پروفیسر ریاض راہی کا تصور شعر

شاعر اپنے عہد کا نباض اور اپنی روایات کا امین ہوتا ہے اس کی فکر کا محور کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہوتا بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان ہوتے ہیں اچھا او ر سچا شاعر انسان دوست ہوتا ہے اس کا پیغام عالمگیر حیثیت کا حامل ہوتا ہے جس میں امن،پیار ، خلوص اور بے ریا محبت کا جذبہ فراواں ہوتا ہے ۔
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال :۔
’’فلسفہ بوڑھا کر دیتا ہے اور شاعری تجدید شباب کرتی ہے ‘‘

یہ بات سو فیصد درست ہے مگر معذرت کے ساتھ آج کے اس پر فتن دور میں حق گو شعر ا ء خال خال ہی نظر آتے ہیں خوشامدی شعرا کی اس دور میں کوئی کمی نہیں ہر شعبہ زندگی میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک حق پرست دوسرے باطل کے طرفدار ۔ان کے مابین جدل و تصادم جاری رہتا ہے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ حق و صداقت کی راہوں پر چلنے والے تعداد میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں زمانہ خود ان کے مقام ان کے فکر و فن کی عظمت کا تعین کر لیتا ہے ۔ ایک سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ ایک اچھے شاعر کو کس معیار پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ وہ کون سی کسوٹی ہے جس پر رکھ کر اس کی ادبی اقدار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ شعر و ادب کا معیار سماج اور سماجی اقدار ہیں صرف وہی ادب میزان نقد و نظر پر پورا اتر سکتا ہے جس میں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حوالے موجود ہوں اور جو نفسیاتی اور اخلاقی تناظر میں بھی اعلیٰ معیار پر پورا اتر سکے میرے نزدیک صرف ایسا ادب ہی شہرت عام اور بقا ئے دوام کا مستحق ہے ۔
؂ دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا

میں نے جب ان کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے شعبہ اردو میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام ریاض راہی ہے ۔ ایم اے اردو سال دوئم کے طلبا ء کو پڑھاتے ہیں میں نے کہا اے اﷲ کب سال دوئم میں جاؤ ں گا ان کا باضابطہ شاگرد رشید بنوں گا وجہ یہ ہے کہ استاد مکرم بچوں کو اصلاح سخن دیتے اور سمجھاتے ۔ اتنے شفیق استاد ، اتنا دھیما لہجہ ، اتنی سادی ، اتنی معصومیت کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کر کے ایسا دوستانہ ماحول پیدا کر دیتے کہ کوئی بھی اس علمی و ادبی ماحول میں شامل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

پروفیسر ریاض راہی صاحب کے ہونہار شاگرد محمد سلیم آکاش کا شعری مجموعہ "تنکے "طالبعلمی دور میں ہی منظر عام پر آیا ۔ عمر تنہا کے دو شعری مجموعے 1 لفظ کرتے ہیں گفتگو تیری ،2ابھی امکان باقی ہے ، رانا عبدالرب نے ’’سفر ہے خواب جیسا‘‘ تخلیق کی جسے بے حد سراہا گیا ۔ طلباء میں تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر کرنے میں پروفیسر ریاض راہی نے کبھی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا ۔

اگر راہی صاحب کو بحیثیت انسان دیکھا جائے تو ان میں خلوص ، پیار ، محبت ، صداقت ، شرافت ، دیانت ، صبر و رضا ، تفکر و تدبر عزم مصمم ، جہد مسلسل ، تدریس و تحقیق ، حق گوئی و بے باکی غرض بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ہم کالج چھوڑ رہے تھے الوداعی تقریب تھی میں نے کہا ’’سر جی کلاس میں تو آپ ہم پر دست شفقت رکھتے ہیں ، حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور رہنمائی دیتے ہیں اب ہم آپ سے کہاں ملیں گے ۔ سرجی نے تشفی دی اور کہا بیٹا جب آپ کو کبھی کوئی پریشانی ہوتو مجھے جب بھی بلائیں گے میں انشاء اﷲ حاضر خدمت ہو جاؤں گا ۔
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضلع لیہ پسماندہ ضرور ہے مگر علمی و ادبی لحاظ سے مردم خیز ہے کہ جہاں پر ڈاکٹر خیال امروہوی جیسی شخصیت نے ہزاروں شاگردوں کو شعور بخشا ہو ۔ جہاں پروفیسر ڈاکٹر محمد امیر ملک صاحب ، پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین صاحب، پروفیسر ڈاکٹر گل عباس اعوان صاحب، پروفیسر ڈاکٹر حمید الفت ملغانی صاحب ، پروفیسر ڈاکٹر انورنذیر علوی صاحب ، پروفیسر ڈاکٹر جرآت عباس شاہ صاحب ، پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب، محقق ادیب اور دانشور کے معتبر ترین حوالے موجود ہوں اسی طرح پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب ، پروفیسر سبحان سہیل چانڈیہ صاحب ، پروفیسر شفقت بزدار صاحب، پروفیسر کرامت کاظمی صاحب جیسی ہستیاں طلباء کے روشن مستقبل کیلئے اپنی تما م تر توانائیاں صرف کر رہے ہوں تو اسے پسماندہ کیوں کہا جائے ۔

پروفیسر ریاض راہی صاحب بھی انہی مردان حق شناس میں سے ہیں جو استقامت پر کاربند ہیں ۔ میں انہیں مرد قلندر کہوں تو بے جا نہیں ہو گا ان کا شعری مجموعہ شکست آرزو 2005ء میں اس وقت منظر عام پر آیا جب ادیبوں کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے ہتھکڑیاں تھیں ۔ حق گوئی و صداقت کی پاداش میں ادیبوں سے قلم چھین لیا گیا تھا ۔ ان پر بغاو ت کے مقدمات قائم ہو رہے تھے مگر راہی صاحب نے دور آمریت کے ہر ظلم کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا۔ دیکھیے وہ کس طرح سیاہ ترین دور کا تذکرہ کرتے ہیں :۔
؂ ہم کو تو خواب میں بھی نہ لطف سحر ملا
اپنی تو عمر گزری ہے عہد سیاہ میں

پروفیسر ریاض راہی صاحب کی شخصیت میں قول و فعل کا تضاد نہیں جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے عمل و کردار سے کر دکھانے کے قائل ہیں ان کی شاعری میں فکر ، جذبہ ، احساس اور تخیل کی فراوانی نظر آتی ہے ۔ وہ فکری سطح پر دوئی اور منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
کیا یہ انداز وفا ہے زباں پر کچھ ہو
دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے پھرتے رہنا

راست بازی اور حق گوئی راہی صاحب کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ وہ حساس طبیعت کے مالک ہیں وہ معاشرہ میں غربت ، افلاس اور جہالت کے مکروہ مناظر دیکھ کر افسردہ ہو جاتے ہیں وہ سیاسی اور سماجی محرومیوں میں مقید غریب شہر کی آہ و زاری کو شوق فضول نہیں سمجھتے بلکہ اس کی اثر آفرینی کے قائل ہیں ۔ دیکھئے ریاض راہی صاحب کا ایک اچھوتا انداز :۔
؂کرتے رہے ہیں یار بہت ضبط آہ دل
آخر غریب شہر نے سب کو رلا دیا

بلا مبالغہ ایسے اشعار آفاقیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ غریب کا تعلق کسی ملک ، قوم ، قبیلے سے ہو مگر غریب کے دکھڑے نے سب کو رلا دیا ۔ ڈاکٹر خیال امروہوی پروفیسر ریاض راہی کے فکر و فن یوں اظہار خیال کرتے ہیں :۔
"ریاض راہی کا کلام مفید و موثر کلاسیکی نشاۃ ثانیہ درجہ رکھتا ہے اس کے یہاں مضامین کی کمی نہیں وہ انسانی سماج کو خارجی اور داخلی ہر حیثیت سے نہایت فنکارنہ چابکدستی سے فن کے قالب میں ڈھالتا ہے ریاض راہی کے کلام کے مطالعہ کے دوران میں ان کے اشعار مبسوط کتاب کی صورت میں نظر آتے ہیں
ان کا شعری اظہار نہایت بلیغ اور موثر ہے "ڈاکٹر خیال امروہوی نے نہایت ہی خوبصور ت بات فرمائی کہ راہی صاحب کے مضامین وموضوعات کی کمی نہیں آخر اس بات کا انکشاف کیوں نہ کیا جائے کہ کن کن موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے کیا انہوں نے صرف حسن و عشق ، ہجر و فراق ، گل و بلبل کی باتیں کی ہیں ، نہیں دوستو! اگر ریاض راہی صاحب کے کلام کا مطالعہ حسد کی عینک اتارکر غیر جانب دارانہ طریقے سے کیا جائے تو ببانگ دہل یہ بات کہنے پر مجبور ہوں گے یہ صرف شعری مجموعہ ہی نہیں بلکہ رنگارنگ گل دستہ ہے جہاں پر ہر شعبہ زندگی سے وابستہ انسان اپنے مقصد و مطلب کی چیز تلاش کر سکتا ہے ایسا موثر اور جامع کلام پیش کرنا پروفیسر ریاض راہی صاحب ہی کا کمال ہے۔ جہاں انہوں نے مزدوروں ، غریبوں ، مفلسوں ، بے کسوں اور مفلوک الحال لوگوں کے مسائل کو احسن انداز میں پیش کیا ہے وہیں پر سرمایہ دارانہ نظام پر بھی کاری ضربیں لگائی ہیں ۔ مفلسی ، انقلاب ، بھوک ، غصہ ، نفرت ، محبت ، ہجر و فراق ، حسن و عشق ، عرفان ذات اور خود احتسابی ، آزادی و سرمستی کو موضوع سخن بنایا ہے اسی طرح آپ نے اپنے کلام کے ذریعے حکمرانوں کو للکارا ہے ۔ خوشامدی ٹولہ پر بے لاگ طنز کیا ہے ۔ ضمیر فروش انسان ، ایمان فروش مُلا پر خوب تنقید کی ہے ۔ کہیں آپ کے کلام میں قلندرانہ مزاج تو کہیں پر واعظانہ و خطیبانہ لہجہ، کہیں غالب کی طرح استفہام ، تو کہیں اقبال کی طرح مناجات، کہیں ملی وحدت کا درس ، تو کہیں پر صحابی رسول ؐ ، خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ مرتضیٰ شیر خدا کی شان میں گلہائے عقیدت ۔ آپ نے اہل بیت رسول ؐ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے ۔ شہید کربلا حضرت امام حسین ؓ کی شہادت پر ، ان کی صبر و رضا پر آپ نے خوب اسلام کے سرفروشوں کو خراج عقیدت پیش کیا ۔

غالب سے قبل اردو شاعری صرف ہجر و وصال ، حسن و عشق ، ناز و ادا، معاملات عشق ، محبوب کے تل و رخسار تک محدود تھی مگر غالب نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا ، آپ نےغزل کا دامن وسیع کیا ۔ غالب کے کلام میں استفہام ، طنز ، فکر فردا ، رشک، تمنا ، انا اور معاملہ بندی عشق جیسے موضوعات اردو غزل میں آئے تو غالب مجدد شعر و ادب کہلایا اور انہوں نے غزل کا دامن وسیع کیا ۔

راہی صاحب"نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ"کے اصول پر کاربند نظر آتے ہیں ان کی سوچ اور فکر ترقی پسندانہ ہے وہ پرانے اصول و ضابطے پر کاربند نہیں بلکہ شاعری میں جدید خیالات و موضوعات کو جگہ دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ادبی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ۔ بقول پروفیسر محمد افضل صفی :۔
"ریاض راہی غیر طبقاتی سماج کے قائل ہیں وہ انسان کو خوش حال اور آسودہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ بھوک ، افلاس اور جہالت پر مبنی نظام کے خلاف ہیں کیوں کہ یہی طبقاتی تفاوت انسان کو نفسیاتی طور پر ناکارہ بنا دیتی ہے اور فطرت کی طرف سے تمام ودیعت کردہ انسانی صلاحیتوں کو تباہ و برباد کردیتی ہے "
؂ عالم فرط عیش میں راہی
تذکرہ کچھ غریب کا کیجئے

پروفیسر ریاض راہی صاحب کے ہاں محبت ، خلوص ، پیار ،شفقت اور دوستی کا معیار انسانیت ہے نہ کہ عہدہ ، دولت یا شہرت کیونکہ اچھے شاعرمیں ہمیشہ یہ چیز دیکھی گئی ہے کہ محبت سب کیلئے ، نفرت کسی سے نہیں ۔ انہوں نے رومانوی اور جمالیاتی موضوعات بھی خوب نبھائے ہیں ۔ دیکھئے انداز گل افشانی گفتار : ۔
؂ اس گل بدن کے سامنے عقل و خرد کہاں
دل ہاتھ سے نکل گیا پہلی نگاہ میں

موجودہ حالات کے منفی اور تخریبی قدروں کی ترویج اور اس پر اظہار افسوس کا انداز دیکھئے:۔
؂ یہاں غیبت، ملامت اور ظلمت کا چلن ہے
چراغ زندگی لے کر کہاں میں آگیا ہوں

بے ضمیر ، کرپٹ حکمرانوں کو قلندارانہ لہجے میں للکارتے ہیں ؛۔
؂ آنے والا وقت تمہارے خون کا پیاسا ہے چورو
لوٹ کا مال کہاں تک آخر گھر میں بیٹھ کے کھاؤ گے
خوشامدی شعراء پر یوں طنز کرتے ہیں :۔
ایسا نظام زر سے ہوا منتشر خیال
فنکار کے قلم میں بغاوت نہیں رہی
ایمان فروش ملا پر یوں تنقید کرتے ہیں :۔
؂ کہو مسلماں کہ تیرے ایمان ناتواں کا میں بھید کھولوں
تیرے عمل میں جھلک ریا ہے دین میں بھی تو تاجرانہ

راہی صاحب ، اقبال کی طرح ملی وحدت اور اپنی تہذیبی روایات پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں :۔
؂ وہ کیسے جئے گا جو تمدن سے الگ ہو
سوکھے گی وہی شاخ جو گر جائے گی کٹ کر

راہی صاحب کے کلام میں اقبال کے انداز کی جھلک دیکھئے :۔
؂ میں راز کائنات ہوں سمجھا کرے کوئی
مجھ سا ہے کوئی تو پیدا کرے کوئی
ہر فرد اپنی ذات کے غم میں اسیر ہے
کیسے کسی کا درد گوارا کرے کوئی

کلام راہی میں غالب کی طرح کا فکر و فن اور انداز دیکھئے :۔
؂مذہب کے نام پر وہ بہایا گیا لہو
کعبہ ملول ہے تو کلیسا اداس ہے

خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ المرتضی کی شان میں گلہائے عقیدت :۔
؂ وہ باب علم، فاتح خیبر، گل حرم
کب تک کہوں کہ کیا ہے وہ شیر خدا علیؓ

نواسہ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتول ؓ ، شہید کربلا حضرت امام حسین ؓ کی شان یوں بیان کی :۔
؂ہنوز خنجر قاتل پہ خون ہنستا ہے
کمال صبر و رضا ہے حسین ابن علیؓ

اگر فنی لحاظ سے ریاض راہی صاحب کے کلام کو دیکھا جائے تو اس میں تلمیحات ، تشبیہات و استعارات ، صنعت مراعاۃ انظیر ، صنعت حسن تعلیل سے آراستہ ہے اور فن شاعر ی پر مکمل دسترس ہونے کی دلیل ہے ۔ پروفیسر انور جمال کے بقول :۔
"ریاض راہی کا شعر فنی ریاضت ، اردو اور فارسی زبانوں کی رموز آشنائی اور دل گداختہ کا ثبوت فراہم کرتا ہے "

ریاض راہی صاحب کی شاعری ، معاصر اردو شاعری میں کلاسیکیت اور جدت سے ہمکنار ہے ۔ عوامی سطح پر آپ کے کلام کی مقبولیت کی وجہ سادگی ، سلاست ، مزاحمت ، موسیقیت، ترنم ، تغزل ہے ۔ اسلوب کی سادگی کلام کے حسن میں مزید نکھار پیدا کرتی ہے ۔
علاوہ ازیں زیر طبع تصانیف میں :۔
1۔ ڈاکٹر خیال امرہوی شخصیت اور شاعر ی
2۔ دیدہ بے خواب (غزلیات)
3۔ حریم دیدہ و دل (نعتیہ مجموعہ)

لیہ کے ریگزاروں پر پروفیسر ریاض راہی کا وجود ابر رحمت او ر نعمت خداوندی سے کم نہیں ۔ جنہوں نے نہایت ہی قیمتی کلام پیش فرماکر نئے آنے والوں کیلئے رہنمائی کا سامان پیداکیا ہے۔خدا ئے لم یزل سے دعا ہے کہ آپ حاسدین کے حسد سے محفوظ رہیں اور شعر وسخن ، تصنیف و تالیف کا سلسلہ قائم و دائم رہے ۔
٭٭٭٭
Sibghat Ullah Bazmi
About the Author: Sibghat Ullah Bazmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.