جہیزکی لعنت

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی (جے آئی) کی طرف سے جہیز پر پابندی عائد کرنے کے لےے خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گےا، بل جماعت اسلامی کی اےک اےم پی اے محترمہ رفعت رشیدہ کی طرف سے پیش کےا گےا، جو مندرجہ ذیل تجاویز پر مشتمل ہے:

جہیزکی لعنت

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی (جے آئی) کی طرف سے جہیز پر پابندی عائد کرنے کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا، بل جماعت اسلامی کی ایک ایم پی اے محترمہ رفعت رشیدہ کی طرف سے پیش کیا گیا، جو مندرجہ ذیل تجاویز پر مشتمل ہے:
شادی کی تقریبات میں جہیز دینے اورلےنے پر مکمل پابندی کی جائے. جہیز کے دینے اورلینے میں ملوث افردکے لئے تین مہینے قید اور مبلغ دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے. دلہن کے خاندان پرجہیز دینے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے.شادی میں دئے گئے تحائف کی مالیت مبلغ دس ہزار سے زیادہ نہ ہو.ولیمہ کی رسم ادا کرنے پر مبلغ پےچھتر ہزار سے زیادہ نہیں لاگت نہ آئے .

شادی کی رسم رات دس بجے کے بعد تک جاری نہیں نہ رہے.نکاح او بارات کیتقریبات میں صرف مشروبا ت سے تاواضع کی جائے.

کے پی حکومت کے ترجمان مشتاق احمد غنی نے کہا. " یہ ایک تاریخی بل ہے اور ہم اس کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں ،" انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت اس بل کو متفقہ طور پر منظور کروانے کی کو ششں کرے گی اور اس کے صوبے میں نفاذ کو یقینی بنائے گی.

پاکستان میں خواتین پر شادی کے وقت دولہا کے خاندان والوں کی طرف سے جہیز فراہم نہ کرنے پر تشدد کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں.

آج کل نفسہ نفسی کا دور ہے ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں-

دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں۔

وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے ،بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جا کر انکا زہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وہاں سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں گاڑی، کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میں لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں ان کے بعد کہیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اورڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔

ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور احادیث نبوی بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں ،حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں۔

کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں ،

آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“۔

جتنے ملے سب شرفاءملے۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ”الحمد اﷲ ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے “۔

جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے جب وہ اور ا±ن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔۔۔وہ بھی خوشی سے“۔

دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں۔

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 208429 views Learn-Earn-Return.. View More