دعائیں برائے فروخت

میں اسے جہالت کی انتہا ہی کہہ سکتا ہوں۔ میرے دوست نے مجھے کھانے کی دعوت دی کہ اس کے گھر میں محفل سماع ہے۔پیر صاحب آئیں گے۔ پہلے نعت خوانی ہو گی اور آخر میں کھانا۔حسب دعوت میں مقررہ وقت پرصبح دس بجے وہاں پہنچ گیا۔اس وقت تک پیر صاحب تو کیا مریدان میں سے بھی کوئی ایک آدھ ہی آیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ آناشروع ہوئے ۔ گیارہ بجے تک لوگوں کی معقول تعداد محفل میں موجود تھی۔ پیر صاحب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ میں نے دوست سے پوچھا کہ پیر صاحب آئیں گے بھی کہ نہیں؟

ضرور آئیں گے۔ میں نے ایڈوانس بکنگ کرائی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ باقی لوازمات بھی پورے کئے ہوئے ہیں۔اصل میں بہت سے مرید ان کے ڈیرے پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کواﷲ حافظ کہہ کر اٹھتے اٹھتے دیر ہو ہی جاتی ہے۔

پیر صاحب ہیں کہ کوئی شادی ہال ہے جو ایڈوانس بکنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں نے ہنس کر کہا۔

میرا دوست برا مان گیا۔بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگا،یار میرے پیر صاحب بڑے محترم، خدا ترس، اﷲ والے اور انتہائی نیک انسان ہیں۔ ان کے بارے کوئی غلط بات یا مذاق مت کرو ۔

مگر یہ بکنگ والی بات مجھے سمجھ نہیں آئی۔یہ کیا قصہ ہے۔

بتانے لگا کہ پیر صاحب کو بلانے کے لئے باقاعدہ بکنگ کرانی ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پیر صاحب کے سیکرٹری کو دس ہزار روپے ایڈوانس پیر صاحب کی نذر کرنے اور چھ ہزار روپے ایڈوانس ٹرانسپورٹ کا خرچہ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کو سٹیج کا خرچہ بتانا ہوتا ہے۔ پیر صاحب جب سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ آنے والا نعت خوان نعت پڑھتا ہے میزبان سمیت بہت سے لوگ بہت سے روپے پیر صاحب پر نچھاور کرتے ہیں جو پیر صاحب کے ارد گرد گرتے ہیں اور ان کا سیکرٹری وہ اٹھاکر اکھٹے کر لیتا ہے۔میزبان پیر صاحب کے سیکرٹری کو بتاتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے دیگر دوستوں سے علاوہ کتنے روپے نچھاور کرے گا۔ یہ سٹیج کا خرچہ کہلاتا ہے۔ میں نے دس ہزار پیر صاحب کی نذر کرنے اور چھہ ہزار خرچہ ٹرانسپورٹ سیکرٹری کو دے دئیے ہیں ۔سٹیج کا خرچہ کرنے کے لئے پچاس ہزار کا وعدہ کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ میرے تم جیسے بہت سے مالدار دوست جنہیں میں نے دعوت دی ہے بھی سٹیج پر بیٹھے پیر صاحب پر کافی رقم نچھاور کریں گے۔

میں نے کہا بھول جاؤ۔ ایک تو میں امیر آدمی نہیں۔ دوسرا میں پیر پرست نہیں کہ اگر کچھ ہو تو پیر صاحب پر ضائع کر دوں۔ میں تو ان پیروں کو مانتا ہی نہیں۔ میں تو فقط تمھاری دعوت پر کھانا کھانے آ گیا ہوں۔میری طرف سے کچھ خرچ کرنے کا بھول جاؤ۔

مجھے اندازہ ہے کہ تم وہابی ہو۔ اس نے میرے بارے ایک فوری فتویٰ جاری کر دیااور کہا، دیکھنا یہاں لوگ کتنے روپے پیر صاحب پر کتنی رقم نچھاور کرتے ہیں اور کتنے پیر صاحب کے سا منے بیٹھ کر چپکے سے ان کے ہاتھ میں دس دس اور بیس بیس ہزار نذر کریں گے۔ تم اور تمھارے جیسے لوگوں کو کیا پتہ کہ پیر صاحب کی نظر کرم اور دعاؤں سے ہم لوگوں کے بگڑے کام کیسے سنورتے ہیں اور ہم لوگوں کے پاس روپے کی ریل پیل کیسے ہوتی ہے ۔

اسی گفتگو کے دوران پیر صاحب کے آنے کی اطلاع پا کر وہ بھاگم بھاگ گھر کے دروازے پر موجود تھا۔چند لمحوں بعد ایک موٹا تازہ شخص جو ہاروں سے لدا ہوا تھا کمرے میں داخل ہوا۔ سب زور زور سے نعتیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ نعرے بازی بھی جاری تھی۔ لوگوں کا عالم دیدنی تھا۔ کچھ لوگ لگتا تھا وجد میں ہیں۔کچھ حالت رقص میں تھے۔ پیر صاحب کو سہارا دے کر سٹیج پر بٹھا دیا گیا۔فوراً حمدوثنا اور نعت خوانی کی ابتدا ہو گئی۔

کچھ لوگ پیر صاحب کے سامنے سجدے میں پڑے تھے۔ کچھ ان کے ہاتھوں کو بوسے دے رہے تھے۔ کچھ ان کے قدموں سے لپٹے جا رہے تھے۔ کچھ اٹھتے، جھومتے ہوئے پیر صاحب کے ارد گرد چکر لگاتے اور بہت سے روپے ان پر نچھاور کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ آ کر بیٹھ جاتے۔ کس قدر جہالت اور ظلم ہے کہ ایک جعلساز قسم کا شخص پیری کے نام پر سادہ دل لوگوں سے لاکھوں بٹوررہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ اس جہالت کے خلاف احتجاج کروں، زور زور سے چلاؤں۔مگر اس بے وقوف عوام کے سامنے میں نے خود کو بڑا بے بس پایا۔ میرے شور مچانے سے پیر صاحب کا کچھ نہیں بگڑنا تھا البتہ میری خوب درگت بننی تھی۔ اس لئے عزت بچا کر چپ چاپ واپس آ گیا۔

ہمیں اندازہ نہیں کہ اس طرح عقیدت کے نام پر ایک ہٹے کٹے غیر مستحق شخص کو لاکھوں دینے سے ہم ثواب کی بجائے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔شاید ہمیں شعور ہی نہیں کہ اس پیسے کے حقدار بہت سے مستحق لوگ کتنا کٹھن وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔وہ مانگ نہیں سکتے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لوگ تلاش کرنا ہوتے ہیں۔ کاش ہم انہیں تلاش کرکے یہی پیسے ان پر خرچ کریں تو یقیناً بہت سے ثواب سمیت حقیقی اور روحانی مسرتوں سے مالامال ہو سکتے ہیں۔

آج ہی ایک بچی کا فون آیا تھا۔ چند دن پہلے اس کے والد فوت ہو گئے ہیں ۔وہ گھر میں سب سے بڑی ہے۔ مکان کا کرایہ، بجلی، پانی اور گھر کے دیگر اخراجات، ما ں کا خیال، چھوٹے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات سبھی کچھ اب اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ پریشان ہے۔ فوری نوکری کی طلب گار ہے۔ میری سٹوڈنٹ ہے۔ مجھے اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہے۔ اس کے رشتہ دار بھی ہیں، محلے دار بھی ہیں ، جاننے والے بھی ہیں۔ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسی بچیوں کی مدد کرنا پیر پرستی سے کہیں عظیم تر ہے۔

دو دن پہلے میں کلاس لے کر واپس جانے کے لئے سیڑھیاں اتر رہا تھا تو ایک بچی سے ملاقات ہوئی۔پوچھا بیٹا دیر سے کیوں آ رہی ہو، میں نے دو دن پہلے اس وقت کا بتایا تھا ، اب تو کلاس ختم ہو چکی۔ کہنے لگی ، سر مجھے میرٹ پر صبح کی کلاسوں میں داخلہ ملا تھا۔مگر میں صبح نہیں آ سکتی ،اس لئے دوپہر کی کلاسوں میں داخلہ لیا ہے۔ میں محلے کے ایک سکول میں پڑھاتی ہوں۔ وہاں سے مجھے پانچ ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ اس سے میں اپنا خرچ بھی نکالتی ہوں اور جو بچ جاتا ہے والدہ کو دے دیتی ہوں۔اگر میں نوکری نہ کروں تو نہ میں خود پڑھ سکتی ہوں اور نہ میرے چھوٹے بہن بھائی کیونکہ میرے والد نہیں ہیں۔ آپ نے آج جس وقت کلاس لی اس وقت سکول والے آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ معافی چاہتی ہوں، مجبوری تھی۔

بچی چلی گئی تو میں سوچنے لگا کہ ہم دعائیں برائے فروخت کے شاندار اشتہار دیکھ کر غلط جگہ اپنا سرمایہ لٹاتے ہیں ۔اس سرمایے کی مستحق ایسی بچیاں، ایسے بچے اور ایسے ہی مجبور لوگ ہوتے ہیں جن کی دعائیں کبھی اثر سے خالی نہیں ہوتیں نا کہ وہ نام نہاد لوگ کہ دعائیں بیچنا جن کا کاروبار ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442434 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More