فیشن کی اندھی تقلید ہمیں مذاق بنا دیتی ہے۔۔!!

شہر میں دیکھا جا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر نوجوانوں میں دیگر فیشن کے ساتھ بالوں کے فیشن کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب کٹنگ سلون میں نوجوانوں کی بڑی تعداد صرف بال ترشوانے کے لئے نہیں بلکہ جدید فیشن سے ہم آہنگ ہونے کے لئے آتی ہے۔کسی قوم کے لباس، پہناؤے، خوراک، رسوم و رواج، طرز زیست و دیگر اشیاء اس قوم کی تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں، جو کہ اسے دوسری اقوام سے منفرد و ممتاز بناتی ہیں۔آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فلم بینی جیسی خرافات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں اوراندھا دھند فلمی اداکاروں کی نقالی کرتے ہوئے اپنے اعلیٰ اقدار اوراخلاق کو داو پر لگائیں۔ لباس ،گفتار،چال ڈھال فیشن کے نام پر بے حیائی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔شیطان نے ان کی اس بے حیا ثقافت کو روشن خیالی کا نام دے کر خوش نما بنا دیا ہے اور وہ اس کو درست خیال کر رہے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسلامی شریعتکے اصول پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگیوں کو بے ہودگی ،بد تہذیبی اوربد اخلاقی سے دور رکھیں۔مسلم نوجوانوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ان کے آئیڈیل پیغمبر علیہ السلام،صحابہ کرام ، صالحین ہونے چاہئیں نہ کہ کوئی فلمی ایکٹر وغیرہ۔آج کا مسلم نوجوان یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ شریعت نے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اس کا وجود، انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ خدائے وحدہ لاشریک لہٗ کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا، اسے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے مطابق استعمال کرنا، اس سے وہ کام لینا جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور اسے نقصان وزیاں سے بچانا لازم ہے، صورت حال یہ ہے کہ انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو پہچان لیا اور جسم کو لگی بیماری کو دور کرنے کی بہت فکر کرتا ہے۔ مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیرلیں، وہ نماز ترک کرتا ہے، روزہ چھوڑتا ہے، سگریٹ پیتا ہے، جام چھلکاتا ہے، موسیقی سنتا ہے ،گانے گاتا ہے، فلمیں دیکھتا ہے، نیٹ کا منفی استعمال کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، احکام اسلام کو توڑتا ہے، والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور تعیش پسندی کے ساتھ نہ جانے کیا کیا اسلام مخالف کام کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سب غفلت وسستی کا نتیجہ ہیں، لیکن کیا ان سب کی وجہ سے اس کا دل دکھتا ہے اور کیا اسے اس بڑی اور مہلک بیماری کا احساس ہے اور کیا اس بیماری کو دور کرنے کی فکر دامن گیر ہے؟ نہیں، آخر کیوں؟ غفلت و کوتاہی تو ویسے اسلام کے سارے شعبوں میں ہے، عقائد، احکام، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب میں گرواٹ ہے۔اب بھی وقت ہے، سنبھل جائیے۔ ایمان باﷲ کو استوار کیجئے۔ اس دن کو یاد کیجئے جس دن آپ کو اﷲ کے سامنے حساب دینا ہے اس دن اﷲ کے عذاب سے بچانے والا کون ہو گا۔ یہ دنیا چند روزہ ہے۔ یہ فیشن پرستی فلاح کا بارعث نہ بنے گی۔ بلکہ غضبِ الٰہی کا موجب ہو گی جن کی نقالی پر آپ کو ناز ہے یہ وہاں آپ کے کچھ کام نہ آسکیں گے۔ وہاں احکامِ الٰہی کی تعمیل میں محض اﷲ کی رضا کے لئے جو کام کئے ہوں گے وہی کام آئیں گے۔ اگر آپ لا الٰہ الا اﷲ پڑھتے ہیں تو اﷲ کی حاکمیت تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ اگر محمد رسول اﷲ آپ پڑھتے ہیں تو حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی اتباع کر کے اﷲ کی حاکمیت کا عملی ثبوت کیوں پیش نہیں کرتے۔ جب تک اﷲ کی پسند ہماری پسند نہ بن جائے اﷲ کی حاکمیت کا دعویٰ صرف زبان پر ہے دل کی گہرائیوں میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 224 Articles with 248057 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More