ایسا بھی ہوتا ہے (انس اگین)

انسان خطا کا پتلہ ہے۔کئی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی کا روگ بن جاتی ہیں۔ لیکن قدرت انسان کو بار بار مواقع دیتی ہے کہ انسان سنبھل جائے اور دوسروں کوسنبھال لے۔
(قابل احترام لکھاریہ MINI کے نام)

پتا ہے زندگی میں سب سے زیادہ دکھی اور بے بس کب ہوتا ہے؟عنایہ نے رخسانہ سے کہا۔ جب انسان زندگی میں کسی سے ٹوٹ کر محبت کرے اور اپنی چاہت کو حاصل نہ کر سکے۔عنایہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔انس سے بریک اپ ہونے کے تقریباً دو سال بعد وہ یونیورسٹی میں بیٹھی اپنی کلاس فیلو رخسانہ کے ساتھ گفتگو کر رہی تھی۔ کچھ بھی نہیں بدلا تھا ، اب بھی عنایہ انس کے فون کا انتظار کرتے کرتے سو جاتی تھی۔ ایک ان دیکھی امید اسے ہمیشہ لگی رہتی تھی کہ انس اسے ضرور رابطہ کرے گا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ 2 سالوں میں اس کو اس کو پچھتاوے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج اس نے کچھ ایسا دیکھا جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا۔
٭٭٭
"انس مجھے لگتا ہے کہ ہم ساتھ نہیں چل پائیں گے ،میری اور تمہاری عادتوں میں بہت فرق ہے، بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ ابھی فیصلہ کر لے۔ہیلو یار ! میری بات تو سنو"۔۔۔۔۔۔کال کٹنے کی آواز سنائی کے ساتھ ہی فون کٹ گیا۔ ہیلو مسٹر۔۔۔۔۔۔کیا آپ میری آواز سن رہے ہیں ،یہ میری سیٹ ہے پلیز یہاں سے اٹھ جایئے۔۔۔۔۔یہ سن کر انس جلدی سے ماضی کی دنیا سے باہر نکلا اور جلدی سے سیٹ سے اٹھ گیا۔ 2 سال بعد بھی وہ عنایہ کا آخری فون کال بھول نہیں پایا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتا رہتا تھا کہ اس نے کیا غلطی کی ہے ، جو اس کو اتنی بڑی سزا ملی ہے۔ آج اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ "میں آپ کو کب سے کہہ رہی ہو آپ یہاں سے اٹھ جائیں ۔پہلے دن ہی آپ کو کون سا جھٹکا لگ گیا جس کی وجہ سے آپ کو کسی کی آواز کان میں نہیں پڑ رہی۔"میں معذرت خواہ ہو۔آئیے بیٹھ جائیے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی جس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس کو پکار دے دے کر تھک چکی ہے اور قریب تھا کہ وہ اسے پاگل قرار دے دیتی۔
٭٭٭
یونیورسٹی میں آج اس کا پہلا دن تھا۔عنایہ اور اس کی بچپن کی دوست رخسانہ دونوں نے ایک ہی سبجیکٹ میں داخلہ لیا تھا۔ پہلے دن کچھ خاص سٹڈی نہیں ہوئی تھی۔ دو پیریڈ ہوئے تھے اور باقی پروفیسر ز نے ان کی کلاس لینے کی زحمت نہیں کی تھی۔ "چلو آ جاؤ یار کچھ کھا لیتے ہیں ، بہت بھوک لگ رہی ہے۔"عنایہ نے رخسانہ سے کہا اور وہ دونوں کینٹین کی جانب چل پڑی ۔کینٹین میں بیٹھ کر جب وہ سموسوں پر ہاتھ صاف کر رہی تھیں تو اچانک عنایہ کی نظر سامنے سے آنے والے لڑکے کی طرف پڑی۔ اسےیوں لگا جیسا دنیا تھم گئی ہو۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے تھپڑ دھاڑ سے مارا ہوں۔
٭٭٭
میرا نام ہادیہ ہے ۔ اور آپ کا نام ؟انس کی برابر والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے پروفیسر کے کلاس کے باہر جانے کے بعد پہلا سوال داغا۔ انس جو کہ سامنے دی گئے نوٹس لکھنے میں مصروف تھا اور اچانک لڑکی کے سوال نے اسے کنفیوز کر دیا۔ اس نے جلدی سے جواب دیا "انس" اور نوٹس لکھنے میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔ آپ کس کالج سے آئے ہیں ؟ لڑکی نے دوسرا سوال کیا؟ انس کو لگا کہ اب اس کا انٹر ویو سٹارٹ ہونے لگاہے ۔ اس لیے اپنا نوٹ پیڈ بند کیا ۔ اور ہاتھ باندھ لیے اور بولا "ہادیہ جی ! اب بولیں کیا کیا پوچھنا چاہ رہی ہیں آپ؟"میں بس جسٹ انٹروڈکشن کر رہی ہو لیکن آپ آسمانوں پر کیوں چڑھ رہے ہیں ۔اگر نہیں بتانا چاہتے تو سیدھی طرح بتا دیں ، "ہادیہ نے غصہ کرتے ہوئے کہا۔"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ساتھ ہی انس نے اپنے کالج کا نام بتا دیا ۔ میں نے ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیا ہے ۔"انس نے سادہ الفاظ میں اپنا تعارف کروایا۔ بھوک لگی ہے کچھ کھانے چلیں ؟ انس نے اس کی طرف ایسےدیکھا جیسے اُس نے اس کا ہاتھ ابلتے پانی میں ڈال دیا ہو۔ اف خدایا کیسی لڑکی ہے۔ بات تو ایسے کر رہی ہے جیسے برسوں سے جانتی ہو۔ مانا کہ یونیورسٹی میں لڑکیاں فری ہوتی ہیں لیکن اتنی فری یہ نہیں سوچا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بلا "چو"چاں" کیے اس کے ساتھ چل پڑا۔ اسے کیا پتاتھا کہ تقدیر اس کس موڑ پہ لے کے جارہی ہے۔
(جاری ہے)
 

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 37723 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More