صحافت کامعیار کیا ہے؟

مانا کہ موجودہ دور میں زندگی کا ہرشعبہ متاثر ہے کہ جس پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے لیکن بعض چیزوں یا اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حالات کو جوکہ دگر گوں کی صورت اختیار کرچکے ہیں حتی الوسعٰی ٹھیک کرسکتے ہیں۔جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شعبہ میں کرپشن ہے یا نااہل لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔لیکن کیا انہی شعبہ جات میں ہمار ے ماہر لوگ براجمان نہیں۔خیر اپنے اپنے نظریے کی بات ہے ۔مگر افسوس اور صد افسوس تب ہوتا ہے جب انسان جان بوجھ کرغلطی کرے اور اسی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر فخر کرتا نظرآئے ۔ہمارے ہاں صحافی اور محکمہ پولیس کو معاشرہ کا ناک اور کان کا درجہ حاصل ہے لیکن اگر یہی دو لوگ یا افراد یعنی پولیس والا اور صحافی اپنے مقاصد اور فرائض سے اغرائض کرنے لگے تو یقینا معاشرہ میں بے سکونی ،بے اطمینانی اور بے چینی جیسے آثار دیکھنے کوملیں گے۔جیسے گزشتہ روزکی ایک خبر جوکہ پاکستان کے ایک قومی روزنامے کی زینت بنی تھی اور جس میں یہاں تک لکھ دیا گیا تھا کہ فلاں فلاں شخص چند ہزار کے قیمتی تحائف لے کر فلاں سے ملاقات کراتا ہے اس کے علاوہ ان کے مقامی اخباربارے بھی کچھ سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کہاں کی صحافت ہے اور کہاں کا معیار ہے۔فلاں شخص اب خبر دینے والے اور خاص طورسے قومی روزنامہ پر ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن انہوں نے ظر ف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا۔اس لئے اب بات کی جائے صحافت اور اس کے معیار کی ۔کہ کہاں تک صحافت میں حدود سننے کوملتی ہیں اور کہاں تک ان تمام حدود کے دائرہ میں رہاجاتاہے۔اسی طرح صحافت آ ج کس مقام پر ہے؟اور ساتھ صحافت کامعیارکیا ہے اور کیا واقعی میں باقی رہ گیا ہے ؟یا پھر خالی خولی وقت کا ضیاع جاری ہے۔صحافت جہاں تک ہم دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ معاشرہ میں برائی کے خاتمے اورسچائی کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار اداکرتی آئی ہے وہاں اب قریباً پریشر گروپ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ایک طرف جہاں ہم نے ماضی میں مولانا ظفر علی خان کوانگریزوں اور مغربی نظریے کے خلاف علم بلند کرتے ہوئے دیکھا وہاں آج کا خود ساختہ صحافی ،صحافت کی الف ،ب کو بھی نہیں جانتا۔بس کسی بھی یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری لو ،کسی اخبار سے کارڈ بنالو اور بن گئے صحافی۔اب جناب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ایسے صحافی کیسے اورکہاں سے معاشرہ کی برائی کے سدھار میں اپنا مثبت کردارکرپائیں گے۔یقینا ایسے افراد مستقبل میں صحافت کے نام پر دھبہ بن جائیں گے اور پھر ہم ان ہی لوگوں کی وجہ سے صحافت جیسے مقدس پیشے کو کوستے ہوئے نظرآئیں گے ،مانا کہ ہر شعبہ میں نااہلوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن کیا ایسے لوگوں کی وجہ سے ہم کسی خاص شعبہ کوبدنام کرنااچھا سمجھیں گے۔جیسے آپ ؐ کی حدیث ہے کہ ’’کسی بھی بات کو آگے کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح سے تصدیق کرلو ‘‘۔اب اسی حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے صحافت کو مطلب بھی ہماری سمجھ میں آجاتا ہے کہ صحافت دراصل وہی لوگ کرسکتے ہیں جو معاشرہ کو سدھارتا دیکھ سکیں ورنہ تو دوسرے الفاظ میں پریشر گروپ بنتے دیر نہیں لگتی ۔جیسے مذکورہ واقعہ میں قومی روزنامہ میں کسی خاص شخص کے بارے میں الفاظ کا استعمال سمجھ سے باہر ہے۔حالانکہ صحافت کا اصول بھی یہی رہا ہے کہ آپ خبر کو اس کے اصل الفاظ میں ہرگز اخبارکی زینت بننے نہ دوبلکہ صحافت کے لئے استعمال ہونے والے خوبصورت لفظوں کا چناؤ کرکے ایک طرف خبردینے والے کا موقف سامنے لاؤ تو دوسر ی جانب خبر اور صحافت کے معیار کو برقرار رکھنے میں حتی الوسعٰی کوشش کرو۔ لیکن مذکورہ اخبار میں خبردینے والے تو ساتھ اخبار میں کام کرنے والے صاحب نے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ آگے کیا ہوگا خبر چلا دی۔اب خبر عوام کے سامنے ہے ، عوام بے چاری ہوسکتا ہے صحافت کو پھر سے الزام دینا شروع کردے کہ صحافی ایسے ہیں۔۔ویسے ہیں ۔۔۔مگر جناب یہاں تو ان صاحبان کی بات ہورہی ہے جو صحافت کے ابجد سے بھی بے خبر ہیں۔ایسے لوگ جہاں زندگی کے ہرشعبہ میں دیکھنے کوملتے ہیں وہاں صحافت میں بھی موجود ہیں۔ہم اوپر ذکر کرچکے کہ صحافت اگر ہے تو مولانا ظفرعلی خان کے طرز کی ہونی چاہیے ورنہ ایسی صحافت -
Waqar Ahmad Awan
About the Author: Waqar Ahmad Awan Read More Articles by Waqar Ahmad Awan: 65 Articles with 46292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.