمی سے وابستہ رہے،بعدمیں مؤخرالذکر دونوں حضرات اکیڈمی سے علیحدہ ہوگئے یاکردیے گئے اور دارالعلوم کی انتظامیہ کے عدمِ دلچسپی کی وجہ سے اکیڈمی کواُس حد تک فروغ حاصل نہ ہوسکا،جس کا خواب مولاناسعید احمد اکبرآبادی نے دیکھا تھا؛لیکن اس کے باوجود مولاناکفیل احمد علوی کی ذاتی محنت اور اس میں زیرِ تربیت طلبہ کے شوق وذوق کی وجہ سے بیس پچیس سال کے عرصے میں اکیڈمی سے کئی ایسے فضلانکلے ، جنھوں نے صحافت یا تصنیف و تحقیق کے میدان میں خاصی شہرت حاصل کی اور متعلقہ حلقوں میں اپنے آپ کو تسلیم کروایا،نئی نسل میں مفتی اعجازارشد قاسمی،یوسف رام پوری ،بختیارثاقب قاسمی،احسن اﷲ مظفرپوری ،شاہد وصی،ذوالفقاربہرائچی وغیرہ بیسیوں فضلاصحافت،تحقیق وتصنیف کے شعبے میں مانوس ومشہور نام ہیں اوریہ سب شیخ الہند اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں، جب کفیل صاحب کواپنے شاگردوں کی کامیابی کے بارے میں پتا لگتا،تو ان کے چہرے کی چمک دیدنی ہوتی،وہ حقیقی معنوں میں ایک مخلص اور نہایت بے لوث استاذ تھے،سادگی ان کے رگ و پے میں ایسی رچی بسی ہوئی تھی کہ انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ وہ کس مرتبے کے انسان ہیں؛ شہرت و ناموری سے گویاساری عمر وحشت زدہ رہے،جلوت سے گریزاں اورخلوت گزینی ان کی فطرت کا حصہ بن گئی تھی ،بے نیازی ایسی کہ ان کی تحریروں نے کئی ایک تیزطرار مولویوں کوصاحبِ تصنیف بنادیا۔کفیل صاحب نے ایک بار مجھے بتایا تھاکہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی ایک تاریخ لکھی ہے،جوابھی مسودے کی شکل میں ہے،میں نے انھیں دکھانے کوکہاتووہ ٹال گئے،بتایاکہ اس میں انھوں نے اپنے آنکھوں دیکھے اوربرتے ہوئے مختلف حالات وواقعات کوپوری غیر جانب داری کے ساتھ بیان کیاہے،خاص طورپرانقلابِ دارالعلوم کے زمانے کے حالات کسی بھی رنگ آمیزی سے احتراز کرتے ہوئے بعینہ ذکرکیے ہیں،اس میں انھوں نے بعض موجودہ اکابرِ امت کے اُس زمانے کے کارناموں سے بھی پردہ اٹھایاہے،جب وہ اکابرنہیں بنے تھے، پتا نہیں وہ مسودہ اکیڈمی میں ہی تھایاان کے گھر تھا،بہرحال اگروہ دستیاب ہوجائے اورچھپ کر آئے توخاصے کی چیز ہوگی اور اس سے تاریخِ دارالعلوم کے بعض اہم گوشوں سے متعلق دلچسپ حقائق سامنے آئیں گے۔

ان کی شاعرانہ خصوصیات بھی کمال کی تھیں،وہ اگر کسی دوسرے موزوں اور ادب پرور ماحول میں ہوتے توان کی طبیعت کے بے پناہ جوہر کھل کر سامنے آتے،فنی اعتبار سے شاعری کے رموز و اسرار انھوں نے عامر عثمانی سے سیکھے تھے اور پھر خود قادرالکلام شاعر ہوگئے تھے،’’آئینۂ دارالعلوم‘‘ کے صفحات پر موقع بموقع ان کی خوب صورت غزلیں اور نظمیں مسلسل شائع ہوتی تھیں،حالیہ دنوں میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی ’’شوقِ منزل ‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے،ان کی شاعری عامر عثمانی کی طرح مقصدیت سے معمور ہے،عموماً چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادے الفاظ میں بڑی قیمتی بات کہہ جاتے ہیں،سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں،کمزوریوں اور ملک و ملت کے ناگفتہ بہ احوال کے پس منظرمیں ان کے بہت سے اشعار اور نظمیں خاص معنویت کی حامل ہیں،ایک زمانے میں ان کی بعض نظمیں اور اشعار ملک بھر میں مشہور ہوئے اور ضرب المثل بن گئے تھے،معروف شاعر ڈاکٹرکلیم احمدعاجزکی دعائیہ نظم ’’رات جی کھول کے پھرمیں نے دعامانگی ہے ‘‘کی زمین میں کفیل صاحب کی بھی ایک طویل نظم ہے، جوآئینۂ دارالعلوم میں شائع ہوئی تھی،اس کے الفاظ، اسلوب، مشمولات،طرزِ اظہار واحساس میں وہی نازکی ، گدازوسوزپائے جاتے ہیں،جوکلیم عاجزصاحب کی نظم میں ہیں۔بہر کیف کفیل صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور ہزاروں لوگوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوئے اوراپنی عمرِمستعارکی متعینہ مدت گزارکر12؍مارچ2017 کوعالمِ جاودانی کی طرف کوچ کرگئے،یہ حقیقت ہے کہ خلوت نشینی و بے نیازی نے اِس دنیامیں اُنھیں شہرت وناموری سے دوررکھا،مگر امیدِ قوی ہے کہ اﷲ عزوجل کے یہاں ان کی جملہ خدمات وحسنات کابہتر سے بہتر بدلہ مقدر ہوگا۔

Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 22018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.